اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے ساتھ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کو ہائیکورٹ کے 7 ججز نے 10 مئی 2023 کو خط لکھاگیا خط منسلک کیا ہے ،چیف جسٹس عامر فاروق کو خط لکھنے والے ان 7 ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔ یہ خط 2 صفحات اور 3 پیراگرافس پر مشتمل ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ محترم جناب ہم انتہائی غصے اور تشویش کے ساتھ مندرجہ ذیل واقعات آپ کے علم میں لانا چاہتے ہیں جن کے ذریعے سیاسی کیسوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔
پیراگراف نمبر1
جسٹس طارق محمود جہانگیری کو براہ راست اور ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے اپروچ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ انہیں درخواست کی گئی تھی کہ وہ سیکٹر کمانڈر اسلام آباد سے ملاقات کریں اور جسٹس جہانگیری کے ایک رشتہ دار پر سیکٹر کمانڈر کوئٹہ کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جسٹس جہانگیری اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ملاقات میں سہولت کاری کریں جسٹس جہانگیری کو میسج کر کے دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی تاکہ جس بینچ کا وہ حصہ ہیں وہاں سے اپنی پسند کا فیصلہ لیا جا سکے۔
پیراگراف نمبر 2
7 ججز کی طرف سے چیف جسٹس عامر فاروق کو بتایا گیا تھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی کو دباؤ میں لانے کے لئے ان کے ایک رشتہ دار کے ذریعے کوششیں کی گئیں تاکہ ان سے ایک کیس میں دباؤ کے تحت من پسند فیصلہ لیا جائے کیونکہ وہ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ تھے، جسٹس محسن اختر کیانی کو انتظامی اختیارات کے تحت کارروائی کر کے ملوث کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ان تمام کوششوں کے باوجود جسٹس محسن کیانی نے ان کی کوئی مدد کی اور نہ ہی ان کو خود تک رسائی فراہم کی۔
پیراگراف نمبر 3
خط میں چیف جسٹس عامر فاروق کو بتایا گیا ہے کہ جسٹس ارباب محمد طاہر پر بھی ان کے ایک رشتہ دار کے ذریعے دباؤ ڈالا گیا جب وہ کوئٹہ گئے تو ان کے خاندان کی طرف سے بتایا گیا کہ آئی ایس آئی جسٹس ارباب محمد طاہر کے ٹیکس کے معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے تاکہ کوئی خامی ڈھونڈ لی جائے خط میں بتایا گیا ہے کہ سیکٹر کمانڈر اسلام آباد اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی رابطہ کیا تاکہ اس معاملے میں من پسند فیصلہ لیا جائے جس کا فیصلہ وہ پہلے ہی لکھ چکے تھے۔
7 ججوں نے خط میں لکھا تھا کہ ہم سب کی متفقہ رائے ہے کہ انتظامیہ اور انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے عدالتی کارروائیوں پر اثر انداز ہونے کی مختلف کو ششیں کی جا رہی ہیں اور ان معاملات پر بھی دباؤ میں لایا جا رہا ہے جن میں مقدمات کے فیصلے لکھ کر دستخط کئے جا چکے ہیں لیکن وہ فیصلے ابھی جاری نہیں کئے گئے ۔ اس حوالے سے سنگین نتائج کی دھمکیاں واضح توہین عدالت ہیں اس لئے ہم یہ تجویز دیتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا جائے تاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر عوامی اعتماد بحال کیا جائے کہ یہ عدالت بلا خوف و خطر انصاف کی فراہمی کر رہی ہےاور عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس عدالت کے جج آئین کے تحت قانون کی حکمرانی کے لئے اٹھائے گئے حلف کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہیں عوام تک یہ تاثر بھی جانا چاہئے کہ اس عدالت کے ججز آزادذہن کے ساتھ میرٹ پر ہر کیس کا فیصلہ کرتے ہیں ۔