اسلام آباد(ای پی آئی )سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان کے ضلع سبی میں کے پوسٹ آفس ملازمین کو کروڑوں روپے کی کرپشن پر ملازمت سے برخاست کرنے کے فیصلے کو بھال کر دیا ۔عدالت کی جانب سے 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری ۔
تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ نے جنرل پوسٹ آفس (جی پی او)ضلع سبی ، بلوچستان میں11کروڑ49لاکھ43ہزار900روپے کی کرپشن میں ملوث دو ملازمین کے حوالے سے فیڈرل سروسز ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے محکمے کی جانب سے انہیں نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلوںکو بحال کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
6صفحات پرمشتمل فیصلہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3رکنی بینچ 17اپریل2024 کوپوسٹماسٹر جنرل بلوچستان، کوئٹہ کی جانب سے امانت علی، محمداعظم اوردیگر کے خلاف دائر 2 درخواستوں پر سماعت کی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان پیش ہوئے جبکہ مدعاعلیہان کی جانب سے ذوالفقاراحمد بھٹہ بطوروکیل پیش ہوئے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپیلیں فیڈرل سروسز ٹربیونل اسلام آباد (کراچی برانچ)کے 21مارچ2016اور24مارچ2016کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی ہیں۔ ڈھاڈر پوسٹ آفس میں 11کروڑ49لاکھ، 43ہزار900روپے کا بڑا فراڈ پکڑا گیا۔مدعا علیہ امانت علی کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا جو کہ سبی جی پی اومیں بطورخزانچی کام کررہے تھے،انہوں نے بھاری مقدار میں کیش جمع کروایا اوراس حوالہ سے سینئر پوسٹماسٹر سبی ، جی پی اوسے منظوری نہیں لی اوررقم کی خودبرد کے حوالہ سے ڈھاڈر کے سابق پوسٹماسٹرز مشتاق حسین، غلاب خان اور محمد طارق کی سہولت کاری کی۔ ملزم کو ریمووال فرام سروس (سپیشل پاورز)آرڈیننس،2000کے سیکشن 3(c)کے تحت کرپشن کاقصوروار قراریاگیا۔ مدعاعلیہ نے چارج شیٹ کا جواب جمع کروایا اور الزامات سے انکار کیا۔ محکمہ کی جانب سے درخواست گزارکو مس کنڈکٹ کا مرتکب قراردے کرملازمت سے برخاست کردیا گیا
جس کے خلاف درخواست گزار نے محکمانہ اپیل کی جسے مسترد کردیا گیا۔اس کے بعد درخواست گزار نے سروسز ٹربیونل میں اپیل دائر کی۔جبکہ مدعا علیہ محمد اعظم کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ سبی جی پی اومیں 1مئی2002سے31جنوری2004تک جونیئراکائونٹنٹ تعینات تھااوراسی عرصہ کے دوران ڈھاڈر پوسٹ آفس کے سابق پوسٹماسٹرز مشتاق حسین، غلاب خان اور محمد طارق نے سرکاری رقم کاغلط استعمال کیاتاہم مدعا علیہ کی جانب سے اپنے پوسٹ آفس ڈھاڈر میں رقم کے حوالے سے مشتبہ وائوچرز کی وصولی کی نشاندہی نہیں کی گئی اورمدعا علیہ نے پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت کئے گئے بڑے فراڈ میں ملزمان کی سہولت کاری کی۔
مدعا علیہ کوگورنمنٹ سرونٹس (ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن)رولز،1973کے رول3(c)(i)کے تحت کرپشن کامرتکب قراردیا گیا۔ مدعا علیہ نے الزامات سے انکار کیا تاہم انکوائری کے بعد انہیںنوکری سے برخاست کردیا گیا اورانہیں خودبردکی گئی رقم بھی جمع کروانے کاحکم دیا گیا۔مدعا علیہ نے فیصلے کے خلاف محکمانہ اپیل دائر کی جس کاکوئی جواب نہ دیاگیا تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے سروسز ٹربیونل سے رجوع کیا۔سروسز ٹربیونل نے گورنمنٹ سرونٹس (ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن)رولز، 1973کے رول4(1)(b)(i)کے تحت دونوں ملازمین کو بحال کردیا تاہم دو سال کے لئے ٹائم سکیل میں دودرجے کی کمی کردی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم نے دلائل سن لئے اورانکوائری رپورٹ کاجائزہ لیا جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ مدعاعلیہان کو الزامات کاجواب دینے کا مناسب موقع فراہم کیا گیا۔ زیادہ ترشواہددستاویزی شکل میں ہیں۔ متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے مناسب انداز میں شواہد کاجائزہ لینے کے بعدقانون کے مطابق مدعاعلیہان کو ملازمت سے برخاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
معزز سروسز ٹربیونل ملازمت سے برخاست کرنے کی سزاکومعمولی سزامیں تبدیل کرتے ہوئے دونوں انکوائری رپورٹس کادرست جائزہ لینے میں ناکام رہا جبکہ الزامات ثابت ہوچکے تھے ۔ سروسز ٹربیونل نے رپورٹس پر غور کئے بغیر اس کو نااہلی اور غفلت کا کیس سمجھا جس کی کوئی منطق نہیں تھی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سروسز ٹربیونل انکوائری رپورٹس میں موجود پروسیجر یا کسی بڑی خامی کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام رہا جس کی بنا پر متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے سنائی گئی سزا کوکالعدم قراردیا جائے یااس میں کوئی ترمیم کی جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق سزادینا متعلقہ انتظامی اتھارٹی کا کام ہے اوراس حوالہ سے ٹریبونل اور عدالت کاکردار ثانوی نوعیت کاہے۔
عدالت نے دونوں مدعاعلیہان کو محکمے کی جانب سے ملازمت سے برخاست کرنے کاحکم بحال کرتے ہوئے فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلے کالعدم قراردے دیئے۔