اسلام آباد (عابدعلی آرائیں) اسلام آباد ہائیکورٹ میں 28 فروری 2024 کو بلوچ لاپتہ طلبا سے متعلق کیس کی 35منٹ کی مکمل سماعت کا احوال
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ40منٹ کمرہ عدالت میں موجود رہے

نگران وزیراعظم گیارہ بج کر پانچ منٹ پر جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت نمبر دو میں پہنچ کر نشست پر بیٹھے اس دوران پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق کیس کی سماعت جاری تھی جس میں سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے گرفتاریوں کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کی رپورٹ جمع کرائی ،
عدالتی استفسار پر سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ یہ رپورٹ نومبر میں آگئی تھی جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس رپورٹ کو اب تک چھپا کرکیوں رکھا گیا تھا؟جس پر سیکرٹری نے جواب دیا کہ وزیراعظم کی ہدایت تھی کہ رپورٹ کابینہ کے سامنے پیش کی جائے گی اس لیے ابھی اس کو پبلک نہیں کرناان کا کہنا تھا کہ اب حکومت سازی کا عمل جاری ہے اس لئے رپورٹ کو اب نئی منتخب کابینہ دیکھے گی۔

عدالت نے قراردیاکہ اس رپورٹ میں ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کے متعلقہ حکام کیخلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے، بادی النظر میں شیریں مزاری کے بطور ملزم ایک پولیس سے دوسری پولیس کوٹرانسفرکرنے کےقانونی عمل کو بائی پاس کیا گیا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ اس مقدمہ کو مقصدوفاق کے اندر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کودیکھنا ہے عدالت نے وفاقی سیکرٹری کو ہدایت کی کہ اس رپورٹ کی دو مصدقہ کاپیا ں عدالت میں جمع کرائیں ۔ اس دوران شیریں مزاری کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت سے درخواست کی کہ کمیشن کی رپور ٹ کی کاپی انہیں بھی فراہم کی جائے تاہم عدالت نے کیس کی سماعت اپریل کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی
پانچ منٹ میں یہ کارروائی ختم ہوئی تو
بلوچ لاپتہ طلباکی بازیابی کیلئے ایمان مزاری کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کا آغاز11 بج کر 10منٹ پر ہوا
تو اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان دیگر سرکاری وکلا کے ہمراہ روسٹرم پرآئے اور نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی روسٹرم کے قریب آگئے

اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ دیاپچھلے سماعت پرجو طلبا لاپتہ تھے ان میں سے 11 طلباواپس گھر آچکے ہیں ہماری رپورٹ کے مطابق 2 طلباپاکستان میں نہیں ہیں،4 طلبا کو ابھی ٹریس نہیں کیا جاسکا جبکہ 9 طلباسی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں،
اس دوران درخواست گزار ایمان مزاری نے بتایا کہ انہوں نے چیک یا ہے لیکن 9 طلباء ابھی تک لاپتہ ہیں
اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم عدالت میں موجود ہیں وزیراعظم روسٹرم پر آئے تو جسٹس محسن کیانی نے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیاکہ کیا آپ نے کیس کا رکارڈ دیکھا ہے؟؟دو سال میں اس کیس کی 26 سماعتیں ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک طلباء بازیاب نہیں کروائے جاسکے، ابھی تک ہم تعین کررہے ہیں یہ یہ لاپتہ ہوئے ہیں یا نہیں؟یہ تاثر ہے کہ پاکستان میں ادارے طلبا کو لاپتہ کررہے ہیں ۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے، ریاستی اداروں کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، شہریوں کے تحفظ کا کام ریاستی اداروں نے کرنا ہے اور جوابدہ بھی ادارے ہی ہونگے ۔ جسٹس محسن کیانی نے سوال اٹھایا کہ
اب جو طلبا آزاد ہوکر آئے ہیں ایجنسیوں نے ہی ان کو کلیئر کرکے بھیجا ہے،کوئی ادارہ یا فرد قانون سے بالا تر نہیں سب لوگ جواب دہ ہیں ، جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیراعظم سے کہاکہ آ ٓپ نے عدالت میں پیش ہوکر ثابت کیا ہے کہ وفاقی سیکرٹریزسمیت کوئی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔جسٹس کیانی کا کہنا تھاکہ ایجنسی اور پولیس والے کسی کو گرفتار کریں تو اسے عدالت میں پیش کریں جبری گمشدگیوں پر پوری دنیا میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔
، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، پچھلی سماعت پر ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی آئی اور ڈی جی ایم آئی پر مشتمل کمیٹی اسی لیے بنائی ،
اس پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے موقف پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہم تمام لوگ قانون کے حدود میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں،عدالت نے ہمیں بلایا ہم حاضر ہوئے، میں خود بلوچستان سے ہوں،میری بنیاد بلوچستان سے ہے، وہاں ہم عسکریت پسندی کا سامنا کر رہے ہیں ،اس عسکریت پسندی کو میں نے، اٹارنی جنرل یا ایمان مزای نے نہیں کرنا جو وہ لوگ مسلح جدو جہد کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی اداروں نے کرنی ہے
ان مسلح گروہوں نے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کونماز کے دوران شہید کردیا کیونکہ انہوں نے ایک کمیشن کی سربراہ کرتے ہوئے رپورٹ دی تھی ۔انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ الزامات بہت لگائے جاتے ہیں، لیکن عسکریت پسند صوبے کے لوگوں کو شہید کرتے ہیں، پاک فوج کے نواجوانوں کو زندہ جلایا گیا ، پنجاب سے گئے ہوئے مزدور مارے گئے،نان سٹیٹ ایکٹرز نسل کشی کر رہے ہیںلیکن یہاں پہ سول سوسائٹی کے نام پر لوگ کھڑے ہو کر ان کا دفاع کرتے ہیں، نگران وزیراعظم نے کہاکہ وہاں ہائی وے پر روک کر شناختی کارڈ دیکھتے ہیں ، چوہدری نام ہے تو گولی مار دیتے ہیں،گجر نام ہے تو گولی ماردی جاتی ہے
انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ یہ کہتے ہیں کہ سٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں،سسٹم میں خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں،دہشت گردی سے نوے ہزار شہادتیں ہوئیں لیکن 90لوگوں بھی کو سزا نہیں ہوئی،مجھے صحافی نے پوچھا کہ آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟ پیرا ملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، نگران وزیراعظم نے کہاکہ میں صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں، لاپتہ افراد کا پوچھیں تویہ لوگ پانچ ہزار نام دے دیتے ہیں،یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے،ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں،

اس دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ
جبری گمشدگی بالکل ایک مختلف معاملہ ہے اگر کسی واقعہ میں کوئی ملوث ہے تو اس کو متعلقہ عدالت میں پیش کیا جانا چاہیئے اب 26 سماعتوں کے بعد آپ نے بتایا ہے کہ کچھ لوگ سی ٹی ڈی کے تحویل میں ہیں ان کو عدالتوں میں کس نے لیکر جانا ہے ؟لیکن لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرکے ملک نہیں چلایا جاسکتا
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے سی ٹی ڈی کے پاس جو 9 لوگ ہیں ان کو فروری میں گرفتار کیا گیا اب منتخب حکومت ان معاملات کو دیکھے گی لیکن آئے دن اس طرح کے الزامات سے جان چھوٹنی چاہیئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ریاستی اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں کو پراسیکیوٹ نہیں کرسکے، اگرقانون میں سقم ہے اورثبوت نہیں ہیں تواس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ قانون ایک ہی ہے،اس کے مطابق ہی چلنا ہے۔ اگرکسی کوگرفتارکریں تواس متعلق پتہ ہونا چاہیے۔ عدالتوں نے بہت بڑے دہشت گردوں کو بھی سزائیں دی ہیں۔کوئی عدالت نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ دینے کا نہیں کہہ رہی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیاکہ کیا اس معاملے پر آپ قانون سازی کرسکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں قانون سازی نہیں کرسکتا ، نئے پارلیمان کے پاس اختیارات ہونگے وہ کرسکتے ہیں،
جسٹس محسن کیانی نے کہاکہ ایف آئی آر کے انداراج کا اختیار صرف پولیس کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں،اسی ملک میں بڑے بڑے دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں ہوئیں، جن لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے انکو عدالتوں میں پیش کرنا لازم ہے،یہ معاملہ بڑی سیاسی جماعتوں کو اٹھاکر حل کرنا چاہیے، جسٹس کیانی نے کہاکہ بلاشبہ یہ ایک جنگ ہے جو ہماری فوج اور ادارے لڑرہے ہیں۔ آپ نے بہت اچھی باتیں کیں لیکن بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں،اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں،انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھااس کی ویڈیو بھی بن گئی تھی لیکن اب تک ذمہ داران گرفتار نہیں ہوئے

