اسلام آباد(ای پی آئی )سینیٹر فیصل واوڈا نےنیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، آئین اور قانون میں کہاں لکھا ہے بارڈرز پر فوجی اور پولیس والے اپنی جانیں دیں گے، بار بار انٹیلی جنس اداروں کا نام لیا جارہا ہے، اب اگر کوئی پگڑی اچھالے گا تواسکی پگڑی کا فٹ بال بنائیں گے، مداخلت کے شواہد لے آئیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے،

انھوں نے کہا کہ کراچی میں زیادتی پر بھی کاش نوٹس لیاجاتا، نسلا ٹاور کے بچے برباد ہوگئے کوئی سنوائی نہیں ہوئی، بھٹو صاحب کے معاملے پر کیا اور کسی کو سزا ہوئی، زرداری صاحب کو 14 سال سزا ہوئی کوئی پوچھنے والا نہیں، روٹی، میٹرو ہر چیز پر اسٹے آرڈر ہو جاتا ہے، آئین و قانون میں کہاں لکھا ہے کہ جنہوں نے قربانی دی ان کا تمسخر اڑایا جائے، سوشل میڈیا پر قدغن لگائیں، سب کچھ کریں لیکن اپنی ذات کیلئے نہیں پورے پاکستان کیلئے کریں، اگر ممبر اسمبلی دُہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے رکھ سکتا ہے،آپ کے لیے شراب حلال اور ہمارے لیے حرام کیوں ہے، پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ مذاق اور کھلواڑ ہوگیا ہے، یہ شک و شبہات ختم ہونا چاہیے، امید کررہا ہوں جواب جلد آئے گا،آنا چاہیے اورہم جواب لیں گے،

فیصل واوڈا نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کو ایک سال بعد باتیں یاد آرہی ہیں، آرٹیکل2 کے تحت ججز کے بارے میں کہاگیا کوئی لالچ نہیں ہونی چاہیے، کوئی پیپر ورک ہے تو وہ فراہم کیا جانا چاہیے، ججز کو الزامات سے دور ہونا چاہیے، 28 اپریل چھٹی کے دن جسٹس بابر ستار سے متعلق پریس ریلیز جاری ہوئی، بابر ستارسے متعلق کہا گیا کہ وہ پاکستانی ہیں، میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھا جس کو پندرہ دن گزر گئے،جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس کو تفصیلات سے آگاہ کیا، آرٹیکل 19 کے تحت قاضی فائز عیسیٰ نے حکم دیا کہ ہر پاکستانی کو جواب مل سکتا ہے، جواب سامنے نہ آنے پر لوگوں میں شک پیدا ہو رہا ہے،

فیصل واوڈا نے کہا کہ میں سینیٹر ہوں مجھے جواب نہیں مل رہا تو عام آدمی کو کیا ملے گا، پھر مداخلت ہوئی اب الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، مداخلت کے شواہد لے آئیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے،انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی کے باپ کا نہیں جو میرے لیے ہوگا ان کے لیے بھی ہوگا، اگرکوئی ممبر اسمبلی دُہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے رکھ سکتا ہے؟ سپریم جوڈیشل کونسل کو اس معاملے میں مداخلت کرنا ہوگی، جج اللّٰہ کے ڈر سے بغیر پگڑیاں اچھالے کام کریں، جج کے قلم میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ زندگی کا فیصلہ کرسکتے ہیں، الزامات کے ثبوت دینا ہوں گے،دوہری شہریت والے عدالتوں میں بیٹھےہیں، تاریخ جسٹس اطہر من اللہ کو یاد رکھے گی، سوا ل ہے جج دہری شہریت پر کیسے بیٹھے ہوئے ہیں، پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ مذاق اور کھلواڑ ہوگیا ہے، یہ شک و شبہات ختم ہونا چاہیے، امید کررہا ہوں جواب جلد آئے گا،آنا چاہیے اورہم جواب لیں گے،

سینیٹر فیصل واوڈا کا مزید کہنا تھاکہ پردوں کے پیچھے بات نہ کریں کھل کر سامنے آکر بات کریں انھوں نے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس عائشہ ملک کے سامنے پیش ہوا ہوں، میرا گمان ہےاطہر من اللہ شہ سرخیوں کیلئے فیصلے نہیں کرتے ، ان چیزوں کا جواب 19اے کے مطابق ملنا چاہیے، ہمیں پاکستان کو معاشی بحران سے بچانا ہے، اب جو پاکستان میں پگڑی اچھالے گا تو ان کی پگڑیوں کا فٹ بال ہم بنائیں گے، کوئی احترام کرے گا تو ڈبل احترام کریں گے، کوئی بدمعاشی کرے گا تو ڈبل بدمعاشی کریں گے، ہمارے اداروں کا مذاق اڑایا جارہا ہے، سیاستدان بھی شامل ہیں، یہ سب بند کریں، اگر اداروں کی کہیں مداخلت ہے تو ثبوت دیں ہم ساتھ کھڑے ہوں گے،

