اسلام آباد (عابدعلی آرائیں)اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 فاضل ججز جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کے نام 06 صفحات اور 11 پیراگرافس پر مشتمل خط سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، چیف جسٹس عامر فاروق اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان کے نام لکھا گیا ہے۔ خط کی کاپیاں سپریم کورٹ کے تمام ججز اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہیں۔ خط کے ساتھ ہائیکورٹ کے ججز کی طرف سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے نام ماضی میں لکھے گئے 2 خطوط بھی منسلک کئے گئے ہیں۔

پیراگراف نمبر 1
ججز نے لکھا ہے کہ ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے لکھ رہے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رہنمائی کرے کہ انتظامیہ اور ان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اقدامات کو کیسے رپورٹ کیا جائے اور ان کا جواب کیسے دیا جائے جن اقدامات کے ذریعے وہ ججز کے فرائض کی انجام دہی میں مداخلت کرتے ہیں یا انہیں دھمکیاں دیتے ہیں اور اگر کسی ایک جج کے علم میں اپنے ساتھی ججز کے حوالے سے یا ہائی کورٹ کی نگرانی میں کام کرنے والی ماتحت عدالتوں کے ججز کے حوالے سے کوئی معلومات ملتی ہے تو وہ اس کو کس طرح رپورٹ کرے۔

پیراگراف نمبر 2
ججز نے خط میں لکھا ہے کہ 23 مارچ 2024 کو سپریم کورٹ کی طرف سے شوکت عزیز صدیقی بنام وفاق پاکستان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ معاملہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ شوکت عزیز صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی غلط رپورٹ کی بنیاد پر 11 اکتوبر 2018 کو عہدے سے غلط طور پر ہٹایا گیا اور شوکت صدیقی کو بطور جج ہائیکورٹ ریٹائر تصور کیا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس صدیقی کو آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید پر کھلے عام الزامات لگانے کی بنیاد پر ہٹایا گیا ان الزامات میں جسٹس صدیقی نے کہا تھا کہ جنرل فیض حمید اسلام آباد ہائیکورٹ کے بینچز کی تشکیل کرواتے ہیں اور احتساب عدالت اسلام آباد کی کارروائی میں مداخلت کرتے ہیں۔

پیراگراف نمبر 3
خط میں کہا گیا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف اور وفاقی حکومت نے جسٹس صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی تھیں اس کے علاوہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے جسٹس صدیقی کے جانب سے لگائے گئے الزامات پر اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ مبذول کرائی تھی ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے جسٹس صدیقی کے مقدمے میں قرار دیا ہے کہ کسی جج کو مس کنڈکٹ کے الزامات کی انکوائری کے بغیر منصب سے نہیں ہٹایا جا سکتا ۔ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات کی تحقیقات سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ کوڈ آف کنڈکٹ کی روشنی میں کرے گی اور وہ انکوائری مفروضات کی بنیاد پر اخذ کئے گئے جج کے رویئے کی بنیاد پر نہیں کی جائی گی، سپریم کورٹ نے یہ بھی ڈیکلئیر کیا ہے کہ جسٹس صدیقی کے خلاف جو بھی اقدامات کئے گئے وہ بدنیتی پر مبنی تھے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر جا کر اقدامات کئے۔

پیراگراف نمبر 4
اگرچہ سپریم کورٹ نے جسٹس صدیقی کو ایک حد تک الزامات سے بری کر دیا ہے تاہم ان کو غیر قانونی طور پر عہدے سے ہٹائے جانے کے کئی سال بعد ان کو ہونے والے نقصان کا کوئی مداوا نہیں ہے مزید یہ کہ کیا اس وقت کے ڈی جی سی آئی ایس آئی کے اقدامات در حقیقت اسلام آباد ہائیکورٹ اور احتساب عدالت کے کام میں مداخلت نہیں تھے؟ یہ معاملہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور اگر وہ اس طرح مداخلت کرتے تھے تو وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے عدلیہ کی آزادی کو انڈر مائن کیا ہے؟ اور وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے مداخلت کے عمل میں معاونت اور سہولتکاری کی ان کا احتساب ہونا چاہئے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے اقدامات اور اس طرح کے کنڈکٹ کو دہرانے کا عمل روکا جا سکے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس صدیقی نے اپنا مطالبہ میڈیا انٹرویوز میں دہرایا ہے کہ آئی ایس آئی کے حکام کی طرف سے عدالتی کارروائی میں انجینئرنگ کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئے۔

