اسلام آباد (ای پی آئی ) سندھ میں پچھلے کافی عرصے سے زمینوں پر قبضوں سرکاری اداروں میں کرپشن اور کراچی میں پانی مافیا کے ایک سسٹم کی باتیں سامنےآتی رہی ہیں کہ یہ سسٹم صوبے میں کئی غیر قانونی اور ناجائز کاموں میں ملوث ہے اور اس سسٹم کو سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے اور اہم بات یہ ہے کہ کراچی کی تاجر برادری اس حوالے سے آرمی چیف کے سامنے بھی ان خدشات کا اظہار کرتی رہی ہے،کہ سسٹم کے تحت کرپشن صوبے خصوصا کراچی کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے اسی سال 21 نومبر کو کراچی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے تاجروں کی ملاقات ہوئی اور اس ملاقات میں بھی تاجروں نے آرمی چیف کو اپنے شکایتوں سے آگاہ کیا جس کے بعد اس مبینہ سسٹم کے خلاف کاروائی کےآغاز کی خبریں گردش کر رہی ہیں.

سسٹم کیخلاف ایکشن
ذرائع کرپشن و مافیا سسٹم کے خلاف ہونے والے ایکشن کی تصدیق کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ ایکشن آرمی چیف کے پچھلے ماہ تاجر برادری سے ملاقات کا نتیجہ ہے دو روز پہلے سندھ میں بیوروکریسی اور پولیس میں ہونے والی تقرریوں اور تبادلوں کو سسٹم کے خلاف ایکشن سے جوڑا جا رہا ہے دی نیوز کے صحافی امداد سومرو کی خبر کے مطابق سندھ میں ریونیو اور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے متعدد اہم افسران کا تبادلہ کر دیا گیا ہے خبر کے مطابق ایم ڈی سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ سید امتیاز شاہ جو گریڈ 21 کے افسر ہیں ان کا تبادلہ کر دیا گیا ہے جبکہ ڈی سی ملیر عرفان سلیم مروانی، ڈی سی کیماڑی ظاہر چیمہ ،ڈی سی ایسٹ شہزاد افضل عباسی اور سیکرٹری لینڈ یوٹیلائزیشن ضمیر احمد عباسی کا بھی تبادلہ کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ مختلف تھانوں کے ایس ایچ اوز اور اے ایس ائیز کے تبادلے بھی کر دیئے گئے ہیں اور تمام تبادلوں کا تعلق سندھ میں موجود سسٹم سے جوڑا جا رہا ہے اس پر کراچی کے تاجر مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

تاجروں کی آرمی چیف کوشکایت
دس نومبر کو آرمی چیف سے ملاقات کے بعد کراچی کے معروف بزنس مین حنیف گوہر نے بتایا تھا کراچی کے لوگوں نے اپنا درددل نکال کر آرمی چیف کو بتایا کہ کراچی میں کہ ہمارے ساتھ کیا کیا مظالم ہو رہے ہیں اورآج بھی سسٹم کے نام پر زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں اوربیوروکریسی تنگ کر رہی ہے . سب لوگوں نے آرمی چیف سے کہا کہ آپ ہمیں ایکسپورٹ بڑھانے اور پیسہ واپس لے کرآنے کی بات کرتے ہیں لیکن آپ تمام انڈسٹری سیکٹرزمیں جاکر سڑکوں کا حال دیکھیں . کراچی میں پانی مافیا کئی سال سے موجود ہے ،پاکستان کا بزنس مین پانی کے مافیا کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے لیکن اس مافیاکو حکومت ختم نہیں کر سکتی اورنہ ڈی جی رینجرزختم کرسکے ہیں.

آرمی چیف اور تاجروں کامکالمہ
تاجر رہنما حنیف گوہر نے بتایا کہ جب آرمی چیف نے ان سے مسائل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آج بھی سسٹم کے نام پہ زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں بیوروکریسی تاجروں کو پریشان کر رہی ہے اور پانی مافیا کا مسئلہ ایسا ہے جو ڈی جی رینجرز بھی حل نہیں کر سکے جبکہ اس ملاقات کے بعد یہ خبریں بھی سامنے آئی تھی کہ تاجروں نے آرمی چیف سے لینڈ ریکارڈ کے ڈیجیٹلائز نہ ہونے کا بھی شکوہ کیا تھا جس پر آرمی چیف نے کہا تھا کہ یہ کام تو نگران وزیر خزانہ سندھ یونس ڈھاگا کے دور میں ہی ہو چکا ہے جس پر تاجروں نے بتایا کہ جو کام اس وقت ہوا تھا سندھ حکومت نے اسے بھی ریورس کر دیا ہے ۔

