اسلام آباد (ای پی آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قادیانی کی ضمانت سے متعلق کیس کا فیصلہ اردومیں بھی جاری کردیا
یاد رہے کہ اس فیصلے کی خبریں اخبارات میں شائع ہونے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور دو روز سے سوشل میڈیا پر گرماگرم بحث جاری ہے. اس فیصلے کے حق میں اور مخالفت میں دو طرح کی رائے سامنے آرہی ہے .

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سوشل میڈیا سائیٹ ایکس پر ویڈیوبیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے اجازت دینے کا فیصلہ شریعت ،آئین اور قانون کے خلاف ہے،جس کو ہم علی الاعلان مسترد کرتے ہیں،

مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ مغرب کی خواہشات پر کیا گیا ہے،فیصلے میں پیش کئے گئے قرآن کریم کے حوالے غلط اور بددیانتی پر مبنی ہیں،جو ان کے شان نزول اور پس منظر سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے،آئمہ اور خطباء اپنے خطبوں میں اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کریں۔
جمعیت علماء اسلام نے قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے اور اس کے خلاف فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

فیصلے کا مکمل اردو متن
سپریم کورٹ کے روبرو
اپیل کا اختیارسماعت
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
جسٹس مسرت ہلالی
درخواست گزار۔۔۔ مبارک احمد ثانی
دونوں مقدمات میں ریاست فریق
درخواست گزار کی طرف سے شیخ عثمان کریم ایڈوکیٹ پیش
ریاست کی طرف سے۔۔
احمد رضا گیلانی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب
شبریز ڈی ایس پی
شاہد تصور او ایڈووکیٹ پیش ہوئے
تاریخ سماعت 23 فروری 2023
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کس کا فیصلہ تحریر کیا ہے
پیراگراف نمبر ایک

درخواست نمبر 1054/2023 کے فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ اس درخواست کے ذریعے درخواست گزار اپنے خلاف فرد جرم سے بعض الزامات حذف کروانا چاہتا ہے درخواست گزار کے فاضل وکیل کا کہنا ہے کہ درخواست گزار کے خلاف مورخہ 6 دسمبر 2022کوتھانہ پولیس اسٹیشن چناب نگر ضلع چنیوٹ میں درج کرائے گئے ایف آئی آر نمبر 661/2022کی بنیاد پر تین الزامات عائد کیے گئے ہیں جن تین جرائم کے الزامات درخواست گزار پر عائد کیے گئے ہیں درج ذیل قوانین کے تحت ہیں
(الف) پنجاب قرآن طباعت و ضبط قانون 2011 کی دفعہ 7 مع دفعہ 9
(ب) مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860 کی دفعہ 298c اور مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 295 بی

پیراگراف نمبر 2
آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ درخواست گزار ایک ممنوعہ کتاب تفسیر صغیر تقسیم یا پھیلا رہا تھا فاضل وکیل کا کہنا ہے کہ کسی ممنوعہ کتاب کی تقسیم ارشاد کو پنجاب قرآن شریف طباعت و ضبط ترمیم قانون کے ذریعے 2021 میں جرم بنایا گیا جبکہ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا تھا کہ درخواست گزار نے اس کا ارتکاب 2019 میں کیا تھا ہم نے ترمیم سے قبل کا قانون اور پھر اس میں کی گئی ترامیم کا جائزہ لیا اور فاضل وکیل کا یہ دعوی صحیح ہے کہ اس قانون میں مذکورہ جرم 2021 میں شامل کیا گیا

پیراگراف نمبر 3
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فرد جرم عائد نہیں کی جاسکتی جو اس وقت جرم نہیں تھا جب اس کا ارتکاب کیا گیا آئین کی دفعہ 12 ایک میں طے کیا گیا ہے کہ:
12-(1) کوئی قانون کسی شخص کو سزا دینے کا اختیار نہیں دے گا
اے
کسی ایسے فعل یا ترک پر جو فعل یا ترک کے وقت قانون کی رو سےقابل سزا نہیں تھا یا
بی
کسی جرم پر ایسی سزا دینے کا جو اس سزا سے زیادہ ہو یا اس سے اس کی نئی نوعیت مختلف ہو اس جرم کے ارتکاب کے وقت قانون کی رو سے اس کے لیے مقرر کی گئی تھی