سینیٹر فیصل واوڈا کا مزید کہا کہ میں ایک سینیٹر ہوں،قانون بھی بناؤں گا اور عمل بھی کراؤں گا، میں کسی کا ترجمان نہیں ہوں، میں پاکستان کی بات کررہا ہوں، سوشل میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے اس کی مذمت کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا، ایک سال بعد آپ نے پھر الزام لگایا، اب آپ کو شواہد دینا پڑیں گے،میں کہہ دوں کہ جج نے کہہ دیا کہ قتل کر دو، کوئی ثبوت تو نہیں ہے، کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت ججز کو اللہ سے ڈرنے والا، اچھی زبان ، محتاط اور الزامات سے دور دور تک تعلق نہیں ہونا چاہیے،

فیصل واوڈا نے کہا کہ شواہد یا ثبوت کے بغیر عدالت نہیں کارروائی کرتی ، اسی حساب سے اگر مداخلت کا کوئی ثبوت ہے تو ہمیں دے دیں ، اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو پھر پریشانی ہو گی، اطہر من اللہ بہت اصول پسند آدمی ہیں وہ نہ حماقت کرتے ہیں نہ کرنے دیں گے،میرا گمان ہے جسٹس من اللہ کسی سے ڈرتے نہیں، نہ کسی سے ملتے ہیں، وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے سے بھی نہیں ملتے،سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پندرہ دن گزر گئے، ہمیں ریکارڈ نہیں مل رہا ، پاکستان کسی کے باپ کا نہیں ہے، جو میرے لیے ہو گا وہ سب کے لیے ہو گا ،آپ نے سوشل میڈیا پر نوٹس لیا ، آپ کو دیگر معاملات، کراچی میں ریپ کا نوٹس لینا چاہیے تھا ، کل پنجاب میں ریپ کے بعد قتل ہونے والوں کا بھی نوٹس لینا چاہیے تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے خود احتسابی کی بات کی ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے، اگر شواہد نہیں ہیں، سب زبانی ہے تو پھر مسئلہ ہے، سستی روٹی پر حکم امتناع، نسلہ ٹاور کی شنوائی نہیں ، ریکوڈک پر اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، کس قانون کے تحت زرداری کو 14 سال جیل ہوئی؟، بلیک لا ڈکشنری کے تحت تنخواہ نہ لینے پر نواز شریف کو سزا دی ، پی آئی اے اسٹے آرڈر، سستی روٹی اسٹے آرڈر کب تک ایسا چلتا رہے گا،سیاست دان اگر دہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے دہری شہریت کے ساتھ بیٹھے ہیں؟

سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں ، 90 فیصد ادارہ رہ گیا ہے جس میں ڈسپلن باقی ہے۔ ہمارے لیے پاکستان اہم ہے۔ بارڈر پر فوجی اور پولیس والے جانیں دیں گے، کہاں آئین میں لکھا ہے؟۔ آئین اور قانون میں کہاں لکھا ہے کہ جنہوں نے قربانیاں دیں ان کا تمسخر اڑایا جائے،فیصل واوڈا نے کہا کہ امید ہے کہ جواب جلد آئے گا ۔ محاذ آرائی سے دُور رہیں ۔ ان کاموں کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنی ذات نہیں سارے پاکستان کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی لگائیں، صرف اپنے لیے نہیں ۔ میری پگڑیاں اچھالی گئیں، اب پاکستان کی جو پگڑی اچھالے گا ان کی پگڑیوں کا فٹ بال بنائیں گے۔ اداروں کو نشانہ بنانا بند کریں کافی ہو گیا ۔ فوج نہیں ہو گی تو پاکستان بھی نہیں بچے گا ۔ شہادتوں کی وجہ سے ہم یہاں بیٹھے ہیں،

انہوں نے کہا کہ ضمانتیں آپ دیتے ہیں۔ بہت کچھ جانتا ہوں، بہت کچھ سمجھتا ہوں، راز ہیں ،شواہد ہیں اور میرا ہوم ورک ہے۔ میرا گمان ہے کہ اطہر من اللہ شہ سرخیوں کے لیے فیصلہ نہیں کرتے۔ رات کے اندھیروں میں کسی سے نہیں ملتے ۔ اطہر من اللہ جیسے تاریخی جج سے ایسی غلطی نہیں ہو سکتی،سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر جج بننے سے پہلے کا ہے اور ریکارڈ نہیں ہے تو پھر سوالات ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل کو مداخلت کرنا ہو گی، مجھے اعتراض نہیں کہ وہ میڈیا پر تجزیہ دیتے تھے، دہری شہریت ہو تو مجھے کوئی ایشو نہیں ، اگر الزام لگانے والے کے پاس ثبوت نہیں تو اداروں پر الزام نہ لگائیں ۔