لاہور (ای پی آئی )جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں گزارشات اردو میں کرنا چاہتا تھا لیکن غیر ملکی وفود کی وجہ سے کچھ گزارشات انگلش میں کروں گا ۔سپریم کورٹ کی معروف وکیل مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر سوشل ایکٹوسٹ تھیں ان کی بڑی خدمات ہیں ۔عاصمہ جہانگیر کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ موجود تھا ،عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت میرے لئے باعث اعزاز ہے ،عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات قابل ستائش ہیں اور وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے کوشاں رہتی تھیں

انھوں نے کہا کہ ناں میں یہاں سپریم کورٹ کے دفاع کے لئے موجود ہوں اور نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری عدلیہ قابل فخر ہے عدلیہ پر سیاہ دھبے موجود ہیں جن پر میں فخر نہیں کر سکتا ۔عدلیہ کی طرف سے برے اور اچھے فیصلے بھی دیئے گئے عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرنا آپ میں سے ہر کسی کا حق ہے ۔میں آج آپ کو بتاؤں گا کہ ملک میں عدلیہ کا مستقبل کیا ہے ۔ادارے کو مستقبل میں مضبوط کرنے کے لئے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے میں مستقبل کے بارے میں بات کرونگا ۔پوری عدلیہ میں اصلاحات ناگزیر ہیں اور یہی وقت ہے کہ ہم اپنے گھر کو درست کریں تاکہ ہمارا ادارہ آئین کے مطابق کام کرے تاکہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے اس حوالے سے میرے ذہن میں نظام میں اصلاح کا ایک خاکہ موجود ہے ۔آئین کے مطابق عدلیہ بالکل آزاد ہونی چاہیے ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس وقت آئین کے دیباچے میں لکھا ہوا ہے کہ عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہوگی یہ بنیادی ضرورت ہے جس کو ہم نے حاصل کرنا ہے میں آپ کے ساتھ ایسے آئیڈیاز شیئر کر رہا ہوں جس سے ملک میں بہتر شفاف نظام بن سکتا ہے ۔شفاف نظام افراد نہیں چلاتے بلکہ نظام چلاتا ہے جب تک ہم انفرادیت سے نکل کر نظام کی طرف نہیں آتے یہ نظام ہر فرد کے تابع رہے گا اور وہ ادھر سے ادھر ہوتا رہے گا اس لئے اس ادارے میں تسلسل نہیں ہے ایک چیف جسٹس آتے ہیں وہ نظام کو ایک طرف لے جاتے ہیں دوسرے چیف جسٹس آتے ہیں وہ نظام کو دوسری طرف لے جاتے ہیں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آگیا ہے جس سے اجتماعی سوچ آرہی ہے ۔

انھوں نے کہا کہ جب تک اجتماعی سوچ نہیں آتی اور ہم ایک نظام کے تحت نہیں چلتے بہتری نہیںآسکتی۔انفرادی طور پر اداروں کو چلانے کی سوچ کو بھولنا پڑے گا،اگر ہم چند اصلاحات کر جائیں تو ہم مضبوط عدالتی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔آئین ہمیں کہتا ہے کہ ایک آزاد عدلیہ ہونی چاہیے جو آپ کو فوری اور سستا انصاف دے ان تینوں چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے آزاد نظام ہونا چاہیے میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میںاپنی عدلیہ کی تاریخ پر فخر نہیں کرتا اس میں سیاہ داغ موجود ہیں میں نہ ان کا دفاع کر سکتا ہوں اور نہ میں ان کا دفاع کرنا چاہتا ہوں ۔

