اسلام آباد (عابدعلی آرائیں )سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس سکینڈل کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ،سپریم کورٹ کے ججز جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے19 اگست کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکمانہ 20 اگست کو جاری کیا ۔جو 5 صفحات اور 5 پیراگراف پر مشتمل ہے ،

وفاق بنام بشریٰ عمران خان کیس کی پہلی سماعت پر وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل،جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ فیاض الحق ،ڈپٹی سیکرٹری داخلہ رانا عرفان پیش ہوئے ،پی ٹی اے کی طرف سے محمدافضل ایڈوکیٹ، ڈائریکڑ لاء پی ٹی اے خرم صدیقی ،ڈائریکٹر مقدمہ بازی پی ٹی اے نعیم اشرف ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر پی ٹی اے عادل جاوید پیش ہوئے،
بشریٰ عمران اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا
پیراگراف نمبر 1
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ درخواست گزاروںنے 25 جون 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل جج سے 2 رٹ پٹیشن نمبر 1805 /2023 اور 2758/2023 کے ذریعے ایک حکم حاصل کیا ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ان درخواستوں پر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں دیا گیا لیکن اس کیس کی آئندہ سماعت 4 ستمبر 2024 کو مقرر کی گئی ہے تاہم اس حکم کے کچھ حصوں پر عملدرآمد کا حکم دیا گیا ہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید موقف اپنایا کہ ہائیکورٹ نے اس نے پہلو کا جائزہ نہیں لیا کہ ٹیلیفونک گفتگو کس نے لیک کی ،ہائیکورٹ نے اس بنیادی نقطے کو بھی نہیں دیکھا کہ جو دو فریقین ٹیلیفون پر بات کر رہے ہیں ان میں سے بھی کوئی گفتگو لیک کر سکتا ہے یا کوئی ایسا شخص جس کو ان دونوں فریقین کے موبائل فون تک رسائی حاصل ہے وہ بھی گفتگو لیک کر سکتا ہے،نا تو یہ موقف دونوں درخواست گزاروں نے اپنی رٹ پٹیشن میں رکھا ہے اور نہ ہی دونوں درخواستگزاروں نے ایکدوسرے کو اپنی رٹ پٹیشن میں فریق بنایا ہے حالانکہ ہائیکورٹ میں ایسا کیا جانا ضروی تھا ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں موقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے حکم میں وہ ریلیف بھی دے دیا جس کی استدعا بھی نہیں کی گئی تھی اس لئے ہائیکورٹ کا 25 جون کا حکم قابل عمل نہیں ہے ۔

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی رٹ پٹیشن کے 5 پیراگراف اپنے حکم کا حصہ بنائے ہیں جن میں موقف اپنایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم جاری کر کے خطرناک نظیر قائم کر دی ہے حالانکہ ہائیکورٹ از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں رکھتی اس نظیر کی وجہ سے عدلیہ نے انتظامیہ کے دائرہ کار میں مداخلت کا راستہ کھول دیا ہے اس لئے ہائیکورٹ کے سامنے جاری از خود کارروائی کو روکا جائے ۔

حکومتی اپیل کے دوسرے پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کا یہ حکم سپریم کورٹ میں زیر التواء اسی نوعیت کے ایک کیس میں مداخلت ہے اس لئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل جج کے سامنے جاری اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا جائے ،

حکومتی اپیل میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن پر جاری سماعت کا کوئی قانونی جواز نہیں ہےکیونکہ ہائیکورٹ میں شواہد جمع کرنے اور بیانات ریکارڈ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اس لئے ہائیکورٹ کا حکم غیر قانونی اور دائرہ کار تجاوز ہے اس لئے اسے ختم کیا جانا ضروری ہے

حکومتی درخواست میں یہ بھی موقف اپنایا گیا ہے کہ مقننہ کی طرف سے پاس کئے گئے قانون پیکا ایکٹ کی شق 19 کے تحت پرائیویٹ گفتگو ریکارڈ کرنا پہلے ہی جرم قرار دی گئی ہے تو ایسی صورتحال میں ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن پر مزید کارروائی غیر قانونی قرار دی جائے