وزیراعلی سندھ کا ایکشن
تاجروں کی آرمی چیف کو شکایت کے بعداہم پیش رفت سامنے آئی ہے کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے صوبے بھر میں زمینوں کا ریکارڈدوبارہ کمپیوٹرائز کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اگلے دو ہفتے میں بورڈ اف ریوینیو کو ڈیجیٹل فارم ڈیزائن کر کے پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے یعنی وزیراعلی سندھ نے بظاہر تاجروں کی شکایت پر ایک بار پھر زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کا حکم دے دیا ہے

مرتضی وہاب کا ردعمل
سندھ حکومت کراچی کے تاجروں کی اس شکایت پر زیادہ خوش نظر نہیں آرہی،جس کا اظہار مئیر کراچی مرتضی وہاب خود کرچکے ہیں۔
اس حوالے سے ترجمان بلاول ومیئر کراچی مرتضی وہاب نے کچھ روز پہلے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ کراچی کے تاجر اور سرمایہ کاروں نے کبھی اس شہر کو اچھا نہیں کہا وہ بس شکایتیں ہی لگاتے رہے۔

مرتضی وہاب نے صحافی کے سوال پر جواب دیاکہ مجھے دکھ ہوتا ہے اچھے حالات ہوں تب بھی یہ بزنس مین بری بات کرتے ہیں برے حالات تو تب بھی بزنس مین بری بات کرتے ہیں جو بات کی گئی ہے اگر کسی کا کوئی ذاتی ایشو ہے اورپانی مافیا کیخلاف بات کی گئی ہے میں پانی کی مافیا کے خلاف تھا خلاف ہوں اور خلاف رہوں گا انہوں نے کہاکہ لینڈ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن ہم نے کیا تھا اور یہ بزنس مین صرف الزامات لگاتے ہیں ان میں سے کوئی نگران وزیر(کیئر ٹیکر منسٹر )بننا چاہتا ہے کوئی ویسے ایڈوائزر بننا چاہتا ہے کوئی کبھی ہم سے ملنا چاہتا ہے اس چکر میں الزامات لگاتے ہیں انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیئے.

تاجروں کے آرمی چیف سے گلے شکوے
ملاقات میں تاجروں نے آرمی چیف سے یہ شکوے کیے تھے کہ ایک سسٹم ہے جو پورے صوبے سندھ میں آپریٹ کر رہا ہے جس کی وجہ سے بڑا نقصان ہوتا ہے کرپشن بھی ہے لینڈ مافیاز بھی وہاں پہ آپریٹ کر رہے ہیں پانی مافیا بھی ہے اورآرمی چیف کی طرف سےتاجروں کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان مسائل کا حل نکالا جائے گا اور اس کے بعد بڑے پیمانے میں سندھ میں ٹرانسفر پوسٹنگ ہوئی ہیں اور مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ زمینوں کا ریکارڈ وہ دوبارہ کمپیوٹرائز کرایا جائے گا توجوکچھ ہو رہا ہے یہ اسی میٹنگ کا نتیجہ ہے جو تاجروں کی آرمی چیف کے ساتھ ہوئی تھی۔

تاجروں کاآرمی چیف کے سامنے موقف
تاجر رہنما حنیف گوہر کہتے ہیں کہ سندھ میں ہونے والا ایکشن اسی میٹنگ کا نتیجہ ہے کیونکہ زمینوں پہ قبضوں اور شہر میں بدامنی کا معاملہ تھا اس پرہم گزشتہ تین سال سے مسلسل آواز اٹھا رہے تھے لیکن اس آوازکو اٹھانے کا اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا فائدہ ہمیں آرمی چیف کے سامنے آواز اٹھانے کا ہوا تو ہم نے دوماہ پہلے بھی آرمی چیف کو بتایا تھا اب بھی بتایا کہ آپ انویسٹمنٹ لانے کے لیے بات کرتے ہیں تو انویسٹمنٹ پاکستان میں کیسے کوئی لے کر آئے گا کہ جب کہ یہاں پہ سارا مافیا کام کر رہا ہے ایک شہر کے اندر جب تک یہ سسٹم ختم نہ کیا جائے گا زمینوں پہ قبضے ختم نہیں ہوں گے اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا .آرمی چیف کو یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس اور یہ ریونیو کے سارے افسران یہ سب کے سب آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔

تاجروں کی بے بسی اورآرمی چیف کاڈنڈا
تاجر رہنما حنیف گوہر کے مطابق ایس ایچ او کے پاس ہم جاتے ہیں ایس ایچ او کے بس میں کچھ نہیں ہوتا ہم اپنے ساتھیوں کی زیادتی کی ایک ایف ائی آر تک نہیں کٹوا سکتے ہیں بظاہر ہم اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھتے ہیں شہر میں رہنے والے لیکن ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ جناب ہماری تو یہ حیثیت ہے کہ ہم اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی ایف آئی آر بھی نہیں کٹوا سکتے جب آرمی چیف کو ہم نے ایک مرتبہ کہا اور اب جب دوبارہ دو مہینے کے بعد کہا تو یہ اس کا شاخسانہ ہے تو آرمی9 چیف نے تب اپنا ڈنڈا اٹھایا اورواضح ہدایات دی ہیں کہ مجھے یہ سسٹم نہیں چاہیے کہ شہر میں ابھی سسٹم کو ختم کریں تو اللہ کا شکر ہے کہ دیر ائے درست ائے کم سے کم آرمی چیف کے کہنے کے بعد یہ سسٹم ختم کیا جارہا ہے۔

آرمی چیف کی گارنٹی
جب حنیف گوہر سے سوال کیا گیا کہ کیاآپ کہہ رہے ہیں کہ ضمانت دی گئی تھی کہ یہ جو سسٹم ہے اس کا خاتمہ ہوگا اس کو توڑا جائے گا لیکن کیاآپ سمجھتے ہیں کہ افراد کے بدل جانے سے یہ مقصدحاصل کیا جا سکتا ہے ؟کیونکہ اس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیک نیتی ہونی چاہیے کہ اس سسٹم کا خاتمہ کرنا ہے دوسرا یہ کہ جو سرپرستی ہے چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی ہو اس کا ختم ہونا ضروری ہے ورنہ افراد توتبدیل ہوں گے اور اگر سرپرستی رہے گی اور نیت نہیں ہوگی تو پھر وہی وہ لوگ بھی آ کے یہی کام کریں گے

سیاسی سرپرستی کا خاتمہ یا آرمی کوملوث ہوناہوگا
حنیف گوہرنے جواب دیاکہ جب تک سیاسی سرپرستی ختم نہیں ہوگی معاملات درست نہں ہونگے کیونکہ انتظامیہ سیاسی لوگوں کے ماتحت ہوتی ہے چاہے وہ بیوروکریسی ہو چاہے وہ پولیس ہو .وہ دیکھتے ہیں کہ اوپر سیاسی لوگوں کی پالیسی کیا ہے ؟جب تک سیاسی لوگ اپنی پالیسی کوتبدیل نہیں کریں گے تو یہ سسٹم نہیں ختم ہو سکے گا اور ان سیاسی لوگوں کو اگر وہ ختم نہیں کرنا چاہ رہے تو مجبورا آرمی کو ملوث ہونا پڑے گا ایجنسیوں کوشامل ہونا پڑے گا اگر یہ ملک بچاناہے یہ شہر بچانا ہے تو پھر ان سیاسی لوگوں کو بیٹھ کے سمجھانا ہوگا کہ آپ لوگ مافیا کے اوپر ہاتھ رکھنا چھوڑ دیں جو آپ اپنی مرضی سے پوسٹنگ ٹرانسفر کراتے ہیں اور یہ جو ڈی سی تک آپ اپنی مرضی کے رکھاتے ہیں اور ایس ایس پی اپنی مرضی کے رکھاتے ہیں ۔

سرکاری انکروچمنٹ فورس
حنیف گوہر کہتے ہیں انہوں نے اینٹی انکروچمنٹ فورس بنائی ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اینٹی انکروچمنٹ فورس مافیا کے قبضےکرانے کے لیے بنی ہوئی ہے یہ اینٹی انکروچمنٹ فورس نہیں ہے بلکہ انکروچمنٹ فورس ہے جو ان کے کارندوں کے ساتھ جا کے زمینوں پرقبضے کراتی ہے اور دوسرے جو مالکوں کے چوکیداروں کو نکال کر ان کے لوگوں کو زمینوں پر بٹھاتی ہے وہ اس وقت یہ رول ادا کر رہی ہے
ان کا کہنا تھاکہ یہ انکروچمنٹ فورس سینیئر میمبر بورڈکو رپورٹ کررہی ہے،انکروچمنٹ فورس پولیس کی موبائلوں میں آتی ہے عام آدمی کو یہی پتہ ہوتا ہے کہ یہ پولیس ہے اس لئے وہ آگے سے کچھ نہیں کر سکتے مجبور ہوتے ہیں لیکن وہ آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی بھی اس لیول پر مجبور ہوتے ہیں