انھوں نے کہا کہ عدلیہ کے اچھے فیصلے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں ،میں بتانا چاہتا ہوں کے ادارے میں مستقبل کی سوچ کیا ہے ،25 کروڑ کی آبادی جس کو سپریم کورٹ سمیت عدلیہ خدمات فراہم کر رہی ہے ۔عدلیہ کے کچھ فیصلے برے ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان میں روزانہ 4 ہزار ججز کام کر رہے ہوتے ہیں وہ عوام ڈیلیور بھی کر رہے ہیں لیکن میں مانتا ہوں کہ کچھ ایسے فیصلے بھی ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں ۔صرف 2023 میں جنوری سے دسمبر تک عدلیہ نے 1.69 ملین مقدمات کے فیصلے کئے ہیں ۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ آخر کچھ جج صاحبان کام تو کر رہے ہیں اس لئے اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے لیکن عدالتی نظام چل بھی نہیں رہا ،لیکن یہ ضرور ہے کہ کچھ فیصلے آکر اس پر حاوی ہو جاتے ہیں ۔اور یوں لگتا ہے کہ نظام غیر فعال ہے لیکن پھر بھی اس کو اور بہتر بنانا چاہتے ہیں ۔لیکن پھر اس نظام کو بہتر کرنا چاہتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ ہمارے دیوانی مقدمات ،فوجداری مقدمات ،ٹیکس معاملات ،ملازمتوں کے مقدمات کے فیصلے ہو رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہمارا نظام سست ہے ،ہر آدمی یہ بات کرتا ہے کہ سول کورٹ سے سپریم کورٹ تک مقدمہ جانے میں 20 سال لگ جاتے ہیں یہ کام سب سے غلط ہے کیونکہ آئین کہتا ہے کہ تیز ترین نظام انصاف ہونا چاہیے ۔عدلیہ کی موجودہ قیادت اس نظام میں بہتری کے لئے سوچ رہی ہے اور اقدامات کیئے بھی جا رہے ہیں تاکہ نظام کو ددرست کر سکیں ۔اس وقت پاکستان میں تقریباً 2.4 ملین مقدمات زیر التوا ہیں ۔ اب اگر ہم نے آگے چلنا ہے تو اس میں بہتری لانا ہو گی ورلڈ بینک جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق ہماری عدلیہ کا 142 ممالک میں 130 واں نمبر ہے یہ کوئی اچھا تاثر نہیں ہے ۔یہ اچھی تصویر نہیں ہے عوام کے دماغ میں ہے کہ ہم زیادہ ڈیلیور نہیں کر رہے ۔یہ عوام کی اپنی سوچ ہے اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے راستہ یہ ہے کہ سب سے ضروری چیز ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ہے اگر ہم ٹیکنالوجی یا آرٹیفشل انٹیلی جنس کا نظام نہیں لائیں گے اور پرانے فرسودہ نظام کے ساتھ چلتے رہیں گے تو آگے نہیں بڑھ سکتے اور نہ ہی 2.4ملین مقدمات کو ختم کر سکتے ہیں اور اسی طرح نچلی عدالت سے کیس اعلیٰ عدلیہ تک آنے میں بھی سال لگیںگے ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس وقت ہماری نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے سمارٹ ٹیکنالوجی کی طرف جانا ہے کیونکہ کوئی بھی سیشن جج اپنے ضلع کا کسی بھی مقدمہ کے بارے میں تفصیلات نہیں بتا سکتا جب تک ہر ضلع میں ڈیٹا کے موازنے کا نظام نہیں بنے گا اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی ہم جو نیا نظام بنانا چاہ رہے ہیں اس میں ہر کیس کی لائف ہسٹری کے اندر جو جو مسائل ہیں ان کو نام دے رہے ہیں اور تمام مقدمات کا ڈیٹا اکٹھا کریں گے ۔کلرکوڈڈڈیش بورڈ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ہم ڈیش بورڈ کو کھول کر کیس کے بارے میں بتا سکیں کہ کونسا مقدمہ کس سطح پر ہے جو ہم آج نہیں بتا سکتے اور ہم سیشن ججز کو یہ نہیں بتا سکتے کہ کونسا کیس ٹھیک کریں میں ان کےمسائل کے ایریاز نہیں بتا سکتا ۔اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ہوگا جس میں کلر کوڈنگ کے ذریعے ہم بتا سکتے ہیں کہ کونسے مقدمات ریڈ ،اورنج یا گرین ایریا میں ہیںآئیڈیل پاکستان یہ ہوگا کہ تمام اضلاع کے مقدمات گرین ایریا میں پہنچ جائیں اور ہمارے تمام کیسز ختم ہو جائیں اسی طرح کا نظام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ہونا چاہیے ۔اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کا نظام نہیں لایا جائے گا تو ملک کا عدالتی نظام اسی طرح چلتا رہے گا ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو دیکھنا ہے کہ ججز کس طرح تعینات ہوتے ہیں یہ سب سے سنگین معاملہ ہے جس میں ہائیکورٹ یا دوسری عدلیہ کے ججز کی تقرری ہوتی ہے ۔کچھ ایسے ججز بھی آئے جن کو چائنہ بیچ ججز کہتے ہیں کیونکہ وہ بڑی آسانی سے ٹیسٹ دے کر جج بن گئے میں یہ کہہ کر چین کو کم تر نہیں کہہ رہا لیکن ججز کے چائنہ بیچ نے جو نتائج دکھائے وہ بھی سامنے آگئے ہونگے اس لئے ججز کی تقرری کا عمل سٹیٹ آف دی آرٹ ہونا چاہیے اس حوالے سے ہمیں سوچنا ہوگا جوڈیشل کمیشن کے پاس رولز زیر التواء ہیں جن میں ہم نے دیکھنا ہے کہ ججز کی تقرریاں کیسے کرنی ہیں ۔ہم جس کو جج تعینات کرنے جا رہے ہیں اس کا بغور جائزہ لینا ہوگا کیونکہ اس نے 20 سال نظام میں رہنا ہے ۔اور وہ نظام کو بٹھا بھی سکتا ہے اور نظام کو کھڑا بھی کر سکتا ہے اس لئے بہت لازماً ہے وہ جج آپ کس لیتے ہیں ۔جج کی تقرری میں عوامی سماعت میرا اپنا نظریہ ہے تاکہ آپ اس کے کردار اور اس کے کام کے بارے میں دیکھیں اور یہ سفارشات اور درخواستوں سے کہ یہ اس کا بیٹا یا اس کا بیٹا ہے ججز اس طرح نہیں بنانے ہم نے جج میرٹ پر بنانے ہیں اگر نظام کو چلانا ہے ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو جج کارکردگی نہیں دکھا رہا اس کو نکال کر باہر کرنا ہوگا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک جج کارکردگی نہیں دکھا رہا لیکن وہ اس نظام میں اگلے 20 سال تک بیٹھا رہے اگر کوئی جج نا اہل ہے وہ کام نہیں کرتا اس کو مس کنڈکٹ کے ذریعے نکال باہر کیا جانا چاہیے ۔یہ ہو نہیں سکتا کہ لوگوں کے کام کو آپ اس طرح ڈیل کریں ہمیں سپریم جوڈیشل کونسل کو مزید با اختیار بنانا ہو گا۔حال ہی میں ہونے والے فیصلے آپ نے دیکھے ہیں ابھی ہمارے چیف جسٹس (قاضی فائز عیسیٰ ) نے اس پر کافی سنجیدہ ایکشن لیا ہے ۔سپریم جوڈیشل کونسل کو مزید مضبوط کرنا ہے کیونکہ عدلیہ میں کرپشن اور نا اہلی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔یہ دونوں چیزیں آپ کو نظام سے نکال کر باہر پھینکنی پڑیں گی ۔اس کے لئے بڑی بدمزگی ہوتی ہے ججز کو نکالنا اتنا آسان نہیں ہے اس پر پھر گروپنگ ہو جاتی ہے ڈسٹربینس ہو جاتی ہے لیکن ہمیں اس معاملے کو ضرور چھیڑنا پڑے گا تاکہ ہم کام نہ کرنے والے ججز کو ہٹانے کا مقصد حاصل کر سکیں۔۔انھوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل آئینی عدالتوں کے ججز کی بات کرتی ہے لیکن ضلعی عدالتوں کا نظام بھی ہمیں اسی طرح کا بنانا پڑے گا ،ہائیکورٹس کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کو بھی متحرک ہونا پڑے گا اور اسے یہ اختیار دینا پڑے گا کہ جو ججز کام نہیں کرتے ان کو نکال سکے ۔جج کو نکالا جانا بہت ضروری ہوگا کرپشن اور نا اہلی بالکل برداشت نہیں ہونی چاہیے ۔.