حکومتی درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کی طرف سے جاری حکم میں فیئر ٹرائل ایکٹ کی شقوں کا اطلاق کر کے دیگر قوانین ،پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کو غیر موثر کر دیا گیا ہے حالانکہ ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ وفاقی حکومت کو کالز ریکارڈ کرنے یا کالز ٹیپ کرنے اختیار دیتا ہے اس حوالے سے وفاقی حکومت نے ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی شق 54 کے تحت ایک انٹیلی جنس ایجنسی کو کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید موقف اپنایا کہ 19 مئی 2023 کو پاکستان انکوائری ایکٹ 2017 کی شق 3 کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے آڈیو ویڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کیا تھااس کمیشن نےعدلیہ کی آزادی کے حوالے سے سامنے آنے والے سنگین الزامات کی انکوائری کرنی تھی یہ کمیشن جج سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق پر مشتمل تھا،اس کمیشن نے اپنی کارروائی 25 مئی 20213 کو شروع کی لیکن سپریم کورٹ نے 3 آئینی درخواستیں سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے اس کمیشن کی کارروائی آئندہ سماعت تک روک دی تھی اس کے بعد سپریم کورٹ میں وہ کیس دوبارہ آج تک سماعت کے لئے مقرر نہیں ہوسکا اور کمیشن نے اپنی کارروائی 27 مئی 2023 تک ملتوی کی تھی ۔

پیراگراف نمبر 2

سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کی نظیریں دیتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ہائیکورٹ از خود نوٹس نہیں لے سکتی ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ 31 مئی کو ہائیکورٹ نے از خود 5 سوالات فریم کیے حالانکہ ایسا کرنا آئین 199 کی خلاف ورزی ہے ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت تفصیلی انکوائری میں نہیں جا سکتی اور یہ مزید انکوائری کا تھا ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جو معاملہ بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کی رٹ پٹیشن میں اٹھایا گیا ہے اس کی انکوائری کے لئے سپیکر قومی اسمبلی نے انکوائری کمیٹی قائم کی تھی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ جب 9 اگست 2023 کو اسمبلی تحلیل کی گئی تو رولز کے تحت وہ کارروائی غیر موثر ہو گئی اس لئے میاں نجم الثاقب کی رٹ پٹیشن پر کارروائی آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ قومی اسمبلی کے قواعد میں کہا گیا ہے کہ جب اسمبلی تحلیل ہو جائے گی تو اسمبلی کے سامنے زیر التواء تمام بزنس از خود ختم ہو جائے گا ۔حتیٰ کہ اسمبلی میں زیر التواء وہ بل بھی ختم ہو جائیں گے جو قانون سازی کے لئے اسمبلی یا سینیٹ میں زیر التواء ہیں ،
عدالت نے حکومتی اپیل میں بشریٰ بی بی کی درخواست میں سے شامل کیا گیا ایک پیرا بھی حکم کا حصہ بنایا ہے جس میں بشریٰ بی بی نے یہ موقف اپنایا تھا کہ ان کی آڈیو لیکس من گھڑت اور ٹیمپر کر کے جعل سازی سے بنائی گئی ہیں یا وہ آڈیو لیکس ان کی گفتگو کے مختلف حصوں کو جوڑ کر بنائی گئی ہیں تاکہ غلط اور نامناسب پیغام دیا جا سکے ۔

حکومتی اپیل میں بشریٰ بی بی کے موقف کا یہ پیرا دینے کے بعد کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے بشریٰ بی بی کے اس موقف کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا عدالت پابند تھی کہ پہلے وہ اس حقیقت کو جانچتی اس کے بعد معاملے پر کارروائی آگے بڑھاتی ۔

