اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے ساتھ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کو ہائیکورٹ کے 5 ججزکی طرف سے 12 فروری 2024 کو لکھا گیا دوسرا خط بھی منسلک کیا ہے خط .لکھنے والے پہلے5 ججز میں جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔ ان کے اس خط کی توثیق ہائیکورٹ کے انتظامی کمیٹی کے ممبر ججز جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی تھی۔ یہ خط3 صفحات اور 4 پیراگرافس پر مشتمل ہے۔
خط میںکہا گیاہے کہ ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کی گرتی ہوئی ساکھ کے باعث ہم انتہائی پریشانی کے عالم میں یہ خط لکھ رہے ہیں کہ آئین اور قانون کے تحت قائم کی گئی اس عدالت کے بارے میں عوامی تاثر یہ بنتا جا رہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور قانون کے مطابق اس طرح فیصلے نہیں کر رہی جس طرح ہم سب نے حلف اٹھایا ہے ہم سب کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور اکثر نامناسب تنقید ہو رہی ہے جس کی وجہ مقدمہ بازی کا نظام ہے۔ ہم یہ تنقید اس لئے برداشت کرتے ہیں کیونکہ عوامی اعتماد کے لئے ہم اپنا قانونی اختیار استعمال کرتے ہیں لیکن ہم اپنے اس ادارے کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ ہمارا ضابطہ اخلاق یہ تقاضا کرتا ہے کہ انصاف کے اس ادارے کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے کام کریں اور یہ بات یقینی بنائیں کہ انصاف نہ صرف ہو رہا ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آ ئے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بھی یہی چاہتی ہے اور ہمیں فوری طور پر کوئی مناسب قدم اٹھانا چاہئے اس لئے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل مسائل کے حل کے لئے فل کورٹ اجلاس بلایا جائے ۔
پیراگراف نمبر 1
ضلعی عدلیہ کی نگرانی
فاضل ججز نے لکھا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 203 یہ اختیار دیتا ہے کہ ہائیکورٹ اپنی تمام ماتحت عدالتوں کی نگرانی کرے گی بنیادی طور پر جب سے آپ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا منصب سنبھالا ہے اس وقت سے ہمارا نگرانی کا نظام کمزور ہے اور ہم نے اس کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے
اے۔
ضلعی عدالتوں کے ججز مکمل طور پر خود مختاری اور آزادی انجوائے کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور مسلسل انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت سے متاثر ہو رہے ہیں اس حوالے سے الزامات ہیں کہ آئی ایس آئی کا انسپکٹر ججز کو سیکٹر کمانڈر کے دفتر میں بلاتا ہے تاکہ انہیں ہدایات دے سکے اور ان کے عدالتی کام میں بھی مداخلت کرتا ہے اگر یہ الزامات سچ ہیں تو یہ الزامات انتہائی شرمناک ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔
بی۔
ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ضلعی عدلیہ کے عدالتی کام میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کی رپورٹ دی ہےیہ معاملہ ایک انسپکشن رپورٹ کے ذریعے آپ کے علم میں لایا گیا یہ رپورٹ انسپکشن جج کی طرف سے آپ کے سامنے پیش کی گئی۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو آفیسرز سپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا دیا گیا کچھ ماہ معطل رکھنے کے بعد اسے پنجاب بھجوا دیا گیا کیونکہ اسے وہاں سے ڈیپوٹیشن پر لایا گیا تھا یہ سارا عمل انتظامی کمیٹی کے ساتھ مشاورت کے بغیر کیا گیا حتی کہ متعلقہ انسپکشن جج کے ساتھ بھی مشاورت نہیں کی گئی۔
سی۔
اس قسم کے الزامات بھی ہیں کہ ضلعی عدلیہ کے کچھ ممبران کی مالی ساکھ اچھی نہیں ہے ایسا ہی تاثر حال ہی میں جاری کی گئی کرپشن انڈیکس رپورٹ میں دیا گیا ہے اور یہ معاملہ آپ کے علم میں لایا گیا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا کچھ ججز کی ساکھ کے حوالے سے خدشات آپ کے ساتھ شئیر کیئے گئے ہیں نہ تو ابھی تک اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور نہ ہی ضلعی عدالتوں کے ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے احکامات جاری کرتے وقت انسپکشن ججز سے مشاورت کی جاتی ہے اس طرح انسپکشن ججز کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔
ڈی۔
