اسلام آباد (ای پی آئی) چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل نجیب ہارون نے کہا پی ای سی کے گورننگ باڈی کے سابق ممبر انجینئر ظہور سرور ادارے کیخلاف سنگین پراپیگنڈہ کررہے ہیں۔ پی ای سی ایک آئینی ادارہ ہے، کیسے ممکن ہے اسکا آڈٹ نہ ہوتا ہو۔ میں نے پی ای سی چیئرمین کے عہدے پر عبادت کی طرح ذمہ داری نبھائی ایک پائی بھی خود پر خرچ نہیں کی۔ 65 افراد کی گورننگ باڈی میں سے کوئی انجینئرنگ کونسل سے تنخواہ نہیں لیتا۔ انجینئر ظہور سرور پی ای سی سے 14 لاکھ کے لگ بھگ الاؤنس لے چکے ہیں۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل کے چیئرمین نجیب ہارون نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ریگولیٹری باڈی ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان انجینئرنگ کونسل خبروں کی زینت رہی۔ میرا بطور چئیرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل پہلا دور تھا۔ تین سال کے اندر میں نے ایک پائی بھی وصول نہیں کی اور بطور رکن قومی اسمبلی بلاواسطہ یا بلواسطہ قومی اسمبلی سے بھی کبھی تنخواہ لی نہ ہی کوئی اور فنڈز لئے ۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے امانت داری کا ریکارڈقائم کیا۔ قومی اسمبلی میں پانچ سال اسمبلی کا رکن رہا۔ پوری پارلیمنٹ میں پہلا شخص تھا جو سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتا تھا۔ میں نے قومی اسمبلی سے بھی کوئی پیسہ نہیں لیا۔ میں نے ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی۔ان کا کہنا تھاکہ 7 ستمبر 2021 کو انجینئرنگ کونسل چئیرمین کا چارج سنبھالا۔ پی ای سی ایک آئینی باڈی ہے۔ پی ای سی میں 2 لاکھ 75 ہزار سرکاری و غیر سرکاری انجینئرز ہیں۔ انجینئرز نے ہی پاکستان کو ترقی دینی ہے۔ گورننگ باڈی کا ایک شخص انجینئر شیخ ظہور سرور پراپیگنڈا کررہا ہے۔ میرا گمان تھا کہ وہ ایک میڈیا ٹاک پر رک جائیں گے مگر انکو شاید مزہ آنے لگا۔

ادارے پر لگائے گئے الزامات کا جواب دیتےہوئے انہوں نے کہاکہ یہ کیسے ممکن ہے آئینی باڈی کا آڈٹ نہ ہوتا ہو۔ پی ای سی کا ملک کی بڑی کمپنیوں نے آڈٹ کیا ہے۔ ہر سال اس کی جنرل باڈی کا اجلاس ہوتا ہے جس میں آڈٹ رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔چیئر مین کا کہنا تھا کہ سابق ممبر ظہور سرور نے کہا ای پی سی کی گورننگ باڈی کے 66 ممبرز ہیں۔ یہ ایکٹ کے تحت 66 ممبرز ہیں۔ میں ممبرز کو کم یا زیادہ نہیں کرسکتا۔ پورے پاکستان سے 46 لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں۔ میرا مقصد تھا کہ یہ باڈی ملک کو تیسری دنیا کے ممالک کی فہرست سے نکال لائے۔ اسمبلی کا ممبر تھا بے بس تھا۔ قومی اسمبلی میں صرف 11 منٹ کی ایک تقریر کی۔

مکمل پریس کانفرنس اس لنک میں سنیں

چیئرمین کا کہنا تھاکہ میں نے پاکستان کے اندر تین سال کے اندر انجینئرز کے لیے پیڈ انٹرنشپ شروع کی۔ 32 سال کی عمر میں امریکہ سے ایم ایس کرنے کے بعد کشتیاں جلا دیں اور پاکستان آگیا۔ ایک شخص اٹھتا ہے تبصرے کرتا ہے اور میڈیا بغیر تصدیق چلاتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ٹاپ اداروں نے پی ای سی کا آڈٹ کیا۔ میں نے نہ خود پیسہ لیا نہ ہی کسی کو لینے دیا۔ میں نے اس عہدے پر تین سال عبادت کی ہے۔ ایک گاڑی ہے وہ بھی اسی ادارے میں کھڑی ہے۔ سابقہ چئیرمین نے تین گاڑیاں لی ہوئیں تھیں۔ ای پی سی کی باڈی کے 66 لوگ اعزازی کام کرتے ہیں کوئی تنخواہ نہیں لیتا۔ صرف آنے جانے اور رہائش کے اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ پی ای سی کو پیپر لیس کردیا ہے۔ سارا ڈیٹا ای فائلز میں ہے۔ باڈی کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات پونے تین سال کے 24 ملین جبکہ ہوٹل کے اخراجات 45 ملین ہیں۔تین سالوں میں 65 ممبران کا کل ٹی اے ڈی اے 56 ملین ہے۔ مجھ سمیت 66 لوگوں کی کوئی تنخواہ نہیں ہے۔ گورننگ باڈی ممبران اجلاس میں ملک کے طول و عرض سے آتے ہیں۔ ہم نے پروفیشنل ڈائریکٹر آئی ٹی، ڈائریکٹر فنائنس اور ڈائریکٹر ایچ آر ہائیر کیے۔ میں نے بطور چیئرمین قائمہ کمیٹی بھی گاڑی نہیں لی۔ شہریوں کو صاف پانی پاکستان کے انجینئرز دیں گے۔ پاکستان میں 12 سروسز ہیں، صرف انجینئرنگ سروسز آف پاکستان نہیں ہے۔ تیسری دنیا کے ملک نے ترقی کرنی ہے۔ انجینئرز کی قدر کریں۔ 250 لاکھ انجینئرز کے کندھوں پر 25 کروڑ لوگوں کا وزن ہے۔انجینئرنگ اس ملک کا مسیحا ہے۔48 سال میںپی ای سی کے 12 چیئرمین آچکے ہیں، مجھ سے پہلے ای پی سی میں 11 چیئرمین آچکے ہیں۔انجینئر ظہور سرور 2 لاکھ 70 ہزار ڈیلی الاؤنس لئے ہیں۔ پی ای سی سے 14 لاکھ کے لگ بھگ انجینئر ظہور سرور نے بھی الاؤنس حاصل کیے۔ ضرورت پڑی تو ظہور سرور کیخلاف عدالت جائیں گے.