پیراگراف 3

سپریم کورٹ نے حکومتی اپیل سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مندرجہ بالا قانونی نکات کا جائزہ لینے کے لئے حکومتی اپیل سماعت کے لئے منظور کی جاتی ہے مقدمے کے فریقین کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں ،عدالت نے کہا ہے کہ اس سطح پر فریقین کو آزادی ہے کہ وہ اس مقدمے کی پیپر بکس دستیاب ریکارڈ کے مطابق مناسب انداز میں تیار کر کے جمع کرا سکتے ہیں ۔فریقین وہ اضافی دستاویزات بھی جمع کرا سکتے ہیں جو ہائیکورٹ کے ریکارڈ کا حصہ تھے لیکن سپریم کورٹ میں جمع نہیں کرائے گئے ۔

پیراگراف نمبر 4

سپریم کورٹ نے متفرق درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا 29 مئی 2024 کا حکم معطل کرتے ہوئے بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کی درخواستوں پر مزید کارروائی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا ہے ۔

پیراگراف نمبر 5

عدالت نے لکھا کہ فاضل وکیل نے موقف اپنایا اس معاملے میں ہائیکورٹ کے 29 مئی کے حکم کی وجہ سے حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اس لئے 29 مئی کا حکم بھی معطل کیا جائے
سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ ہم نے ہائیکورٹ کے 29 مئی کے حکم کا جائزہ لیا ہے وہ 25 جون تک قابل عمل تھا اس حکم کو مزید توسیع نہیں دی گئی اس لئے وہ حکم اب موجود نہیں ہے جس کے جہ سے اس کو معطل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔

جسٹس بابر ستار کا وہ حکم جو سپریم کورٹ نے معطل کیا

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کی جانب سے 29 مئی 2024 کو آڈیو ویڈیو لیکس کے خلاف بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر درخواست پر 9 صفحات پر مشتمل تحری حکمنامہ جاری کیا تھا ۔
پیرا گراف نمبر 1
فیصلے میں عدالت نے لکھا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں موقف اپنایاگیا کہ عدالت نے 29 اپریل 2024 کو حکومت پر جو جرمانہ عائد کیا تھا وہ جمع کرا دیا گیا ہے ڈی جی ایف آئی نے توہین عدالت کے نوٹس کا جواب بھی جمع کرایا ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ اس عدالت کے سامنےدرخواست واپس لینے کی استدعا غلط فہمی کی بنیاد پر کی گئی اس عمل پر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں ،عدالت نے ایف آئی اے کی اس ضمن میں معافی کی استدعا منظور کر لی ہے ۔

پیرا گراف 2
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) نے بھی رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک تھے اور جو درخواست آئی بی کی طرف سے جمع کرائی گئی اس کی منظوری انھوں نے نہیں لی تھی ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آئی بی پر جو جرمانہ عائد کیا گیا تھا وہ گذشتہ کل جمع نہیں کرایا جا سکا کیونکہ کیس کی فائل عدالت میں تھی اس لئے دفتر نے جرمانہ وصول نہیں کیا انھوں نے کہا کہ جرمانہ آج ہی ادا کر دیا جائے گا اس صورتھال کے پیش نظر عدالت ڈی جی آئی بی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کر رہی ۔

پیرا گراف 3

عدالت نے لکھا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی اے پر جو جرمانہ عائد کیا گیا تھا وہ آج جمع کرا دیا جائے گا ،پی ٹی اے کے وکیل نے مزید کہا کہ درخواست واپس لینے کے حوالے سے رپورٹ جمع نہیں کرائی جا سکی کیونکہ کل چھٹی تھی اس لئے یہ رپورٹ آج جمع کرا دی جائے گی عدالت نے پی ٹی اے کورپورٹ جمع کرانے کی اجازت دیدی ،عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پی ٹی اے کی اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد آئندہ سماعت پر اس حوالے سے وکیل کے دلائل سنے جائیں گے ۔