ضابطہ اخلاق تقاضا کرتا ہے کہ تمام معاملات میں یکسانیت یقینی بنائی جائے گی عدالتوں میں کچھ مقدمات ہمارے زیر نگرانی سالوں تک لٹکائے جاتے ہیں لیکن سیاسی لوگوں سے متعلق کچھ ٹرائلز برق رفتاری سے نمٹائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف میڈیا میں تنقید ہوتی ہے بلکہ وکلاء برادری کے اہم ارکان کی طرف سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ کچھ مقدمات کے ٹرائل آدھی رات تک بھی جاری رہتے ہیں جیسا کہ ججز کو ہدایت کی گئی ہو کہ وہ پہلے سے طے شدہ ایک ٹائم فریم کے اندر فیصلے جاری کریں ایسا ہونا اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے جاری کئے گئے نوٹیفیکیشن کی خلاف ورزی ہے اس نوٹیفیکیشن میں ماتحت عدالتوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ہر صورت صبح ساڑھے آٹھ سے دوپہر ساڑھے تین بجے تک کام کریں گی۔
پیراگراف نمبر 2
بینچوں کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنا
ججز نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر مفصل بحث کے بعد فیصلہ دیا ہے اور اس قانون کو برقرار رکھا ہے اس فیصلے میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس بینچوں کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا اختیار چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار نہیں ہے ہم سب نے آپ پر چائے کے کمرے میں گفتگو کے دوران زور دیا تھا کہ کیس مینجمنٹ سسٹم کی ساکھ بحال کرنے اور شفافیت لانے کے لئے سپریم کورٹ والا طریقہ اپنانا چاہئے
اے۔
انتظامی کمیٹی پالیسی گائیڈ لائنز کی روشنی میں انتظامی کمیٹی کی بجائے رجسٹرار یہ امور کس طرح سرانجام دے سکتا ہے چیف جسٹس کا دفتر مقدمات مارک کرنے کا عمل کرنے کا پابند ہے جبکہ رجسٹرار کا کردار اس نوعیت کا نہیں ہے ججز نے کہا ہے کہ کیس مارکنگ اور فکسیشن کا کام ہائیکورٹ رولز کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے اور یہی گورننس پریکٹسیز ہیں۔
بی۔
5 ججز کی طرف سے خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے دور میں مقدمات کی مارکنگ اور فکسیشن ہائیکورٹ رولز کے مطابق ہی ہوتی تھی ان کے دور میں مقدمات کی بینچوں کو مارکنگ سینئر ترین جج کو تفویض کی گئی تھی لیکن جب آپ چیف جسٹس بنے تو آپ نے وہ پریکٹس معطل کر دی اور فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس ہی یہ اختیار استعمال کرے گا حالانکہ آپ سابق چیف جسٹس کے پورے دور میں بطور سینئر جج یہ اختیار استعمال کرتے رہے مقدمات کی اس طرح مارکنگ اور فکسنگ کا اختیار استعمال کرنا قانون کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی یہ متاثر کن پالیسی چوائس کہی جا سکتی ہے۔
سی۔
ججز نے خط میں لکھا ہے کہ معاشرے میں یہ تنقید کی جاتی ہے کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات ہائیکورٹ کے ایک ہی بینچ کے سامنے مقرر کئے جاتے ہیں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ کیوں خصوصی بینچ تشکیل دئیے جاتے ہیں اور ان بینچوں کے رکن ججز کو ہی سیاسی نوعیت کے مقدمات میں بٹھایا جاتا ہے شفافیت کے لئے ضروری ہے کہ بینچ کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کے لئے ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے اگر ہم چاہتے ہیں کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے ۔
ڈی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ سیاسی نوعیت کے معاملے میں ایک واقعہ یہ بھی ہوا ہے کہ اس معاملے کا فیصلہ پہلے 3 میں سے 2 ججز نے کیا لیکن بعد میں وہی مقدمہ ایک اور نئے بینچ کے سامنے مقرر کر دیا گیا خط میں کہا گیا ہے کہ3 رکنی بینچ کے 2 ممبران نے مقدمہ ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا لیکن آپ نے بطور سربراہ بینچ اکثریتی فیصلے کی توثیق نہیں کی یہ واضح نہیں ہے کہ کونسا انتظامی اختیار ایسا ہے جو چیف جسٹس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ مقدمات دوبارہ اس صورت میں سماعت کے لئے مقرر کرے جب ایک اکثریتی فیصلہ پہلے ہی دیا جا چکا ہو۔
ای۔
خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 2022 میں ایک جوڈیشل آرڈر جاری کیا جس میں رجسٹرار آف کو یہ ہدایت کی گئی کہ جن مقدمات میں حکم امتناعی جاری کئے گئے ہیں ان کو ایک مخصوص ٹائم پیریڈ کے دوران سماعت کے لئے مقرر کیا جائےمقدمہ بازی کی پریکٹس میں یہ بنیادی عنصر ہے کہ اس معاملے کو محدود کیا جائے کیونکہ عبوری ریلیف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طویل عرصے تک سٹیٹس کو برقرار رکھا جائے اور کسی ایک پارٹی کو مقدمہ بازی میں تاخیر کی وجہ سے غیر ضروری فائدہ حاصل ہو۔ ضابطہ اخلاق ججز کو پابند بناتا ہے کہ وہ مختصر مدت میں مقدمات کے فیصلے کریں یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ رجسٹرار آفس میں کس طرح ایک جوڈیشل آرڈر کی بے توقیری کی گئی۔
پیراگراف نمبر 3
اجتماعی فیصلہ سازی
ججز نے خط میں لکھا ہے کہ آئین پاکستان وضاحت کرتا ہے کہ ہائیکورٹ چیف جسٹس اور ججز پر مشتمل ہوتی ہےآئین چیف جسٹس کو دیگر ججز کے برابر گردانتا ہے اور ہائیکورٹ رولز چیف جسٹس کو کچھ انتظامی ذمہ داریاں تفویض کرتے ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے اختیار کئے گئے ہائیکورٹ رولز ان امور کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جنکا فیصلہ انتظامی کمیٹی نے کرنا ہوتا ہے اور رولز ان معاملات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جنکا فیصلہ تمام ججز نے فل کورٹ میٹنگ میں کرنا ہوتا ہے یہ فیصلہ سازی کے فورم ہیں جنہیں مؤثر انداز میں کام کرنا چاہئے ۔ہائیکورٹ قانون کے مطابق اپنے انتظامی اختیارات استعمال کرتی ہے اور ہائیکورٹ رولز کے تحت آپ کی قیادت میں کام ہوتا ہے اس میں ضرور تبدیلی کی جانی چاہئے تاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور اس کی نگرانی میں کام کرنے والی ماتحت عدالتوں کو ہائیکورٹ کی پشت پناہی حاصل ہونے چاہئے ناکہ صرف چیف جسٹس کی ۔ کیونکہ صرف چیف جسٹس سے ہائیکورٹ کی تشکیل مکمل نہیں ہوتی ۔
پیراگراف نمبر 4
اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی اور ساکھ
ججز نے لکھا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے کام میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مداخلت جاری ہے آپ مختلف واقعات سے آگاہ ہیں جہاں پر جبر اور دھمکیوں سے ججز کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی مزید یہ کہ ایک جج کے خلاف 2 ریفرنس دائر کئے گئے اس کے ساتھ ساتھ ریاستی حکام کی طرف سے جج کو سکینڈلائز کرنے کے لئے انتہائی تضحیک آمیز پریس کانفرنسز کی گئیں تاکہ جج کو دباؤ میں لا کر استعفی دلوایا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ججز کی غیر قانونی سرویلنس کے واقعات بھی ہوئے ہیں اور ایسے واقعات کے ذریعے ججز کی پرائیویسی کی خلاف ورزی فیشن بن چکا ہے ہر واقعہ کے بعد آپ نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ عدالتی امور میں مداخلت کے غیر قانونی واقعات اب نہیں ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح اسلام آباد کی حدود سے شہریوں کے غائب ہونے کے واقعات بھی ہو رہے ہیں ماضی میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کے دور میں ایسے واقعات کو مؤثر انداز میں روکا گیا تھا لیکن ایسے واقعات اب دوبارہ شروع ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کو بنیادی حقوق کے اطلاق کے لئے مثال قائم کرنی چاہئے کہ آئین کی بے توقیری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک خاندان کی طرح بہترین تعلقات رکھتے ہوئے امور سرانجام دے رہے ہیں مختلف قانونی سوالات پر اختلافات کے باوجود آپ کی قیادت میں ہائیکورٹ میں بہترین ورکنگ انوائرمنٹ ہے ہم اس حوالے سے بھی محتاط ہیں کہ ہمارا ضابطہ اخلاق ہم پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہم عدالت میں ہم آہنگی کو برقرار رکھیں لیکن ہماری ذمہ داری آئین اور قانون کی بالادستی، ہائیکورٹ کے رولز کی پابندی اور اپنے حلف کی پاسداری کریں۔ یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ عدالت کے سامنے اٹھائے گئے یہ مسائل فوری طور پر حل کئے جائیں۔
ججز نے خط میں لکھا ہے کہ ہم آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ فوری طور پر فل کورٹ میٹنگ بلائی جائے جس میں ادارے کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تاکہ ہم مشترکہ طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے چلا سکیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی بلا خوف و خطر انصاف کی فراہمی کی ساکھ کو بحال کر سکیں یا ہم بحران کے دوران عدلیہ کو درپیش چیلنجز سے نمبردآزما ہو سکیں۔