نگران وزیراعظم نے کہا ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کےخلاف کاروائی ہونی چاہیے

جبری گمشدگیوں کا نگران سیٹ اپ میں بڑا مسئلہ تھا ہم نے اپنی بھرپور کوشش کی،ہمارے سامنے شواہد نہیں آتے تو کس چیز پر معاملہ حل کریں؟ بلوچستان کے نانسٹیٹ ایکٹرز میری زندگی کے پیچھے پڑے ہیں  کیا میں اپنی زندگی کے لئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کروں یا ریاست پاکستان اور عدالتوں سے؟ہم نے 6 سو نان سٹیٹ ایکٹرز کو قومی دھارے میں شامل کیا،

اس موقع پر
جسٹس محسن اختر کیانی اور وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا نگران وزیراعظم نے کہاکہ اقوام متحدہ کا بھی ایک طریقہ ہے وہ پوچھتے ہیں کون لاپتہ ہوا، وہ پوچھتے ہیں آپ جسٹس محسن اختر کیانی ہیں آپ لاپتہ ہو گئے ہیں،
اس پر جسٹس محسن کیانی نے نگران وزیراعظم سے سوال کیاکہ کیا آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میں نے جبری لاپتہ ہو جانا ہے؟ اس پروزیراعظؐ نے کہاکہ نہیں میں مثال دے رہا ہوں،چلیں میں انوارالحق کاکڑ کا نام لے لیتا ہوں،

ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے کہا جب لاپتہ افراد کی بات کی جاتی ہے تو معاملے کو دہشتگردوں کی طرف لے کر چلے جاتے ہیں  لاپتہ افراد کے اہلخانہ کیلئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے، یہ تاثردرست نہیں کہ ہم ریاست کےخلاف کوئی پروپیگنڈا کررہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں، ہم کبھی بھی دہشتگردی کو سپورٹ نہیں کرتے۔ کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں۔
ایمان مزاری نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ یہاں نگران وزیراعظم جبری گمشدگیوں پر نہیں انسرجنسی پر بات کررہے ہیں، ریاست خود ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے ہیومن رائٹس کمیشن و دیگر داروں کے رپورٹ موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں پاکستان کا نمبر کیا ہے،
اس پر نگران وزیراعظم نے کہاکہ ایمان مزاری میری چھوٹی بہن ہے مگر انکی رپورٹ سے میں متفق نہیں، بین الاقوامی رپورٹس میں پاکستان سے آگے اور بھی ممالک ہیں،میں نے ریاست کی بات کی ہے گمشدہ افراد کی لواحقین کے حوالے سے بات نہیں کی،جس کو دیکھو ہمیں لواحقین کے نام پر لیکچر دے رہے ہیں،

جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیراعظم سے کہاکہ آپ نے بہت اچھی باتیں کی ہیں لیکن زمینی حقائق اپنی جگہ موجود ہیں ہم ایکشن کی جانب جارہے ہیں  ہم نے خفیہ اداروں کے سربراہان پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے آئندہ انٹیلیجنس اداروں کی اس کمیٹی سے پوچھیں گے اس کمیٹی میں اٹارنی جنرل کو بھی شامل کیا ہے ۔
جس پر وزیراعظم نے کہاکہ میری درخواست ہوگی کہ یہ اختیارایگزیکٹوکا ہے اسی کو کرنے دیں لیکن ہم نے کمیٹی کی تشکیل کاآرڈر چیلنج بھی کیا ہے۔
وزیراعظم اپنا موقف دینے کے بعد عدالت سے روانہ ہوگئے تو جسٹس محسن کیانی نے ایمان مزاری کومخاطب کرتے ہوئےکہاکہ وزیراعظم کا اپنا لیول ہے انہوں نے جو خطاب کرنا تھا کرلیا لیکن اگر یہ مقدمہ دائر نہ ہوتا تو جو لاپتہ افراد برآمد ہوئے ہیں وہ نہ ہوتے
، آپ کی درخواست پر کاروائی ہوئی،سب نے اپنا کام اور کردار ادا کیا لیکن ری کور ہونے کے بعد کوئی کبھی بھی عدالت میں نہیں آیا۔ ہمیں ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ مسنگ پرسنز بازیابی کے بعد عدالت نہیں آتے۔جو لوگ بازیاب ہوئے انکے گھر والوں کی خوشی کا کسی کو اندازہ نہیں ہوگا،
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی ۔کیس کی سماعت گیارہ بج کر 45منٹ پر اپنے انجام کو پہنچی۔