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مقدمات کی مینجمنٹ کا نظام چوتھا اہم ترین معاملہ ہے دیکھنا ہوگا کہ کوئی طریقہ کار ہے یا ایسے ہی مقدمات ججز کے پاس لگ جاتے ہیں ۔کہ یہ کیس اس جج کے پاس لگا دیں کہ مجھے کوئی رزلٹ چاہیے یہ نہیں ہوسکتا ججز کے پاس مقدمہ جانے کا شفاف نظام ہونا چاہیے اس معاملے میں سب سے خوش آئند چیز پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے جس میں کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ کیس کہاں جانا ہے صرف چیف جسٹس فیصلہ نہیں کرتا کہ کیس کہاں جانا ہے ماضی میں جو چیزیں ہوتی رہیں اس کا مداوا ہو سکتا ہے ۔اس قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو ہم نے مضبوط کرنا ہے ہمارا نظام چیف جسٹس کے ماتحت چلنے والا نظام ہے لیکن میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کریڈٹ دونگا کہ انھوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں اپنے اختیارات کو محدود کیا اور ایک کمیٹی بنائی شاید ماضی میں کوئی ایسا اقدام نہ کرتا اس پر میں ان کی ستائش کرتا ہوں ۔انھوں نے کہا کہ ایک آدمی ادارہ نہیں چلا سکتا اجتماعی دانش سے نظام کو چلانا ہوگا آپ نے دیکھا کہ ماضی میں ہماری عدالت سے ایڈونچر ازم بھی بہت ہوا۔ ایک آدمی جو سوچے اس طرح چل پڑتا ہے یہ نہیں ہونا چاہیے مقدمات مقرر کرنے اور بینچ بنانے کا عمل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو سکتا ہے اور اس عمل میں شفافیت آسکتی ہے اس حوالے سے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اگر کوئی انگلی اٹھائے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آرٹیفشل انٹیلی جنس کا سسٹم ہے یہ مقدمات مارک کر کے سماعت کے لئے مقرر کرتا ہے ہمیں انفرادی قسم کا کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ جانتے ہیں ہمارے سسٹم میں مافیا زکام کر ر ہے ہیں ،جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مقدمات کو مختلف سطح پر کہا ںکہاںسے گزارنا ہے ٹیکنالوجی کے استعمال سے یہ بھی ختم ہو جائے گا اس طرف بھی ہمیں جانا ہوگا انفرادی سوچ کو اب ختم کرنا پڑے گا ۔انھوں نے کہا کہ ضلعی عدلیہ میں 2 ملین مقدمات زیر التواء ہیں جو تمام مقدمات کا 90 فیصد ہیں اصل مسئلہ ضلعی عدالتوں میں ہے اس حوالے سے ہمیں عالمی پریکٹس کو دیکھنا ہے کہ دنیا کیا کر رہی ہے ہم ایک ہی ڈگر پر چلے ہوئے ہیں لیکن دنیا میں طریقہ کار تبدیل ہو چکے ہیں ۔آخر میں عدالتوں میں جایا جاتا ہے اس سے پہلے تنازعات کے حل کے لئے دیگر فورم موجود ہوتے ہیں جن کو تنازعات کے حل کا متبادل فورم کہا جاتا ہے ۔ پاکستان کے 138 ضلعوں میں میڈی ایشن سینٹرزقائم کیئے جائیں گے جہاں لوگوں کو بھیج کر جکہا جایا گا کہ وہاں جا کر آپ اپنا مسئلہ حل کر سکتے ہیں پنجاب میں ہم نے یہ تجربہ کیا تو 40 فیصد مقدمات ٹرانسفر ہوئے ۔دنیا میں 90 فیصد مقدمات متبادل فورمز پر حل ہوتے ہیں صرف 10 فیصد مقدمات عدالتوں میں آتے ہیں لیکن پاکستان میں 100 فیصد مقدمات عدالتوں میں آتے ہیں ۔جو بالکل غلط ہے اور ہمیں اس کو ٹھیک کر کے مصالحتی نظام کی طرف آنا پڑے گا ۔وزیر قانون یہاں پر موجود ہیں ہمیں حکومت کے اس ضمن میں کیئے گئے اقدامات کو سپورٹ کرنا ہوگا ۔