اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل)قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ تاحال نہیں ہو سکا ہے،پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کی مخصوص نشست کے لیے نامزد امیدوار سیمابیہ طاہر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کر نے کو الیکشن کمیشن کی بدنیتی قرار دیتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے واضح فیصلہ آجانے کے بعد دوبارہ عدلت سے رجوع کر نا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ خواتین اور اقلیتوں کو ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم کر نے کی سازش ہے اس سے ایک طرف تو معاشرے کی پچاس فیصد آبادی کو اپنے حقوق کے لیے پارلیمنٹ میں آواز بلند کر نے سے رو کا گیا ہے تو دوسری جانب اقلیتیں،جن کو پاکستان کا آئین دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دیتا ہے،ان کی بھی آواز کو دبایا جا رہا ہے،انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو ان کی مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا حق ہے جسے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے تسلیم کیا ہے اب حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ہمیں اس حق سے محروم رکھے اسی لیے الیکشن ترمیمی ایکٹ کو جلد بازی میں منظور کیا گیا لیکن اس سے عدالتی فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

یہ قانون سپریم کورٹ کے پچھلے فیصلے پر لاگو ہو گا یا نہیں، یا اس کے کیا اثرات ہوں گے،قانونی ماہر اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر چوہادری قیصر امام کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ نئی قانون سازی سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتی لیکن حکومت کی جانب سے الیکشن ترمیمی بل کی منظوری کے ذریعے نئی ترامیم کرانا عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عملدرآمد میں پیچیدگیاں پیدا کر نا ہو سکتا ہے اور اس معاملے کو مزید قانونی رنگ دے کر طویل کر نا ہو سکتا ہے،ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے عمل سے جہاں ایوان نا مکمل ہیں وہاں اقلیتوں اور خواتین کا قومی و صوبائی اسمبلیوں جیسے اہم فورمز پر نمائندگی کا حق متاثر ہو رہا ہے،اقلیتوں یا خواتین کے ممبران کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہوں لیکن وہ ایوان میں اپنے حقوق کے لیے مل کر جدوجہد کرتے ہیں۔

وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں اقلیتوں اور خواتین کی حق نمائندگی کے متاثر ہونے کے حوالے سے تو بات کر نے سے گریز کیا تاہم نئی قانون سازی پر ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل2024کی منظوری سے اس حوالے سے ساری کنفیوژن دور ہو گئی ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عدالت کا نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب الیکشن کے بعد مخصوص نشستوں کا عمل ہوا اور کسی پارٹی میں شمولیت کا وقت ختم ہو گیا تو کس قانون کے تحت کسی رکن کو دوبارہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت کا کہا جا سکتا ہے؟

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی کا کہنا ہے کہ عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہ ماننا غیر آئینی ہے، انہوں نے پہلے بھی این آر او لیا تھا اور نشستیں خود لی تھیں، اب دوسرا این آر او لینا چاہتے ہیں جسے ہم نہیں مانیں گے۔ چیف جسٹس سمیت عدلیہ سے گزارش ہے اب فیصلے پر عمل درآمد کروانا آپ کی آئینی ذمہ داری ہے، یہ نشستیں ہماری ہیں اور ہماری ہی رہیں گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی قانون سازی جو اس فیصلے پر عملدرآمد کے خلاف ہو غیر آئینی ہے، ہم اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے

اقلیتی رہنما اور پاکستان ہندو کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے معاملہ جلد سے جلد حل ہو نا ضروری ہے تاکہ اقلیتی اراکین اپنے حقوق کے لیے ایوانوں میں آواز بلند کرسکیں اور مناسب قانون سازی کے ذریعے اقلیتوں کو ان کے حقوق دلوائے جا سکیں انہوں نے کہا اقلیتی ارکان نے ہمیشہ پارلیمنٹ کے اندر اقلیتوں کے لیے نہ صرف مناسب قانون سازی کرائی ہے بلکہ ملک کا قومی اور عالمی سطح پر نام بلند کیا ہے اگر ایوان میں اقلیتی اراکین موجود ہوں گے تو دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کر نے والا ملک ہے۔

پارلیمانی امور کے ماہراورپارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری ایم بی سومرو نے بھی جلد بازی میں حکومتی حمایت کے ساتھ الیکشن ترمیمی بل2024کو حیران کن قرار دیتے ہوئے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ عام طور پرائیوٹ ممبر بل پر پارلیمانی کمیٹی میں اتنی تیزی سے کارروائی نہیں ہوتی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حکومت کی تائید حاصل تھی،پارلیمانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کم ہی دیکھا گیا ہے کہ نجی ممبر بل پیش ہونے کے دوسرے دن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلا کر منظور کرلیا گیا ہواوریہ بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بھی فوری منظور ہو جائیں۔ اس کے برعکس نجی ممبر بلز مہینوں اور بعض اوقات تو سال کے عرصے میں بھی کمیٹی سے منظور نہیں ہوپاتے۔ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں اور خواتین کو ایوان میں جتنی جلدی نمائندگی ملے گی اس سے وہ اپنے مسائل اور حقوق کے حوالے سے قانون سازی کے لیے اقدامات کر سکیں گے اور ملک میں اقلیتوں کو درپیش مسائل اور خواتین کو درپیش چیلنجز کو اجاگر کیا جس کے گا، اب کیونکہ معاملہ پھر سپریم کورٹ کے پاس جا چکا ہے تو عدالت کو چاہیئے کہ جلد از جلد اس معاملے کو نمٹائے،