پیراگراف نمبر 5
ججز نے کہا ہے کہ ہم جسٹس صدیقی کی اس درخواست کی حمایت کرتے ہیں کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیئے اور ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ ایسی تحقیقات کا دائرہ کار اس حد تک وسیع کیا جائے جس میں یہ تعین کیا جائے کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے انتظامی امور بشمول بینچز کی تشکیل اور مقدمات کی مارکنگ کے معاملے میں مداخلت ہوتی ہے یا نہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی نگرانی میں کام کرنے والی ماتحت عدالتوں کی کارروائی میں مداخلت ابھی تک ہو رہی ہے یا نہیں؟ اس بات کا تعین بھی کیا جائے کہ کیا ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس یا سپیشل کورٹس کے ججز انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے پس پردہ دھمکیوں کے زیر اثر رہ کر کام کر رہے ہیں؟خط میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ بھی نوٹ کرتے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ججز کے لئے فراہم کردہ ضابطہ اخلاق میں اس حوالے سے کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے کہ اگر انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں یا عدالتی آزادی میں مداخلت کی جاتی ہے تو اس طرح کے واقعات پر جج کیسے ردعمل دیں یا رپورٹ کریں۔

پیراگراف نمبر 6
فاضل ججز نے لکھا ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مندرجہ زیل واقعات کی روشنی میں اس بات کی انکوائری اور یہ تعین ہونا چاہئے کہ کیا ریاست کی انتظامی برانچ کی کوئی جاری پالیسی ہے جس پر انٹیلی جنس حکام کی طرف سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے اور وہ ججوں کو سیاسی نوعیت کے مقدمات میں عدالتی فیصلوں کو انجینئر کرنے کے لئے ججز کو دھمکیاں دیتے یا بلیک میل کرکے انتظامیہ کو رپورٹ کرتے ہیں ۔
اے۔
محمد ساجد بنام عمران احمد نیازی کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے ممبران کے درمیان اختلاف رائے سامنے آیا اس کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر 30 جنوری 2023 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا ۔ بینچ کی سربراہی کرنے والے جج نے اپنی رائے کا مسودہ ساتھی ججز میں سرکولیٹ کیا اس رائے میں فاضل جج نے درخواست قابل سماعت قرار دی تھی لیکن دیگر 2 ججز نے اس سے اختلاف کیا اور مختلف رائے دی ۔ وہ رائے 19 اپریل 2023 کو سرکولیٹ کی گئی ۔ عمران خان کے خلاف دائر درخواست کو ناقابل سماعت قرار دینے والے ان دونوں ججز پر آئی ایس آئی کے حکام کی طرف سے دوستوں اور رشتہ داروں کے توسط سے دباؤ ڈالا گیا کہ وہ یہ رائے دیں کہ یہ پٹیشن قابل سماعت ہے۔ اس دباؤ کے بعد اپنے تحفظ کے خوف سے انہوں نے اپنے گھروں کے لئے اضافی سیکیورٹی مانگی ان میں سے ایک جج کو دباؤ کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہوا اور انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے علم میں لایا گیا اس کے بعد 2 مئی 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقات کے دوران بھی چیف جسٹس کے علم میں لایا گیا۔ 3 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملے اور آئی ایس آئی حکام کی طرف سے عدالت امور میں مداخلت کے بارے میں تحفظات سے آگاہ کیا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے تجویز دی کہ وہ پہلے ہی ڈی جی سی آئی ایس آئی سے بات کر چکے ہیں اور ڈی جی سی آئی ایس آئی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو آئی ایس آئی کا کوئی بھی افسر اپروچ نہیں کرے گا۔ ججز نے لکھا ہے کہ اس سارے عمل کے باوجود انٹیلی جنس حکام کی طرف سے مداخلت کا سلسلہ جاری رہا۔
بی۔
مئی 2023 میں ایک مسلح شخص نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے بہنوئی کو اغوا کیا وہ تقریبا 24 گھنٹے بعد رات کے وقت واپس پہنچا بعد میں اس نے انکشاف کیا کہ انہیں کچھ لوگوں نے اغوا کیا تھا جو آئی ایس آئی کے اہلکار ہونے کا دعوی کر رہے تھے اوراغوا کاروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے جج کے خاندان کے افراد کی سرویلنس کی جس میں جج کا بیٹا بھی شامل تھا لیکن بعد میں انہوں نے جج کے بہنوئی کو اغوا کرنے کا انتخاب کیا ۔ اغوا کاروں کی تحویل میں مغوی کو بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے اور اسے مجبور کیا گیا کہ وہ اغوا کاروں کی ہدایات کے مطابق ویڈیو ریکارڈ کرائیں اسے جھوٹے الزامات لگانے کے لئے ٹارچر بھی کیا گیا اس عمل کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ایک شکایت درج کی گئی ساتھ ساتھ جج کو استعفی دینے پر مجبور کرنے کے لئے میڈیا پر منظم مہم چلائی گئی تاکہ جج کو دباؤ میں لایا جا سکے ۔
سی۔
