نئی دہلی (ای پی آئی )امریکہ میں مقیم ہندو امریکی فاؤنڈیشن ایچ اے ایف مودی سرکار کی حمایت میں امریکی شہر کیپیٹل ہل میں لابنگ کرنے کے شواہد سامنے آ گئے .

2014 میں مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو امریکی فاؤنڈیشن کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی جس کی قیادت مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کر رہی ہے۔ہندو امریکی فاؤنڈیشن کے بانیوں کو مودی سرکارکی جانب سے مالی معاونت ملنے کے شواہد بھی موجود ہیں،

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ تنظیم مودی سرکار کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہے اور ناقدین کے خلاف دفاعی بیانیہ پیش کرتی ہے، بھارت میں اقلیتوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے خلاف مودی سرکار کا دفاع میں بھی اہم کرداد ادا کیا ہےجبکہ اس بات کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ ہندو امریکی فاؤنڈیشن راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے براہ راست رابطے میں ہےیہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہندو امریکی فاؤنڈیشن امریکا میں پاکستان میں انسانی حقوق کی منفی منظر کشی کرتی ہے تاکہ بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکے،

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ ہندو امریکی فاؤنڈیشن بھارتی مسلمانوں کیخلاف شہریت ترمیمی ایکٹ(CAA)کی حمایت کرتی ہے جبکہ اس ایکٹ کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے،بین الاقوامی سطح پر ہندو امریکی فاؤنڈیشن کی کوششوں نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کی تشہیر کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا،

گجرات میں مودی کی جانب سے قتل و غارت کرنے پر بھی ہندو امریکی فاؤنڈیشن نے اس کی مکمل حمایت کی تھی، امریکا میں ہندو امریکی فاؤنڈیشن کو مذہبی قوم پرستی کے فروغ پر بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا،

ہندو امریکی فاؤنڈیشن اور بھارتی سفارت خانے کے درمیان خفیہ مواصلات بھی منظر عام پر آئے، ہندو امریکی فاؤنڈیشن ممکنہ طور پر غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر بھی نمایاں ہوئی جو امریکہ کی سا لمیت کے برخلاف ہےامریکی خارجہ پالیسی کے اصولوں کے مطابق کسی بھی فرم کا لابنگ یا سیاسی سرگرمیوں کیلئے فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ FARA کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے لیکن ہندو امریکی فاؤنڈیشن FARAکے تحت رجسٹرڈ نہ ہونے کے باوجود بی جے پی حکومت کا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے

ہندوامریکی فاؤنڈیشن کی جانب سے مودی سرکار کے حق میں مہمات چلانا اور بھارتی مسلمانوں کیخلاف منفی پروپیگینڈاکرنا انتہائی افسوسناک امر اور امریکی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے جس کا امریکی عدالتوں کو نوٹس لینا چاہئے