گزشتہ دو دہائیوں سے پارلیمنٹ کی کارروائی کو کور کر نے والے سینیئر صحافی کاشف رفیق بھی حکومت کی جانب سے ترمیمی بل کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا مقصد سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد روکنا یا اس میں رکاوٹ پیدا کرنا معلوم ہوتا ہے،مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری کرانے کے لیے دباوبڑھانا بھی اس ترمیم کا مقصد ہوسکتا ہے تاکہ جلد اس جلد نظرِ ثانی کی سماعت شروع ہو، ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں (ن) لیگ کی مرکز میں حکومت ختم تو نہیں ہوتی تاہم حکومتی اتحاد کو ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں رہے گی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ایوان ابھی تک نامکمل ہیں اور اقلیتوں اور خواتین کی نمائندگی متاثر ہو رہی ہے،سپریم کورٹ کی جانب سے ابھی تک تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا،ایک طرف اقلیتیں اور خواتین اپنے مسائل کے حوالے سے مناسب قانون سازی سے قاصر ہیں تو دوسری جانب ایوانوں کے اندر ان کا حق نمائندگی بھی متاثر ہو رہا ہے، سیاسی جماعتوں اور اداروں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے اقلیتیں اور خواتین قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس نمائندگی سے محروم ہیں جو پاکستان کا آئین ان کو دیتا ہے، اس وقت ایوان کے اندر اقلیتوں اور خواتین کے نمائندے موجود تو ہیں لیکن ان کی وہ تعداد مکمل نہیں ہے جو ایوانوں میں ہونی چاہیئے،خیبر پختونخواہ اسمبلی میں یہ تعداد سب سے کم ہے کیونکی وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کے جنرل نشستوں پر زیادہ نشستیں جیتنے کی وجہ سے ان کے مخصوص نشستوں کے ممبران کا حق سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 266 ہیں جبکہ خواتین کی مخصوص نشستیں 60 اوراقلیتوں کی دس مخصوص نشستیں ہیں، پنجاب میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 66 ہے اور اقلیتیی سیٹیوں کی تعداد آٹھ ہے۔خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 26 اور اقلیتوں کی چار نشستیں ہیں جبکہ صوبہ سندھ میں خواتین کی 29 اور اقلیتوں کی9نشستیں جبکہ صوبہ بلوچستان میں خواتین کی11 اور اقلیتوں کی تین مخصوص نشستیں ہیں۔

حکومت کی جانب سے ایوان سے الیکشن ترمیمی بل 2024 منظور کیے جانے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل منظور ہوتے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان فیصلے کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جا چکی ہے جس میں الیکشن کمیشن سنے عدالت عطمی سے فیصلے کی وضاحت کے حوالے سے رہنمائی مانگی گئی ہے،پاکستان تحریک انصاف نے بھی ایک نئی متفرق درخواست کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق مقدمہ میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر عملدر آمد کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو12جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد کاحکم،آزاداراکین کے وابستگی سرٹیفکیٹس منظوری کی ہدایت کی جائے،پی ٹی آئی کی جانب سے دائر متفرق درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی فیصلے کی وضاحت کے حوالے سے دائر درخواست مسترد کی جائے اور اسے 12جولائی2024کے سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے پر عملدرآمد کا حکم جاری کرتے ہوئے آزاد اراکین کے وابستگی کے سرٹیفکیٹس منظور کرنے کی ہدایت کی جائے، الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ فیصلہ درست نہیں ہے اور اس پر عملدر آمد میں مشکلات کا سامنا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی اور زیب جعفرکی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل 2024 میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 اور 104 میں ترامیم کی گئی ہیں۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 میں ترمیم کاغذاتِ نامزدگی میں سیاسی جماعت سے وابستگی ظاہر کرنے سے متعلق کی گئی ہے، ترمیم کے مطابق انتخابی نشان الاٹ کرنے سے قبل اگر کوئی امیدوار کسی سیاسی جماعت سے اپنی وابستگی سے متعلق ریٹرننگ افسر کے سامنے بیان حلفی جمع نہیں کراتا تو اسے آزاد امیدوار تصور کیا جائے گااور اگر کوئی آزاد امیدوار بعد کے کسی مرحلے میں سیاسی وابستگی سے متعلق بیانِ حلفی جمع کراتا ہے کہ اس نے سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا تھا تب بھی اسے آزاد امیدوار ہی تصور کیا جائے گا۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 میں یہ ترمیم کی گئی ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرانے میں ناکام رہتی ہے تو وہ یہ مدت گزر جانے کے بعد مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے اہل نہیں ہوگی جبکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 میں شامل کی گئی شق 104 الف میں کہا گیا ہے کہ اگر کامیاب آزاد امیدوار آرٹیکل 51 کی شق چھ یا آرٹیکل 106 کی شق تین کے مطابق کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے تو یہ ناقابلِ تنسیخ ہوگی۔

جولائی میں ماہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے میں کامیاب ہونے والے ایسے آزاد اراکین کو 15 دنوں میں کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کا موقع دیا تھا جنہوں نے عام انتخابات کے دوران کاغذات نامزدگی میں پارٹی وابستگی ظاہر نہیں کی تھی اور بعدازاں وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے تھے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سُنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی تھی جس کے بعد یہ تمام نشستیں عام انتخابات میں جیتنے والی دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