اگر وکلاء یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پریکٹس بیٹھ جائے گی تو میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ ایک دن میں ایک کیس مکمل کر کے اگلے دن دوسرا کیس پکڑیں 10 سال ایک کیس کیوں چلانا ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں 4 ہزار مقدمات روزانہ دائر ہوتے ہیں اور ضلعی عدالتوں میں 70 ہزار مقدمات روزانہ دائر ہوتے ہیں اس لئے اس مسئلے کے حجم کو دیکھیں اسی وجہ سے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوپاتے ۔یہ کہنا آسان ہے کہ کیس کو 20 سال گزر گئے لیکن مسئلے کو بھی دیکھیں اگر آپ متبادل نظام نہیں لائیں گے توعدالتی نظام تباہ ہو جائے گا

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں کل ججز کی منظور شدہ تعداد 4 ہزار ہے جن میں سے 3 ہزار ججز موجود ہیں باقی تقرریاں نہیں ہوئیں اور پاکستان کی آبادی 23 کروڑ سے زائد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ 10 لاکھ افراد کے لئے 13 ججز کام کرتے ہیں ۔عالمی سطح پر ایک ملین افراد کے لئے 90 ججز ہوتے ہیں ۔اگر اس تناسب کو مد نظر رکھیں تو ہمیںعدالتی معاملات حل کرنے کے لئے 21 ہزار ججز کی ضرورت ہے ، اس لئے اب یہ گلہ نہیں ہوسکتا ہے 10 سال مسئلہ حل ہونے میں لگ گئے ان تمام معاملات کے بارے میں حکومت کو سوچنا چاہیے اس کے لئے ہمیں رقم کا بندوبست کرنا ہوگا ،برازیل میں بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ عدلیہ پر خرچ کیاجاتا ہے ۔آرمی پر خرچ دوسرے نمبرپر آتا ہے ۔پاکستان میں عدالتی فیصلوں کا نظام اس لئے نہیں چل رہا کہ وکلاء کی طرف سے التواء کی درخواستیں آتی ہیں ۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 80 فیصد التواء کے ذمہ دار وکیل ہیں اس حوالے سے وکلاء اور بار کے رہنماؤں کو سوچنا ہوگا جس طرح عدالتوں میں تسلسل نہیں اس طرح وکلاء کی طرف سے تسلسل نہیں ہے ۔بار کا ایک صدر ایک بات کر کے جاتا ہے تو دوسرا آکر کہتا ہے میں نے یہ بات نہیں کی ۔بارز کو اپنے موقف میں تسلسل لانا ہوگا ادارہ اس طرح نہیں چل سکتا ہم سب نے ملکر سوچنا ہوگا کہ التواء کا کیا کرنا ہے ،ساری دنیا میں جھوٹے مقدمات پر جرمانے عائد کیئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے ۔یہ رواج ڈالتے ہیں تو بارز اپ سیٹ ہو جاتی ہیں ،بارز کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ جھوٹی مقدمہ بازی کو روکنے کے لئے جرمانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ،ہم اس طرف جا رہے ہیں اگر کوئی بندہ کسی شہری کو سپریم کورٹ تک جھوٹے مقدمہ میں گھسیٹتا ہے تو اسے جرمانہ ہونا چاہیے ،پوری دنیا میں یہ پریکٹس ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں کیا جاتا ۔بارز کے بڑے اس معاملے کو دیکھیں

جسٹس منصور علی شاہ نے وکلاء کی ہڑتالوں پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئے روز ہڑتالیں کی جاتی ہیں ،ترکی میں کوئی معاملہ ہو جائے تو چنیوٹ میں ہڑتال ہوجاتی ہے ۔کرکٹ میچ ہارنے پر گوجرانوالہ میں ہڑتال ہوجاتی ہے اس طرح عدلیہ نہیں چل سکتی ،آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ مقدمات میں الجھے ہوئے شہری کو ہڑتال کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے یہاں تک کہ لوگوں کو اپنا مال مویشی بیچنے پڑ تے ہیں ،لوگ اپنی بکریاں اور بھینسیں عدالت آنے کے لئے بیچتے ہیں آگے آتے ہیں تو عدالتوں میں ہڑتال ہوتی ہے اس حوالے سے بارز کچھ سوچیں ،