عدالت نے لکھا ہے کہ چونکہ 2019 میں اس ممنوع کتاب کی تقسیم /شاعت جرم نہیں تھی اس لیے درخواست گزار پر یہ فرد جرم عائد نہیں کی جاسکتی تھی

پیراگراف نمبر 4
جہاں تک مجموعہ تعزیرات کی دفعات 298c اور 295 بی کا تعلق ہے جن کی فرد جرم بھی درخواست گزار پر عائد کی گئی ہے تو ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ نہ تو ایف آئی آر میں اور نہ ہی پولیس کی تفتیش کے بعد جمع کی گئی پولیس رپورٹ (چالان) میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ درخواست گزار نے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہے جس سے مذکورہ جرائم تشکیل پاتے ہیں

پیراگراف نمبر 5
شکایت کنندہ کی نمائندگی کرنے والے فاضل وکیل نے ایف آئی آر پڑھی لیکن اس میں ایسا کچھ ذکر نہیں تھا جس میں مجموعہ تعزیرات کی دفعہ 298c اور 295 بی کے تحت جرائم تشکیل پاتے چالان بھی اس سے متعلق خاموش ہے ایڈیشنل سیشن جج لالیاں کی جانب سے 24 جون 2023 کو درخواست گزار پر فردِ جرم عائد کی گئی ہے وہ مجموعہ تعزیرات کی دفعات 298c اور 295 بی کے تحت جرائم کی حد تک فرد جرم کے بارے میں ضابطہ فوجداری قانون 1898 کے انیسویں باب کے مطابق نہیں ہے ۔موجودہ مقدمہ ایسا بھی نہیں ہے جس میں فردجرم میں ترمیم کی جاسکے یا جس میں درخواست گزار کو مجموعہ تعزیرات کی دفعات 298c اور 295 بی کے تحت جرائم سے ہلکے کسی جرم کا مرتکب قرار دیا جاسکے اس لیے درخواست گزار کے خلاف فرد جرم سے مذکورہ مجموعہ تعزیرات کی دفعات 298c اور 295 بی کے تحت جرائم نکال دی جاتی ہیں ۔

پیراگراف نمبر 6
عدالت نے لکھا ہے کہ عقیدہ کے متعلق مسائل سے نمٹتے وقت عدالتوں پر لازم ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں اسلامی عقیدے کی بنیاد قرآن شریف پر ہے جس کی صورۃ البقرہ (سورۃ نمبر 2)کی آیت 256 یہاں پیش کی جاتی ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی
عدالت نے ۔۔۔لا اکراہ فی الدین ۔۔۔والی آیت کو فیصلے میں شامل کیا ہے

پیراگراف نمبر 7
عدالت نے لکھا ہے ک دین کے معاملے میں جبر سے آخرت میں محاسبہ کے متعلق خدائی نظام کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کو خالق نے یہ کہا تھا کہ ان کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کریں گے جیسا کہ قرآن شریف کی سورۃ الرعد(سورۃ 13) کی آیت 40 اورسورۃ ہود(سورۃ 11) کی آیت 99 میں تصریح کی گئی ہے عقیدے کی آزادی اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے لیکن افسوس ہے کہ دینی امور میں جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور قرآنی فریضہ بھلا دیا جاتا ہے۔
پیراگراف کا نمبر 8
عدالت نے لکھا ہے کہ قرآن کا تقاضا ہے کہ تمام اہم امور کو مطلب کے متعلق غور و فکر کیا جائے سوچا جائے سورہ نحل(سورۃ 16) آیت 44 اور سورہ یونس(سورۃ 10) آیت 24 اس مقدمے سے وابستہ تمام افراد کو ایسا کرنا چاہیے تھا لیکن اس کی بجائے ان کا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی اور اللہ کے رسول کی توہین کی گئی ہے انہیں سورۃ الحجر کی آیت9 پر بھی غور کرنا چاہیے تھا جس میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے بے شک ہم نے ہی یہ یاددہانی نازل کی ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں

پیراگراف نمبر 9
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ قرآن شریف میں مذکوریہ اصول کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے آئین میں بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے آئین کی دفعہ20 کی شق (اے )طے کرتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اس پر عمل کرنےاور اسے بیان کرنے کا حق ہوگا اور دفعہ 20 کی شق (بی) یہ کہتی ہے کہ ہر مذہبی گروہوں اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہوگا آئین کی دفعہ 22 یہ لازم اور مقرر کرتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا فرقہ کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جس کا انتظام کلی طور پر اس گروہ یا فرقے کے پاس ہو، اس گروہ یا فرقہ کے طلباء کو مذہبی تعلیم دینے سے نہیں روکا جائے گا آئین میں درج ان بنیادی حقوق سے انحراف یا گریز نہیں کیا جاسکتا

پیراگراف نمبر 10
عدالت نے لکھا ہے کہ اگر ریاست کے حکام صرف قرآن شریف پر عمل اور آئین پر غور کرتے اور قانون کا جائزہ لیتے تو مذکورہ بالا جرائم کے متعلق ایف آئی آر درج نہ کرائی جا سکتی اس لیے فوجداری درخواست برائے اپیل نمبر 1054 بابت 2023 کو اپیل میں تبدیل کرتے ہوئے منظور کیا جاتا ہے اور معترضہ حکم نامہ کو منسوخ کرتے ہوئے درخواست گزار کے خلاف عائد کی گئی فردجرم سے پنجاب طباعت و ضبط قانون 2011 کی دفعہ 7 بمع دفعہ9 اور مجموعہ تعزیرات کی دفعات 298c اور 295 بی کو حذف کیا جاتا ہے۔

پیراگراف نمبر 11
فوجداری درخواست نمبر1344بابت2023 اس درخواست کے ذریعے درخواست گزارضمانت پر رہائی جاتا ہے گزشتہ تاریخ سماعت پر ہم نے درج ذیل حکم نامہ جاری کیا تھا:
فاضل وکیل کا کہنا ہے کہ درخواست گزار کو سات جنوری 2023کو گرفتار کیا گیا ہے اور اگر زیادہ سے زیادہ کوئی جرم بنتا ہے ہیں تو وہ فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ 5 کے تحت ہوگا کیوں کہ اس کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے ایک ممنوعہ کتاب یعنی تفسیر صغیر تقسیم کی ہے جس پر زیادہ سے زیادہ چھ مہینوں کی سزائے قید دی جاسکتی ہے فاضل وکیل کا مزید یہ کہنا تھا کہ ایف آئی آر چھ دسمبر 2022 کو درج کرائی گئی جبکہ جرم کا ارتکاب مبینہ طور پر 7 مارچ 2019 کو کیا گیا تھا اور اس تاخیر کی وضاحت پیش نہیں کی گئی اور ملزم 7 جنوری 2023 سے قید میں ہے ۔

پیراگراف نمبر 12
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم نے فاضل ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب( اے جی پی) سے پوچھا کہ درخواست گزار کا مذکورہ دعویٰ غلط تو نہیں ہے اور فاضل اےجی پی نے کہا کہ یہ غلط نہیں ہے

پیراگراف نمبر13
اگر درخواست گزار پر فوجداری ترمیمی قانون 1932 کی دفعہ 5 کے تحت فرد جرم عائد نہیں کیا گیا لیکن یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ اس جرم کے عناصرایف آئی آر اور فرد جرم میں مذکور تھے اس لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 227 کے تحت فرد جرم میں ترمیم کی جاسکتی تھی اور مقدمہ جاری رکھا جا سکتا تھا کیونکہ اس ترمیم سے درخواست گزار کا کوئی قانونی نقصان نہیں ہوتا اس لیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا درخواست گزار کو مذکورہ دفعہ 5 کے متعلق ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے ؟