ججز نے تیسرا واقعہ لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ 3 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ضلعی عدالتوں کی انسپکشن کرنے والے جج نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو رپورٹ دی کہ ضلعی عدالت کے ججز کو دھمکیوں کا سامنا ہے اور کم از کم ایک ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کو دھمکیاں دی گئی ہیں اور اسے خوفزدہ کرنے کے لئے اس کے گھر میں کریکر پھینکے گئے تھے یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چائے کے کمرے میں تمام ججز کی موجودگی میں بھی ڈسکس کیا گیا۔ایسٹ ڈویژن اسلام آباد کی نگرانی کرنے والے متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ضلعی عدالتوں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کی ان رپورٹس کی تصدیق کے لئے فوری طور پر ہائیکورٹ بلوایا گیا جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ہائیکورٹ کے انسپکشن جج کے ساتھ شئیر کی تھیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک دوسرے جج کی موجودگی میں ان رپورٹس کی تصدیق کی اس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بعد میں آفیسرز سپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا کرپنجاب بھجوانے سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ بھجوا دیا گیا کیونکہ وہ بطور جوڈیشل آفیسر ڈیپوٹیشن پر تعینات تھے اب وہ بہاولپور میں تعینات ہیں۔
ڈی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 10 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے چیف جسٹس ہائیکورٹ کو خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ آئی ایس آئی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اور ججز نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے درخواست کی کہ ان اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے تاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے امور کو انتظامیہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر آگے بڑھایا جا سکے تاہم چیف جسٹس کی طرف سے کوئی بھی کارروائی شروع نہیں کی گئی اس خط کی کاپی بھی منسلک کی گئی ہے۔
ای۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے مناسب سمجھا کہ یہ معاملات سپریم کورٹ کے سامنے لائے جائیں اس ضمن میں چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کا وقت لیا گیا 19 مئی 2023 کواسلام آباد میں موجود اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی اس روز چیف جسٹس ہائیکورٹ لاہور میں تھے اور ایک جج کی سرجری تھی اس وجہ سے وہ ملاقات میں شامل نہ ہو سکے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے ہونے والی اس ملاقات میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے یہ معاملہ ان کے نوٹس میں لایا گیا تو ہائیکورٹ کے ججز کو کہا گیا کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کرے گی لیکن اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کو ساتھی ججز کے کے ساتھ مشاورت کا موقع دیا جائے۔ ججز نے لکھا ہے کہ اسی روز ہم سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی سے بھی ملے اور یہ معاملہ ان کے سامنے بھی رکھا۔
ایف۔
ججز نے لکھا ہے کہ سال 2023 کی گرمیوں کی چھٹیوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج اپنی سرکاری رہائش گاہ منتقل ہوئے گھر کی معمول کی مرمت کے دوران دیوار پر لگی ایک لائٹ کو ہٹانا پڑا تو انکشاف ہوا کہ لائٹ کی جگہ ویڈیو کیمرہ نسب کیا گیا ہے جس کے ساتھ ایک سم کارڈ بھی لگایا گیا تھا اور اس کیمرے کے ذریعےجج کے گھر کے ڈرائنگ روم سے آڈیو اور ویڈیوز ریکارڈ کی جا رہی تھیں اور انہیں کہیں منتقل کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح کا ایک اور کیمرہ جج کے گھر کے ماسٹر بیڈروم میں بھی لگایا گیا تھا سرویلنس کے آلات میں سے یو ایس بیز بھی برآمد ہوئیں جن میں جج اور اس کے فیملی ممبران کی پرائیویٹ ویڈیوز سٹور کی گئی تھیں وی ویڈیوز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی موجودگی میں چلا کر دیکھی گئیں تاکہ ان کے اندر موجود مواد کی تصدیق کی جا سکے یہ معاملہ بھی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے علم میں لایا گیا اس بات کا کوئی تعین نہیں کیا گیا کہ یہ آلات کس نے نصب کئے اور یہ تعین بھی نہیں کیا گیا کہ ایک جج اور اس کے خاندان کی ریکارڈنگز کرنے کا منصوبہ ساز کون ہے اور کس کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
جی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے 12 فروری 2024 کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو ایک خط لکھا جس میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ انہوں نے سنا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار ضلعی عدلیہ کے ججز کو فرائض کی ادائیگی کے عمل میں مداخلت کر رہے ہیں تاکہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو انڈر مائن کیا جا سکےججز نے اس معاملے پر فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تاکہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق اس تشویش ناک امر کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس خط میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو غیر قانونی سرویلنس کے ذریعے دھمکایا جا رہا ہے اورججز کی پرائیویسی میں مداخلت ایک فیشن بن چکا ہےتاہم فل کورٹ اجلاس ابھی تک نہیں بلایا گیا اس دوسرے خط کی کاپی بھی سپریم جوڈیشل کونسل کو منسلک کر کے بھجوائی گئی ہے۔