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسٹے آرڈرکلچر بھی ختم ہوگا کیونکہ جو آئی ٹی سسٹم آئے گا اس کے تحت اسٹے لمبے عرصہ تک نہیں چلتا رہے گا ،ہمارے کندھے پر اسٹے لیکر مقدمات کو لمبے عرصہ تک نہیں چلایا جا سکے گا یہ خودکار نظام اس مافیا کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں دے گا جو اس وقت نظام سے کھیل رہا ہے ،ہم جو جدید نظام بنانے چاہ رہے ہیں وہ پرانے نظام کو ختم کر دے گا ،وکیلوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ23 کروڑ افراد کے ملک پاکستان میں 2 لاکھ 38 ہزار وکلاء ہیں،برطانیہ میں 203 لوگوں کے لئے ایک وکیل ہے لیکن آسٹریلیا میں 300 لوگوں کے لئے ایک وکیل ہے پاکستان میں ایک وکیل ایک ہزار لوگوں کے لئے ہے اس لئے ملک میں مزید اصل ڈگریوں والے وکیلوں کی ضرورت ہے ،انھوں نے کہا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے سٹیٹ آف دی آرٹ مصالحتی قانون بنا لیا ہے جو وزارت قانون کے حوالے کیا جا رہا ہے تاکہ ملک میں اس کی قانون سازی کی جا سکے ،ہمارے پاس اس وقت 1940 کا آربیٹریشن کا قانون ہے جو ہر مرحلے پر عدالت کو معاملے میں ملوث کرتا ہے ،دنیا بھر میں جب آپ مصالحت کے فورم پر جاتے ہیں تو عدالت میں کوئی نہیں جاتا لیکن پاکستان میں جو بھی معاملہ شروع ہوتا ہے اس پر عدالت سے حکم امتناعی مل جاتا ہے لیکن لاء اینڈ جسٹس کمیشن دنیا کا بہترین مصالحتی قانون بنایا ہے اس حوالے سے ہم نے بھارت کے تازہ قانون کا جائزہ بھی لیا ہے یہ ہم حکومت کے حوالے کر رہے ہیں کہ اس کا اطلاق کیا جائے اس کے 2 فائدے ہونگے ،پہلا یہ کہ عام آدمی کے لئے یہ راستہ کھل جائے گا کہ وہ مصالحتی کمیٹی کے پاس اپنا معاملہ لیکر جا سکے گا دوسرا یہ کہ اس سے معیشت کو فائدہ ہوگا ،جو عالمی تنازعات ہونگے ان کے حل کے لئے اسلام آباد میں انٹرنیشنل آربیٹریشن سینٹر قائم کر رہے ہیں جس معاملے کے لئے آپ انگلینڈ جا کر ملین ڈالر ز خرچ کرتے ہیں آپ کے پاس پاکستان میں یہ سہولت آجائے گی کہ آربیٹریشن اتناقانون ہے کہ آپ کو مقدمہ بازی سے ہٹنا پڑے گا ۔میں سب کو یہ درخواست کرتا ہوں کہ مقدمہ بازی آخری حل ہونا چاہیے آپ کو اس سے پہلے مصالحتی فورمز پر جانا چاہیے

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دنیا میں ایک نئی چیز ہو رہی ہے جس میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں ،دنیا بھر میں کمرشل عدالتیں ہیں جن کو دوسری عدالتوں پر ترجیح دی جاتی ہے ۔فوجداری مقدمات اتنے اہم نہیں ہیں جتنے کاروباری مقدمات اہم ہیں کیونکہ کمرشل عدالتیں ان کی معیشت کو سہارا دیتی ہیں ،معیشت دوسرے مقدمات کی نسبت زیادہ ضروری ہے لیکن ہماری کوئی کمرشل عدالت نہیں ہے ۔انھوں نے کہا کہ انشاء اللہ اب پورا کمرشل کوریڈور بنے گا ،ضلع میں آپ کا کمرشل کیس چلے گا اس کے بعد ہائیکورٹ میں کمرشل بینچ اور سپریم کورٹ میں بھی ٹیکس اور ریونیو سے متعلق مقدمات چلیں گے جب تک کمرشل کوریڈور نہیں بنے گا آپ کے معیشت کے معاملات حل نہیں ہونگے یہ جو بار بار آکر بتایا جاتا ہے کہ کھربوں روپے بینکوں اور ٹیکس کے پھنسے ہوئے ہیں تو ان معاملات کو چلانے کا طریقہ تو بتائیں ،طریقہ یہ ہے کہ کمرشل کوریڈور بنایا جائے اور اس میں کام جاری ہے ہم کوئی نئی چیز نہیں کر رہے ہر ترقی یافتہ ملک میں یہ کام کیا جا رہا ہے لیکن ہم پیچھے ہیں ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہماری عدلیہ میں جنسی نمائندگی یکساں نہیں ہے اس حوالے سے انتہائی مایوس کن صورتحال ہے ،پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے 50 فیصد خواتین ہیں لیکن عدلیہ میں ان کی نمائندگی نظر نہیں آتی کیوں خواتین ججز کو عدلیہ میں نہیں لیاجاتا ہمارے نظام میں خواتین کے حوالے سے ایک مکمل پہلو غائب ہے ہم خواتین کے حوالے سے متعدد معاملات کا علم نہیں رکھتے ایک خاتون خواتین کے مسائل کو بالکل دوسرے انداز سے دیکھتی ہے ۔