پیراگراف نمبر 14
درخواست گزار کو7 جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد وہ 13 مہینوں سے قید میں ہے جو اس سزا کے دوگنا سے زیادہ ہے جو فوجداری ترمیمی قانون انیس سو بتیس کی دفعہ 5 کے تحت زیادہ سے زیادہ دی جا سکتی ہے جن جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزائے قید کی مدت کم ہو ان کا مقدمہ جلد اختتام تک پہنچنا چاہیے یا ملزم کو ضمانت پر رہا کرنا چاہیے تاہم 10 جون 2023 کو ایڈیشنل سیشن جج نے درخواست گزار کی ضمانت مسترد کر دی یہ سوچے بغیر کہ درخواست گزار مذکورہ جرم کے لیے مقرر کی گئی زیادہ سے زیادہ سزائے قید پہلے ہی بھگت چکا ہے ہائی کورٹ کے فاضل جج نے بھی مقدمے کا یہ اہم پہلو نظر انداز کرتے ہوئے درخواست گزار کی درخواست ضمانت بذریعہ حکم نامہ مورخہ 27 نومبر 2023 کو مسترد کردی

پیراگراف نمبر 15
چونکہ درخواست گزار کے مجرم ثابت ہونے پر اسے مذکورہ جرم کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ مہینوں کی سزائے قید سنائی جاسکتی تھی جو وہ پہلے ہی قید میں گزار چکا ہے اس لیے اسے مزید قید میں رکھنے سے اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی آئین کی دفعہ 9نے طے کیا ہے کہ کسی شخص کو سوائے قانون کے مطابق ، اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا کوئی قانون درخواست گزار کو مزیدقید میں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا اور آئین کی دفعہ 10( اے) منصفانہ سماعت اور مناسب طریقہ کار کی ضمانت دیتی ہے جس سے درخواست گزار کو محروم کیا گیا ہے ان دو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ ایک اور زیادہ وسعت رکھنے والا حق ہے جو آئین کی دفعہ 4 نے طے کیا ہے”” ہر شہری کا ناقابل تنسیخ حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو "درخواست گزار کے ساتھ مزید قانون کے مطابق سلوک نہیں ہوا کیونکہ اپنے مقدمہ کے اختتام کا انتظار کرتے ہوئے اس نے قید میں اس سے زیادہ وقت گزارلیاہے جو وہ اس صورت میں گزارتا اگر وہ مجرم ثابت ہوتا
پیراگراف نمبر 16
ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹتے ہوئے جذبات حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں جیسا کہ لگتا ہے کہ اس مقدمے میں بھی ہو انجی شکایت کنندگان ریاست کی جگہ آ جاتے ہیں اگرچہ ان جرائم کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ یہ کسی فرد یا نئی چیز جائیداد کے خلاف نہیں ہیں۔

پیراگراف نمبر 7 1
اس لئے فوجداری درخواست اپیل 344 بابت 2023 کواپیل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اسے منظور کرتے ہوئے معترضہ حکم نامہ منسوخ کیا جاتا ہے اور یہ حکم دیا جاتا ہے کہ درخواست گزارکوایف آئی آر نمبر 661/22 کی بنیاد پر بننے والے مقدمے میں پانچ ہزار روپے کے ذاتی مچلکے پر فوراضمانت پر رہا کیا جائے۔
چیف جسٹس۔۔۔۔جج
اسلام آباد
6فروری 2024 اشاعت کیلئے منظور


فیصلے پر ردعمل میں جے یو آئی کے رہنما مولانا عبدالغٍفور حیدری نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی رائے کو احمقانہ اور جاہلانہ قرار دے دیا اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔۔

اس فیصلے کے تناظر مٰں سب سے پہلے جماعت اسلامی کے رہنما فرید احمد پراچہ نے ویڈیوبیان میں کہا ہے کہ فیصلہ خلاف قانون و آئین ہے.

اس کے علاوہ مولانا ابتسام الہی ظہیر نے بھی سخت ردعمل دیا ہے

دوسری جانب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے وکیل نے ویڈیو پیغام میں عدالت عظمی کے فیصلے کو درست قراردیا ہے.

https://www.facebook.com/share/v/7jqfqjCrcoktKjr3/?mibextid=xfxF2i

دریں اثنا جماعت اسلامی کے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے عدالتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ قادیانیوں سے متعلق اس موضوع پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ پہلے سے موجود ہے.

https://www.facebook.com/watch/?v=1131975981587362