اسلا م آباد(ای پی آئی )سپریم کورٹ میں فیصل آباد کے حلقے این اے 97میں الیکشن کمیشن کی جانب سے دوبارہ گنتی کے حکم کوکالعدم قراردینے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے خلاف پاکستان مسلم لیگ (ن)کے امیدوار علی گوہربلوچ کی جانب سے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے علی گوہر خان کی جانب سے حلقہ میں دوبارہ گنتی کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی ۔ دوران سماعت درخواست گزا ر کی جانب سے حسن رضا پاشا جبکہ مدعا علیہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سعداللہ بلوچ کی جانب سے سینئروکیل اوررکن قومی اسمبلی سردار محمد لطیف خان کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد نے پیش ہوکردلائل دیئے۔

سماعت کے آغاز پر سردارلطیف کھوسہ روسٹرم پر آکر استدعا کہ میں بیمار ہوں اور ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ سے اٹھ کرآرہا ہوں اس لئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی جائے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر بھی آپ کی درخواست پر التوادیا تھا، آپ دلائل دینا چاہیں توٹھیک وگرنہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو بلائیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔ دیگر کیسز کی سماعت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ کیس سماعت کے لئے مقررہواتودرخواست گزارکے وکیل حسن رضا پاشا نے دلائل کاآغاز کیا۔

جسٹس امین الدین خان کا حسن رضا پاشا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ریفرنس کیا ہے جوہمارا پہلا فیصلہ ہے۔ حسن رضا پاشا کاکہنا تھا کہ میرے مئوکل نے 8فروری2024 کوہونے والے انتخابات میں 70532ووٹ لئے جبکہ مدعا علیہ نے 72846ووٹ لئے، دونوں کے ووٹو ں کا فرق2314ووٹ کا ہے۔ حسن رضا پاشا کاکہنا تھا کہ پہلے کیس والے ہی حقائق اس کیس میں ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ریٹرننگ افسر نے دوبارہ گنتی کی درخواست پر کوئی حکم جاری کیا کہ نہیں؟ اس پر حسن رضا پاشا کاکہنا تھا کہ آراونے کہا کہ مجھے دوبارہ گنتی کے حوالہ سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، پھر ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان گئے توانہوں نے دوبارہ گنتی کاحکم جاری کردیا۔ حسن رضا پاشا کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ ہم نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی جوخارج ہوگئی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ یہ کیسے ثابت کریں گے کہ آپ نے دوبارہ گنتی کی درخواست نتائج مرتب ہونے سے قبل 9فروری2024کودی۔

جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ریٹرننگ افسر کا جواب ہائی کورٹ یا الیکشن کمیشن کے سامنے دکھادیں۔ حسن رضا پاشا کاکہنا تھا کہ آر اونے کہا کہ مجھے درخواست نہیں ملی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھاکہ جن کیسز کاحوالہ دے رہے ہیں ان میں آراوز کی جانب سے دوبارہ گنتی کی درخواستیں خارج کی گئی تھیں۔ حسن رضا پاشا کاکہنا تھا کہ میں نتائج مرتبہ ہونے سے قبل دوبارہ گتنی کی درخواست دائر کردی تھی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ یہ فیکچوئل تنازعہ ہے جس کو ہم ریکارڈ کے زریعہ ہی حل کرسکتے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کوئی درخواست وصولی کی تاریخ ہوتودکھادیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کیوں دوبارہ گنتی کی درخواست پر تاریخ نہیں لکھی، دوصفحات کی درخواست تھی اس پر تاریخ لکھنے میں کیا قباحت تھی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اگر درخواست نتائج تیار ہونے سے قبل آئے اورہارجیت کافرق 5فیصد ہو توآر اودوبارہ گنتی کروانے کا پابند ہے۔

جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ نتائج مرتب ہونے سے قبل درخواست آنی چاہیئے تھی، ہمیں یہ دکھائیں کہ آر اونے کہا کہ درخواست آئی ہی نہیں تھی، ہائی کورٹ نے کہاں سے لکھ دیا کہ درخواست آئی تھی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ پہلی رٹ پیٹیشن میں دکھائیں کہ اس میں لکھاتھا کہ درخواست نتائج مرتب ہونے سے قبل 9فروری کودائر کی گئی تھی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ہم صرف تاریخ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس تاریخ کودرخواست دی تھی، 9فروری کو گنتی شروع ہوئی اوروہ کئی دن جاری رہ سکتی ہے، ریکارڈ سے دکھائیں کہ 9فروری سے قبل درخواست دی تھی، تاریخ نہ لکھنے کامنفی تاثر جائے گا۔ اس دوران جب سردارلطیف کھوسہ دلائل دینے کے لئے روسٹرم پر آئے توجسٹس نعیم اخترافغان کا ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ بہت فریش لگ رہے ہیں، آپ کہہ رہے تھے کہ آئی سی یو سے اٹھ کرآیا ہوں۔ حسن رضا پاشا کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاریکارڈمنگوالیں شاید اس میں 9فروری کودی گئی درخواست موجود ہو۔ اس پر جسٹس نعیم اخترافغان کاحسن رضا پاشا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آپ کاریکارڈ ددیکھنا چاہتے ہیں۔

سردار لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ ریٹرننگ افسر اور پریزائڈنگ افسر کو فریق بنایا گیا اومجھے فریق ہی نہیں بنایا گیا۔ لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ آراونے لکھا کہ دوبارہ گنتی کے حوالہ سے درخواست بعد میں ذہن میں آنے والی سوچ ہے۔لطیف کھوسہ کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی کی کوئی درخواست دی ہی نہیں گئی، آراوانکارکررہا ہے کہ کوئی درخواست دی ہی نہیں گئی۔ اس دوران جسٹس امین الدین خان نے استفار کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کون پیش ہورہا ہے۔ اس پر ڈی جی لا محمد ارشد روسٹرم پر آگئے۔

جسٹس امین الدین خان نے ڈی جی لا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ریکارڈ کیا کہتا ہے۔اس پر ڈی جی لا نے بتایا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق 9فروری کو دوبارہ گنتی کی درخواست نہیں دائر کی گئی، ایک درخواست دائر کی گئی جس پر تاریخ نہیں لکھی اور نہ ہی ریٹرننگ افسر کی جانب سے دستخط کئے گئے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