4 ہزار ججز میں سے 562 خواتین ججز ہیں جو کل تعداد کا 16 فیصد بنتی ہیں سپریم کورٹ میں 2 ججز ہیں اور ہائیکورٹس میں بھی بہت تھوڑی خواتین ججز ہیں ،خواتین ججز کی تعداد کو بڑھانا ہوگا اس حوالے سے ہمیں خصوصی اقدامات کرنے ہونگے ۔ہمیں خواتین کو تمام ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی سطح پر آگے لانا ہوگا اور انھیں فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مسرت ہلالی کے ساتھ بیٹھتا ہوں تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خاندانوں کے ایسے ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن کو میں سمجھ نہیں پا رہا ہوتا اور وہ بتا رہی ہوتیں ہیں کہ اس طرح بھی چیزیں ہو سکتی ہیں ۔جنسی مساوات کو ترجیح پر لانا ہوگا کیونکہ وہ ہماری آبادی کا 50 فیصد ہیں

جسٹس منصور علی شاہ نے ججز اور عدالتی عملے کی ٹریننگ کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے جوڈیشل اکیڈمی کو فعال کر دیا ہے جب تک ججز اور عملے کی تربیت نہیں کی جائے گی اس وقت تک نظام نہیں چل سکتا ۔ہمارے 4 ہزار ججز میں سے کوئی بھی آج تک جوڈیشل اکیڈمی میں نہیں آیا اور نہ ہی کبھی عملے کی کوئی تربیت کی گئی ،اب ہم نے وٹس ایپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے 4 ججز کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے ،ہم انھیں تربیت کے لئے آن لائن ویڈیوز بھیجتے ہیں 48 ہزار عدالتی عملے کی تربیت کے لئے بھی تربیت کا انتظام کر رہے ہیں انھوں نے آج تک فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کو دیکھا تک نہیں اتنے زیادہ عملے کو اپنی نوکری کی ذمہ داریوں کا بھی علم نہیں ہے ۔ہم نے آن لائن سسٹم کے ذریعے ان 48 ہزار لوگوں سے بھی وٹس ایپ کے کمیونٹی پورٹل رابطہ قائم کیا ہے۔اصلاحات اور تربیت کے بغیر نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فائر والنگ بہت ضروری ہے ہمارے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی ہمارے معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو ہم اس کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اورلے رہے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہم نے اس فائر وال کو مزید بہتر کرنا ہے میں چاہتا ہوں کہ سب سن لیں ملک کے تمام اداروں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر انصاف نہیں ہے تو وہ نہیں ہیں ،انصاف ہوگا تو سب کچھ چلے گا ۔سب کے لئے بہتر ہے کہ ہمارا نظام انصاف چلے اگر آپ عدالتی نظام کو کمزور کرتے ہیں تو اپنے آپ کو کمزور کرتے ہیں ۔اگر کوئی ادارہ عدلیہ کو کمزور کرتا ہے تو وہ خود کو کمزور کرتا ہے براہ مہربانی عدلیہ کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا کیونکہ ایسا کرنا تمام اداروں کے مفاد میں ہے یہ ایک سادہ پیغام ہے پتہ نہیں لوگوں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آرہی ۔آخر میں انھوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس شعر پر کیا
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے ۔۔منصف ہوتو اب حشر اٹھا کیوں لیتے