پیرا گراف نمبر 4

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا گیا کہ وہ اس بار کی وضاحت کریں کہ کس قانونی فریم ورک کے تحت پاکستان میں سرویلینس کی جا رہی ہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ وفاقی حکومت اس کی ڈویژنزاور وزراتوں کے سیکرٹریز کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی کسی ایجنسی یا ادارے کوٹیلیفون کالز یا ٹیلی کام ڈیٹا کی سرویلینس کی کوئی اجازت نہیں دی گئی تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت اور اس کے متعلقہ ڈویژنز یاوزارتوں سے ہدایات لینے کے لئے وقت مانگا ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ فاضل اٹارنی جنرل نے اس موقع پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885کی شق 5 پڑھی جس میں کہا گیا ہے کہ پبلک ایمرجنسی یا عوامی مفاد میں ریاست کسی ٹیلی گراف میںمداخلت یا اسے ریکارڈ کر سکتی ہے ،فاضل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے کسی کو بھی شہریوں کی سرویلینس کے حوالے سے کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی وہ (ایڈیشنل اٹارنی جنرل) اس حوالے سے وفاقی حکومت سے ہدایات لینا چاہتے ہیں ۔
عدالت نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ٹیلی گراف ایکٹ کی شق 23 ،24 اور 25 پڑھی جن میں کہا گیا ہے کہ بغیر اجازت کے کسی کی فون کال ریکارڈ کرنا یا ریکارڈ کرنے کی کوشش کرنا قابل سزا عمل ہے ایسی صورت میں 3 سال قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے ۔

پیرا گراف نمبر 5

عدالت نے لکھا ہے کہ فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی شق 54 اور 57وفاقی حکومت کو اختیار دیتی ہے کہ وہ قومی سلامتی کے مفاد یا کسی جرم کو روکنے کے لئے کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے فون کالز ،میسجز اور کالز کو ٹریس کرنے کی اجازت دے سکتی ہے ،ایڈیشنل اتارنی نے کہا کہ ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی شق 57 کے اختیار کو استعمال کرنے کے لئے تاحال کوئی قواعد و ضوابط نہیں بنائے گئے ،

عدالت نے لکھا ہے کہ جب عدالت کی طرف سے یاددہانی کرائی گئی تو وفاقی حکومت نے پہلے ایک رپورٹ جمع کرائی جس میں موقف اپنایا گیا کہ وفاقی حکومت نے کسی ادارے یا ایجنسی کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ سرویلینس کے مقصد کے لئے کسی کی کالز یا میسجز میں مداخلت کرے یا کالز کو ٹریس کریں ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت سے مشاورت کے لئے مزید وقت مانگا ۔

پیرا گراف نمبر 6

فیصلے میں عدالت لکھتی ہے کہ ایڈیشل اٹارنی جنرل نے فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 پڑھا جس میں تفصیل کے ساتھ سرویلینس کرنے کا طریقہ کار بتایا گیا ہے اس قانون کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹرسروسز انٹیلی جنس( آئی ایس آئی) ،ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور نیول انٹیلی جنس ڈائریکٹر جنرل آئی اور پولیس اتھارٹیز فیئر ٹرائل ایکٹ کی مختلف شقوں میں سرویلینس کے دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق کم از کم 20 گریڈ کے افسر کو یہ اختیار دے سکتے ہیں اور یہ اختیار دینے کا طریقہ کار فیئر ٹرائل ایکٹ کی شق 5،6،7،8،9،10 اور 11 میں دیا گیا ہے ،فیئر ٹرائل ایکٹ کہتا ہے کہ سرویلینس کی ا جازت متعلقہ وزیر یا عدالت دے سکتی ہے ،ایک دفعہ جب متعلقہ وزیر سے کوئی درخواست منظور ہو جاتی ہے تو ایسی ہی درخواست ہائیکورٹ کے جج کے سامنے دائر کر کے سرویلینس کا وارنٹ حاصل کیا جاتا ہے ،جس افسر کو سرویلینس کرنے کا مجاذ بنایا جاتا ہے اسے جج کے چیمبر میں اس درخواست کے دائر کرنے کی وجوہات کے ذریعے جج کو مطمئن کرنا ہوتا ہے کہ ایسا وارنٹ جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ،جب وارنٹ جاری ہو جاتا ہے تو اس پر عملدرآمد کے لئے متعلقہ ایجنسی یا باڈی کو فراہم کیا جاتا ہےاور یہ سرویلینس وارنٹ میں دیئے گئے سکوپ (دائرہ کار) کے اندر کی جا سکتی ہے

