ڈیرہ غازیخان کے ملزم کا کیس ، جسٹس اطہر من اللہ کے خوفناک ریمارکس
اسلام آباد (ای پی آئی ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اس ادارہ (سپریم کورٹ )میں بھی اتنا ہی سچ بولا جاتا ہے جتناہمارے معاشرے میں بولا جاتا ہے ۔چالیس سال بعد منتخب وزیراعظم کے قتل کا اعتراف کیا گیا وزیراعظم کے قتل سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے،کسی کو کو ذمہ دار قرار دے کر سزا دی جانی چاہیے تھی۔ جسٹس جمال خان مندو خیل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈیرہ غازیخان میں سال 2011 میں ہونے والے دوہرے قتل کے مفرور ملزم اسحاق کھوسہ کی بریت و ضمانت کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی ۔
دوران سماعت عدالت نے تفتیشی نظام پر سوالات اٹھائے اور جسٹس اطہر من اللہ نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیا ریاست کا عام آدمی کی9 خدمت کا کوئی ارادہ ہے ؟ اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ایسا ہوا تو چاہیئے ، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ تفتیشی ادارے تو سارا سال لوگوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں عام شہریوں کو کسی کو خیال نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ گواہان حلف لیتے ہیں کہ اگر جھوٹ بولیں تو ان پر اللہ کا قہر اور عذاب نازل ہو لیکن اس کے باوجود 200گواہان میں سے 100 لازمی جھوٹ بولتے ہیں۔ اس دورن جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ سال 2017 سے یہ مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے جبکہ ریاست ملک کی منتخب حکومت گرانے اوراسکی جگہ نئی حکومت لانے مصروف ہے، سارے ادارے سیاسی مخالفین کےخلاف لگے ہوئے ہیں۔
اس دوران جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ریاست کی کیا بات کرتے ہیں ملک کے تین وزیراعظم مارےگئےتینوں وزرائےاعظم کے مقدمات کا کیا بنا؟بلوچستان میں سینئر ترین جج بھی ماراگیا کچھ پتہ نہیں چلا اصل بات یہ ہے کسی کی کچھ کرنے خواہش ہی نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ میں صوبائیت کی بات نہیں کرتالیکن دیگر دو صوبوں کی نسبت سندھ اور پنجاب میں تفتیش انتہائی ناقص ہے ایسی تفتیش سے تمام مقدمات کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔اوراقدامات سے لگ رہاہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ اس نظام کو ٹھیک نہیں کرنا۔۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ جب ریاستی ادارے پولیٹیکل انجنئیرنگ میں مصروف ہوں گے تو ملک کایہی حال ہوگا ملک میں ایک آئین موجود ہے اگر اس آئین پر عمل ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے آئین آگے نہیں چل رہا اس لئے یہ سارے مسائل سامنے ہیں ۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ لوگوں کوملک کے اداروں پر یقین نہیں کیونکہ ادارے کام نہیں کرتے اور لوگوں نے ذہن میں یہ بات آگئی ہے کہ سارے کام سپریم کورٹ کرے ۔ ہر معاملے پر عدالت ہی نوٹس لے۔ اس پر وکیل عثمان کھوسہ نے کہاکہ اداروں نے عوام کو مایوس کیا ہے اس لئے ہر کوئی عدالت کی جانب دیکھتا ہے۔
جب جسٹس مندوخیل نے مثال دی کہ کسی شخص نے حضور اکرم سے پوچھاتھا تو حضور نے فرمایا کہ آپ جھوٹ بولنا چھوڑدیں ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتے، پولیس مقدمات میں حقائق ڈھونڈنے کی بجائے مدعی کو سچا ثابت کرنے لگ جاتی ہے،
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ یہ ادارہ بھی اتنا ہی سچ بولتا ہے جتنا ہمارا معاشر سچ بولتا ہے ،چالیس سال بعد منتخب وزیراعظم کے قتل کا اعتراف کیا گیاملک کے وزیراعظم کے قتل سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے؟ اس معاملے میں کسی کو کو ذمہ دار قرار دے کر سزا دی جانی چاہیے تھی
اس دوران جسٹس ملک شہزاد احمد گھیبہ نے کہاکہ جس ملک میں وزیراعظم کا یہ حال ہو عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟یہاں وزیراعظم ایک دن وزیراعظم ہاوس میں ہوتا ہے تو دوسرے دن جیل میں ہوتا ہے ۔کسی کو پتہ نہیں کس نے کتنے دن وزیراعظم رہنا ہے۔
دوران سماعت ملزمان کی سزا میں اضافہ کیلئے مدعی کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر بھی سماعت کی گئی تاہم عدالت نے مدعی کے وکیل کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا،
یاد رہے کہ مقدمہ میں نامزد ملزمان محمد یعقوب اور اسحاق کھوسہ کو لاہور ہائیکورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی ۔ محمد یعقوب جیل میں ہے جبکہ اسحاق ضمانت حاصل کرنے کے بعد فرار ہوگیا تھا ۔
عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ایس پی سپریم کورٹ کو ہدایت کی کہ عدالت میں موجود ملزم اسحاق کو گرفتار کرکے جیل حکام کے حوالے کریں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کرنے کے بعد رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا