اسلام آباد ( عابدعلی آرائیں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک بھر کی جامعات (یونیورسٹیز) میں جلد ازاجلدمستقل وائس چانسلرزکی تعیناتی کا حکم دیدیا۔ عدالت نے لکھا ہے کہ دوران سماعت ہائیرایجوکیشن کمیشن کی جانب سےبتایا گیاہے کہ تمام سرکاری جامعات ضرورت سے زیادہ نان اکیڈمک سٹاف رکھتی ہیں جس سے مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے تمام جامعات سے نان اکیڈمک سٹاف اور فیسوں کی مد میں موصول ہونے والی فیسوں کامکمل ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔
عدالت عظمی نے آل پبلک یونیورسٹیزبی پی ایس ٹیچرزایسوسی ایشن کی جانب سے عمر اعجازگیلانی ایڈووکیٹ کے توسط سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر15 مئی کوکی گئی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
پانچ صفحات پر مشتمل تحریر ی حکم نامہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جاری کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ صفحات پرمشتمل فیصلے کا مکمل متن
پیراگراف نمبر ایک
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ یکم اپریل 2024 کو اس مقدمہ کے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے تحریر ی جوابات جمع کرائیں جس میں بتایا جائے کہ کس صوبے کے دائرہ کار میں کتنی یونیورسٹیاں موجود ہیں جن میں سے کتنی سرکاری اور کتنی پرائیویٹ ہیں عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ سرکاری یونیورسٹیز میں وائس چانسلر کی کتنی آسامیاں خالی ہیں مدت کی بنیاد پر مختص کتنی آسامیاں خالی ہیں اور کتنی جامعات میں ایکٹنگ چارج پر وائس چانسلر تعینات کیے گئے ہیں سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ تمام صوبے اور وفاق اپنے تحریری جوابات میں بتائیں کہ ان آسامیوں کو پورا کرنے کے لئے کیا قانونی ضروریات ہیں اور قانون کے مطابق اتنے عرصے بعد میٹنگ کا انعقاد کیا جانا ضروری ہے یہ بھی بتایا جائے کہ کتنی یونیورسٹیاں ان قوانین پر عمل درآمد کرتی ہیں ۔
پیراگراف نمبر2
عدالت نے وفاقی حکومت کی طرف سے اپنائے گئے موقف کو اپنے حکم کا حصہ بنایا ہے جس میں لکھا ہے کہ فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان نے پیش ہوکر وفاق کی طرف سے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگا ہے عدالت نے لکھا ہے کہ 25 دن کا وقت جواب جمع کرانے کے لیے کافی تھا لیکن جواب جمع نہیں کرایا گیا دوران سماعت وزارت فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری عبدالستار کھوکھر پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ انہیں ابھی تک وفاق کی تین یونیورسٹیوں سے معلومات موصول نہیں ہوئیں اس لیے جواب جمع نہیں کرایا گیا ان کی طرف سے عدالتی حکم پر عمل نہ ہونے کے لئے یہ جوازپیش کیا گیا ہے عدالت نے لکھا ہے کہ اگر مکمل معلومات موجود نہیں تھی تو جو معلومات موجود تھی وہ جمع کرائی جاسکتی تھیں ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ سرکاری جامعات کے حوالے سے جو معلومات مانگی گئی تھیں وہ وزارت کے پاس موجود ہونی چاہیے اگر وہ ایسی معلومات نہیں رکھتے تو اب انہیں یونیورسٹیوں سے متعلق معلومات رکھنے کا عمل یقینی بنانا چاہیے ۔۔
عدالت نے لکھا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس میں سرکاری یونیورسٹیز کی طرف سے قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ بھی شامل ہے ابھی تک اس معاملے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جتنی ضرورت تھی۔ فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ عبدالستار کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ کچھ یونیورسٹیز وزارت تعلیم کے دائرہ کار میں نہیں آتیں وہ دوسری وزارتوں کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جو یونیورسٹیز وزارت تعلیم کے ماتحت نہیں آتی اس کے حوالے سے بھی تمام معلومات عدالت کو فراہم کی جائیں۔