عدالت نے لکھا ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کی شق 17/2 سروس پرووائیڈرز کو پابند کرتی ہے کہ اس متعلقہ ایجنسی یا ادارے کے متعلقہ فرد کو تکنیکی معاونت فراہم کرے جس کے ذریعے وہ کسی شخص یا کسی آرگنائزیشن کی سرویلینس کر سکے ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کی شق 27 یہ کہتی ہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر قانون پر مشتمل نظرثانی کمیٹی کا اجلاس ہر 6 ماہ بعد ہوگا جس میں سرویلینس کئے جانے کے عمل پر نظرثانی کی جائے گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ جو سرویلینس کی جا رہی ہے وہ قانونی طور پر ریاستی مقاصد کے لئے ہو رہی ہے یا نہیں ۔
فیئر ٹرائل ایکٹ کی شق 34 اور 35 میں کہا گیا ہے کہ قانونی یا غیر قانونی سرویلینس کے ذریعے جو مواد حاصل کیا گیا ہے اگر اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے جن کی سزا 5 سال قید اور جرمانہ ہے ۔

پیراگراف نمبر 7

عدالت نے لکھا ہے کہ جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا گیا کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کی روشنی میں ایسی کتنی درخواستیں ہیں جن کی منظوری متعلقہ وزراء نے دی اور پاکستان بھر کی ہائیکورٹس کے کسی جج سے وارنٹ حاصل کرنے کے لئے رجوع کیا گیا،تو اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ انھیں اس حوالے سے رپورٹ جمع کرانے کے لئے بھی وقت دیا جائے ۔

عدالت میں فیصلے میں لکھتی ہے کہ جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا فیئر ٹرائل ایکٹ کی شق 27 کی روشنی میں وزراء کی نظر ثانی کمیٹی موجود ہے تو انھوں نے ایک بار پھر رپورٹ کے لئے وقت مانگ لیا ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالتی سوال پر موقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سرویلینس وارنٹ لینےکے لئے کم از کم ان کے دور میں کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی ۔

پیراگراف نمبر 8

عدالت نے لکھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیکا ایکٹ 2016 کی شق 19 پڑھی جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی الیکٹرانک نظام کے ذریعے کسی بھی شخص کی فون کال ریکارڈ کرنا جرم ہے جس کی سزا دو سال جیل اور جرمانہ ہے ،جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا گیا کہ اس عدالت کے سامنے جو یہ درخواستیں زیر التوا ہیں کیا یہ اس حوالے سے فوجداری مقدمات درج کئے گئے ہیں تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے منفی میں جواب دیا فاضل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ متعلقہ تحقیقاتی اداروں نے اس حوالے سے شکایت کنندگان کی معاونت نہیں کی ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا گیا کہ جب ریاست کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ آڈیو یا ویڈیو لیک ہونے کا جرم کیا گیا ہے تو کیا پولیس یا متعلقہ تحقیقاتی حکام نے اس کا مقدمہ درج کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے منفی میں جواب دیا ۔

پیراگراف نمبر 9

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی توجہ قومی اخبارات، دی نیشن 15 مارچ 2015 ،ڈان 4 جون 2015 ،ٹریبیون 4 جون 2015 اور دی نیوز 22 مارچ 2023 میں شائع ہونے والی رپورٹس پر دلائی گئی ان رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی 1996 میں ٹیلی فون ٹیپ کرنے کے خلاف از خود نوٹس کیس میں آئی ایس آئی اور آئی بی نے مئی 2015 میں رپورٹس جمع کروائی تھیںان میں اعتراف کیا گیا تھا کہ ان ایجنسیوں نے ہزاروں پاکستانی شہریوں کے ٹیلیفون ٹیپ کئے تھے ،جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا گیا کہ کیا اس طرح کی فون ٹیپنگ فیئر ٹرائل ایکٹ کی روشنی میں کی گئی تھی ،اس پر بھی ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے رپورٹ جمع کرانے کے لئے وقت مانگ لیا ۔