پیراگراف نمبر 7
ججز نے خط میں لکھا ہے کہ مندرجہ بالا واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہماری عدالتی تاریخ میں عدلیہ کی آزادی کو انڈر مائن کرنے اور انتظامیہ کے مفاد کے مقدمات میں دباؤ کا منصوبہ کارفرما رہا ہے تو ایسے منصوبے کا راستہ روکنا چاہئے۔ جسٹس شوکت صدیقی کے معاملے میں آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی مداخلت کے الزامات کو ڈیل کیا گیا ہےاور سابق جج کو ریلیف فراہم کیا گیا ہےہم یقین رکھتے ہیں کہ ایسا ایکشن ضروری تھا لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

پیراگراف نمبر8
بطور جج ہم تمام ججز ہر صورت عوام کو انصاف کی فراہمی کا آئینی حلف لیتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ ہم آئین و قانون کے مطابق بلا خوف و خطر انصاف فراہم کریں گے ۔ اپنے حلف کا تحفظ کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ عوامی مفاد میں عدلیہ ہر سائل کو کسی دباؤ میں آئے بغیر انصاف فراہم کرے۔ فاضل ججز نے لکھا ہے کہ اس امر کی ضرورت ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو موجودہ وقت میں یقینی بنایا جائے تاکہ ججز کی صلاحیتوں پر عوام کا اعتماد موجود رہے ۔

پیراگراف نمبر 9
ججز نے لکھا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے دئیے گئے ضابطہ اخلاق میں ججز کے لئے ایسی کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ اگر انتظامیہ یا انٹیلی جنس اہلکاروں کی طرف سے کوئی دباؤ ڈالا جائے تو ججز کو کیسے ردعمل دینا چاہئے یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ایک جج اس مداخلت اور دھمکیوں کو کیسے ثابت کر سکتا ہے اگر وہ ایسی رپورٹس دیتا ہے تو اس کو ثابت کرنے کا بار بھی جج پر آتا ہے یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگر ججز کو انفرادی طور پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ان کے کام میں مداخلت بھی کی جاتی ہے اور بطور ادارہ عدلیہ اس طرح کی دھمکیوں اور مداخلت کو روکنے کے لئے کیا اقدامات کر سکتی ہے؟ اگرچہ ہم عدالتی احتساب کی ضرورت کو مکمل طور پر سپورٹ کرتے ہیں ۔ جج کے کنڈکٹ کی سکروٹنی کی بنیاد اس کا انٹیلی جنس ایجنسیوں یا انتظامیہ کی منشاء کے خلاف فیصلے نہیں ہونے چاہئیں۔

پیراگراف نمبر 10
ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ججز کا چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی طرح بہادر ہونا ضروری نہیں ہے انہوں نے انتظامیہ کے ظلم و ستم کے خلاف خود جنگ لڑی ۔ اسی طرح جسٹس صدیقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے برطرف کئے جانے کے بعد غلط اقدام کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی اگربنیادی حقوق کے تحفظ اور عوامی مفاد میں قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لئے عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی فیچر ہے تو عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لئے ادارے کے رسپانس کی اشد ضرورت ہے۔

پیراگراف نمبر 11
فاضل ججز نے لکھا ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکیوں کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو انڈر مائن کرنے کے معاملات کا جائزہ لینے کے لئے ایک عدالتی کنونشن بلایا جائے اس کنونشن کو مزید معلومات بھی فراہم کی جائیں کہ کس طرح ہائی کورٹ کے ججز مختلف تجربات سے گزرے ہیں اس طرح کی ادارہ جاتی مشاورت سپریم کورٹ کو بہتر معاونت فراہم کر سکتی ہے تاکہ وہ اس چیز کا تعین کر سکے کہ عدلیہ کی آزادی کا بہتر تحفظ کیسے کرنا ہے اور عدلیہ کی آزادی کو انڈر مائن کرنے والوں کے تعین کا میکنزم تیار کیا جا سکے اورانفرادی طور پر ججز کے مفاد کو واضح کیا جا سکے تاکہ وہ خود عدالتی امور میں مداخلت کرنے اور انتظامیہ کے دھمکی دینے والے ارکان کے خلاف ایکشن لینے کا راستہ اختیارکر سکیں