پیراگراف نمبر 3
عدالت نےلکھا ہے کہ فاضل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے پیش ہو کر بتایا کہ عدالتی سوالات کے جواب میں تحریری معروضات جمع کرائی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میںکل11 سرکاری جامعات ہیں جن میں سے 5 جامعات میں وائس چانسلرز ایکٹنگ چارج کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں دو جامعات کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ میں ریفرنس دائر ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے لیکن صوبائی حکومت کے جواب کے ساتھ وہ ریفرنس منسلک نہیں کیے گئے عدالت نے لکھا ہے کہ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے ان دونوں جامعات میں وائس چانسلر کی تقرری روک دی ہے یا نہیں ۔عدالت نےبلوچستان حکومت کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ تحریری جواب قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا اور اس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیا جامعات قانونی تقاضے پورے کر رہی ہیں یا نہیں۔
پیراگراف نمبر4
عدالت نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے موقف اپنایا کہ صوبے میں چھوٹی سرکاری یونیورسٹیز ہیں جن میں سے انیس یونیورسٹیز قائم مقام وائس چانسلرز کی نگرانی میں کام کر رہی ہیں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مزید بتایا کہ سرچ کمیٹی نے وائس چانسلرز کی تقرری کے لئے امیدواروں کو سلیکٹ کیا لیکن ابھی تک ان کی تقرری نہیں کی جا سکی، عدالت نے کہا ہے کہ اس وجہ سے ہم نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسارکیاکہ وہ ہمیں کمیٹی کی سفارشات دکھائیں جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ یہ معلومات خفیہ ہونے کی وجہ سے جمع نہیں کرائی گئیں،عدالت نے لکھا ہے کہ صوبائی حکومت کے اس جواب سے ہمیں حیرانگی ہوئی اور اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبے کے عوام یہ حقائق جاننے کے اہل کیوں نہیں ہیں ؟سرکاری یونیورسٹیز کو ادائیگیاں عوام کے ٹیکس سے کی جاتی ہیں اس لیے عوام یہ جاننے کے حقدار ہیں کہ ان کی دی گئی رقم کہاں اور کیسے خرچ ہو رہی ہے؟
عدالت نے لکھا ہے کہ اب آئین کا آرٹیکل 19 اے معلومات کی آزادی کو یقینی بناتا ہے فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا یونیورسٹیز ایکٹ 2012 میں وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر ز،اور فیکلٹی ڈینزکی تقرری کے حوالے سے یہ طریقہ کار وضع کیا گیا اور اس قانون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایسی خالی آسامیاں پر کی جائیں گے ۔عدالت نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کچھ ایسے عدالتی احکامات کا حوالہ بھی دیا جن میں یہ تقرریاں روکی گئی ہیں اور بتایا کہ ان عدالتی احکامات میں یہ تقرریاں روکنے کی وجوہات بھی نہیں دیں گی۔
حکم میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ قانونی تقاضا ہے کہ یہ اہم عہدے خالی نہیں رہنے چاہیئں اس لیے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ معاملات متعلقہ عدالتوں کے سامنے اٹھائے جائیں گے اور وہ عدالتی فوری طور پر ان معاملات کونمٹا ئیں گی۔
پیراگراف نمبر5
عدالت نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ صوبے کی طرف سے تحریری جواب جمع کرایا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں 34 سرکاری یونیورسٹیز ہیں جن میں سے 25 یونیورسٹیز بغیر وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مزید بتایا کہ نگران حکومت کے دور میں وائس چانسلرز کی تقرری کا عمل شروع کیا گیا لیکن جب ریٹ پٹیشنز دائر کی گئی تو ہائی کورٹ کے ججز نے الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 230 کے تحت ان تقرریوں سے روکتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت میں یہ تقریاں نہیں کی جا سکتی ان احکامات کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل بھی دائر کی گئی لیکن اب وہ غیر موثر ہو چکی ہے کیونکہ انتخابات ہو چکے ہیں۔ عدالت نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ کی شق 230 کا اطلاق ملک کی یونیورسٹیاں چلانے کے حوالے سے ہو سکتا ہے اور کیا سلیکٹ کمیٹیز کی طرف سے سلیکٹ کئے گئے وائس چانسلر زیا دیگر لوگوں کی تقرریاں نہیں کی جا سکتی؟ ۔
سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ انتخابات ہونے کے بعد موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ ان تقرریوں کا عمل جاری ہے اور امکان ہے کہ دو ماہ کے اندر یہ عمل بھی مکمل کر لیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ صوبے کی طرف سے جو تحریری جواب جمع کرایا گیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ کی یونیورسٹیز میں رجسٹرارز کی آسامیاں بھی خالی ہیں اور عدالت کو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور ڈینزکی کمی کے حوالے سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا
پیراگراف نمبر 6
سندھ کے حوالے سے صورتحال کے بارے میں عدالت نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا ہے کہ صوبے کے محکمہ تعلیم نے کوئی جواب جمع نہیں کرایا لیکن سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے یہ جواب جمع کرایا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں 27 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے 7 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی آسامیاں خالی ہیں تاہم ان کی تقرری کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور مناسب وقت کے اندر یہ تقرریوں کا عمل مکمل کر لیا جائے گا
پیراگراف نمبر 7
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ملک بھر کی جامعات میں وائس چانسلر ز،پرو وائس چانسلر زریکٹرز، پریزیڈنٹ ،وائس پریزیڈنٹ ، رجسٹرارز، ہیڈ آف فیکلٹی اینڈ ڈپارٹمنٹس ،کنٹرولر آف ایگزامینیشن اورڈائریکٹر فنانس متعلقہ قوانین کی روشنی میں تعینات کیے جائیں اور یہ عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے
پیراگراف نمبر 8
عدالت نے لکھا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ڈائریکٹر جنرل کوآرڈینیشن نذیر حسین پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر کی یونیورسٹیز میں نان اکیڈمک اسٹاف کی تقرری کے لئے سٹینڈرڈ جاری کیے ہیں اور بتایا ہے کہ یونیورسٹیز میں نان اکیڈمک اسٹاف ایک حد سے زیادہ نہ رکھا جائے تاہم تمام یونیورسٹیاں اسٹینڈرز کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اورنان اکیڈمک سٹاف کی اضافی بھرتیاں کرنے کا عمل جاری ہے جس سے سرکاری یونیورسٹیز کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
عدالت نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ مقدمہ کے فریقین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جامعات میں نان اکیڈمک سٹاف اور فیکلٹی سے متعلق مکمل معلومات فراہم کی جائیں اور اگر کوئی یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سٹینڈرز کے مطابق عمل نہیں کر رہی تو وہ اس کی وجہ بھی بتائے۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ جامعات اس رقم کے بارے میں بھی آگاہ کریں جو فیسوں کی مد میں انہیں موصول ہوتی ہے اور یہ بھی بتایا جائے کہ قومی خزانے سے کتنے فنڈزان کو چاہیے ہوتے ہیں ۔
عدالت نے لکھا ہے کہ تمام صوبے ایک ماہ کے اندر اپنی مفصل رپورٹس جمع کروائیں جس پر وفاقی اور صوبائی وزارتوں یا محکموں کے سیکریٹریز کے دستخط ہونے چاہئیں اور آئندہ سماعت پر متعلقہ محکموں کا سینئر نمائندہ عدالت میں موجود ہونا چاہیے جو تمام حقائق کے متعلق معلومات رکھتا ہو۔