پیراگراف 10

عدالت نے لکھا ہے کہ وفاقی حکومت ،پی ٹی اے، انٹیلی جنس اداروں اور فاضل وکیل کے دلائل سننے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیلی گراف ایکٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نے کسی شخص ،ادارے یا ایجنسی کو کال ریکارڈ کرنے میسج اور کسی شہری کی سرویلینس کے لئے کوئی اجازت نہیں دی بغیرا جازت کے ایسا کرنا قابل سزا جرم ہے اور ٹیلی گراف ایکٹ ،ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ ،فیئر ٹرائل ایکٹ اور پیکا قانون کے تحت اس عمل کی سزا جیل اور جرمانہ ہے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ میں سرویلینس کا مکمل طریقہ کار چیک اینڈ بیلنس اور نگرانی کا طریقہ کار دیا گیا ہے اس قانون میں متعلقہ وزراء کے ذریعے سکروٹنی کا طریقہ کار بھی دیا گیا ہے جس میں وزیرداخلہ اور وزیر قانون پر مشتمل نظر ثانی کمیٹی سرویلینس کی نگانی کرتی ہے ۔
عدالت نے لکھا ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کے تحت ہائیکورٹ کے جج کے سامنے سرویلینس کی اجازت کی درخواست بھی دائر کی جاتی ہے،ہائیکورٹ کے جج سے وارنٹ حاصل کئے بغیر فون ٹیپنگ یا سرویلینس نہیں کی جا سکتی ۔

پیرا گراف نمبر 11

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ بادی النظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت ،انتظامیہ ،انٹیلی جنس ایجنسی یا پولیس کے کسی افسر نے پاکستان کے شہریوں کی سرویلینس کی اجازت نہیں لی ،اس صورتحال میں حکومت کا کوئی ملازم تحقیقاتی یا انٹیلی جنس ایجنسی اگر سرویلینس کرتی ہے اور ٹیلی کام کمپنی اور سروس فراہم کرنے والے ادارے ان کی معاونت کرتے ہیں تو ایسے تمام افراد ٹیلی گراف ایکٹ ،ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ ،فیئر ٹرائل ایکٹ اور پیکا ایکٹ کے تحت جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
عدالت نے کہا ہے کہ بغیر اجازت کے سرویلینس آئین کے آرٹیکل 9 ،10 اے 14 اور 19 میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔اس عمل سے شہریوں کی آزادی ،وقار اور پرائیویسی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ آئیندہ سماعت تک انٹیلی جنس ادارے بشمول آئی ایس آئی ،ایم آئی اور پولیس کسی شہری کی سرویلینس نہیں کریں گے صرف اس صورت میں سرویلینس کی جائے گی جب فیئر ٹرائل ایکٹ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہائیکورٹ کے جج سے وارنٹ حاصل نہ کر لئے جائیں ،عدالت نے ہدایت کی کہ نہ تو پی ٹی اے اور نہ ہی دیگر ٹیلی کام کمپنیاں کسی کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ ان کی سروسز اور مشینری کو استعمال کرتے ہوئے فون کالز ریکارڈ کر سکیں اور نہ ہی ڈیٹا حاصل کر سکیں اور کسی مقصد کے لئے کسی کی سرویلینس کر سکیں ۔