سیاسی حکومتیں مسائل کیوں حل نہیں کرتیں؟
ویسے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی حکومتیں یہ مسائل حل کریں کیونکہ صوبائی خود مختاری کے تحت ان کے پاس اختیارات ہیں لیکن جب تاجروں نے آرمی چیف سے یہ شکوے کیے تو اس کے بعد بلال بھٹو صاحب کے ترجمان اور میئر کراچی ہیں مرتضی وہاب نے برا منایا تھا اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ بزنس مین جاکے شکایتیں لگاتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے ذاتی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔

تاجروں کامرتضی وہاب کوجواب
مندرجہ بالا سوال پر تاجرحنیف گوہر نے کہاکہ آپ ہمیں بتائیں کہ ہمارے کیا ذاتی مفادات ہوتے ہیں ہم بزنس مین کاروباری لوگ اگر اس پاکستان میں کاروبار کرنا چھوڑ دیں تو یہ گورنمنٹ کے ٹیکسز کہاں سے اکٹھےہوں گے یہ اٹھارویں تنظیم کے بعد صوبوں کے پاس جو اتنی بڑی آمدن آتی ہے وہ کہاں سے آئے گی یہ حکومتیں کیسے چلائیں گے یہ ملک تو چلا بزنس مین رہا ہے یہ چیرٹی کے کام تو بزنس مین کررہا ہے تو خالی مرتضی وہاب کے کہنے سے تو کیا مقصد سارے کے سارے بزنس مین خراب ہو گئے۔
انہو ں نے کہاکہ مرتضی وہاب کو اللہ نے عزت دی ہے انہیں کاروباری لوگوں کے حوالے سےسوچ کر بات کرنی چاہیے کیونکہ مرتضی وہاب کے بیان کاتاجر برادری نے بہت برا منایا ہے ایک طرف آرمی چیف تاجر برادری کو مل کر ضمانت دے رہے ہیں کہ آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں پاکستان میں کاروبار کریں اور دوسری طرف مرتضی وہاب آ کے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے

تاجر مخالف بیان کافائدہ
تاجرحنیف گوہر نے کہا کہ مرتضی وہاب کے بیان کا ایک فائدہ ہوا ہے آرمی چیف کی یقین دہانی کے بعد کراچی کے کاروباروی لوگوں نے بھی یہ سوچا کہ سیالکوٹ کے تاجروں کی پیروی کرتے ہوئے ایئر کراچی کے نام سے ایئر لائن بنائیں اور انشاءاللہ تعالی تمام ڈاکومنٹیشن ہونے کے بعد کراچی کے لوگ صلاحیت رکھتے ہیں کہ چار سے چھ مہینے میں یہ اڑتے ہوئے جہاز نظر آئیں گے.

کیا سندھ میں موجود نظام ٹوٹ پائے گا؟
حنیف گوہر سے سوال کیا گیا کہ نظام کو توڑنےکی باتیں پہلے بھی سنی ہیں ، جنرل راحیل شریف صاحب کے دور میں بڑا آپریشن ہوا تھا اور یہی باتیں کی گئیں کافی گرفتاریاں ہوئیں کہ سسٹم کو توڑا جائے گا لیکن وہ سسٹم اگر عارضی طور پہ اس کے لیے کچھ اقدامات بھی لیے جاتے ہیں وہ پلٹ کے وآپس آ جاتے ہیں تو اب کوئی ضمانت ہے کہ ایک طویل مدتی اقدام ہوگا اور جس سسٹم کو کرپشن کی آپ بات کرتے ہیں اس کا مکمل طور پرخاتمہ ہوگا

آرمی چیف کی ضمانت پر کچھ نہ ہوا توکیا ہوگا؟
حنیف گوہرنے جواب دیاکہ ہمارے پاس تو اور کوئی آپشن نہیں ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طاقت کے بعد سب سے طاقتور آدمی آرمی چیف ہوتا ہے اب آرمی چیف نے ضمانت دی ہے اور اس کے بعد بھی اگر چیزیں خراب ہوتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ پھر ادارے کے لیے بری بات ہوگی، آرمی چیف کی ضمانت کے بعد کراچی کے لوگوں نے ایک بار پھر جذبے کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ہے اپنی انویسٹمنٹ باہر بھیجنا بند کی ہیں اور اپنی دوسری بارباہر بھیجی ہوئی انویسٹمنٹ واپس لے کر آ رہے ہیں آرمی چیف کی انشورنس دینے کے بعد اگر پھر بھی کراچی کے بزنس مین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور یہ تو ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے کہ ہم دوبارہ آرمی چیف سے شکوہ کریں گلا کریں جس طرح سے ہم نے پچھلے دنوں گلے شکوے کیے ہیں جس پر کچھ لوگ ناراض ہوئے۔