پیراگراف نمبر 12

جسٹس بابر ستار نے اپنے حکم میں لکھا کہ وفاقی حکومت ٹیلی گراف ایکٹ ،ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی روشنی میں متعلقہ وزارتوں سے تفصیلات لیکر مفصل تحریری رپورٹ جمع کروائیں کہ ان وزارتوں کے وزراء نے سرویلینس کی کتنی درخواستوں کی اجازت دی اور کتنی عدالتوں سے 2013 سے اب تک وارنٹ جاری کرنے کے لئے رجوع کیا گیا ،وفاقی حکومت اس حوالے سے بھی ایک رپورٹ پیش کرے کہ 2013 میں فیئر ٹرائل ایکٹ کا اطلاق ہونے کے بعد فون ٹیپنگ کی گئی یا نہیں خصوصی طور پر اس تناظر میں بتایا جائے کہ 2015 میں آئی ایس آئی اور آئی بی نے اعتراف کیا تھا کہ ہزاروں پاکستانیوں کے فون ٹیپ کئے گئے ۔

عدالت نے وزارت دفاع ،وزارت داخلہ اور وزارت قانون و انصاف کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنی تحریری رپورٹس جمع کروائیں جن میں بتایا جائے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کے نفاذ کے بعد پاکستان میںفون ٹیپنگ ہوئی یا نہیں؟ اور ان وزراء نے ٹرائل ایکٹ کے تحت نظر ثانی کمیٹی کی ذمہ داریاں کس انداز میں ادا کیں ۔

پیراگراف نمبر 13

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تینوں انٹیلی جنس ایجنسیز آئی بی اور انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس اپنی انفرادی رپورٹس میں یہ بتائیں گے کہ کیا انھوں نے فیئر ٹرائل ایکٹ کی شق 4 کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے کسی مجاذ افسر کو نامزد کیا اور کیا ان افسران نے سرویلینس کے لئے ایکٹ کی روشنی میں متعلقہ تقاضے پورے کئے ۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ آئی ایس آئی اور تینوں انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹس قانون و قواعد کے تحت وزیر اعظم آفس یا وزارت دفاع کے ذریعے جمع کرائی جا سکتی ہیں

پیراگراف نمبر 14

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی اپنی رپورٹ میں یہ بتائے گی کہ کیا اتھارٹی نے ایسے کوئی ایس او پیز یا ہدایات ٹیلی کام آپریٹرز کو جاری کی ہیں کہ وہ فیئر ٹرائل ایکٹ کے خلاف کسی کو ٹیلی کام ڈیتا تک رسائی یا کال ریکارڈ کرنے کی اجازت دیں اگر ایسا ہے تو پی ٹی اے اپنی رپورٹس کے ساتھ وہ ایس او پیز یا ہدایات بھی جمع کروائیں اور اس بات کی وضاحت بھی کریں کہ کس قانونی اتھارٹی کے تحت انھوں نے ایسی ہدایات جاری کیں ۔

پیراگراف نمبر 15

جسٹس بابر ستار نے لکھا ہے کہ میں نے پاکستان براڈ کاسٹر زایسوی ایشن کے وکیل فیصل صدیقی کو سنا آئندہ سماعت پر عدالت اپنے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے بعد آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائیٹی (اے پی این ایس) ،پیمرا ،ٹیلی کام کمپنیز کے وکلاء اور فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سنے گی ۔

پیراگراف نمبر 16

فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ کیس 25 جون کو سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا ،عدالت نے دفتر کو ہدایت کی کہ اس فیصلے کی کاپی عملدرآمد کے لئے پرنسل سیکرٹری وزیر اعظم ،سیکرٹری دفاع،سیکرٹری داخلہ ،سیکرٹری قانون و انصاف ،چیئرمین پی ٹی اے ،ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ،ڈائریکٹر جنرل ایم آئی ،ڈائریکٹر جنرل ایئر انٹیلی جنس ،ڈائریکٹر جنرل نیول انٹیلی جنس ،ڈائریکٹر جنرل آئی بی اور آئی جی اسلام آباد پولیس کو بھجوائی جائے ۔فاضل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس حکم کاپی وفاقی حکومت ،متعلقہ ڈویژنز اور متعلقہ وزارتوں یا افسران تک پہنچائیں گے تاکہ عملدرآمد رپورٹس آئندہ سماعت سے قبل 14 جون 2024 تک عدالت میں جمع کروائی جا سکیں اور عدالت سماعت سے قبل ان کا جائزہ لے سکے ۔