اسلام آباد(محمداکرم عابد) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے ہنگامہ خیز اجلاس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی ارکان کے بلز کی مخالفت کردی۔پارٹی ارکان نےغصے میں آکر قراردیا کہ پارلیمان کو ٹرک کی بتی پیچھے لگادیاگیا۔کوئی آمر آیا تو اس سے یہ منظور کروالیں گے اس سے مل جائیں گے ۔ایک سرکاری حکیم ساری نجی قانون سازی سے منع کردیتا ہے۔
مسترد بلز میں مفت صحت کی سہولت اور فیصل آباد ڈویژن ہائی کورٹ کے قیام سے متعلق آئینی ترمیمی بلز شامل تھے ان بلزکے محرکین پی ٹی آئی کے ایم این اے ڈاکٹر امجد علی خان اورچنگیز خان تھے رائے شماری میں بیرسٹر گوہر نے اپنے ارکان کا ساتھ نہ دیا اس معاملے پر تلخ کلامی بھی ہوگئی محرکین نے کہا کہ یہ ماحول بن گیا ہے کہ ترامیم جبر سے کروائی جاتی ہیں کسی آمر سے فیصل آباد ڈویژن میں ہائی کورٹ کا بینچ بنوالیں گے ۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کااجلاس چیئرمین محمود بشیر ورک کی صدارت میں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ آئین میں غیر ضروری ترامیم سے گریز کرنا چاہئے۔ اجلاس میں وزیرقانون کی عدم حاضری پر علی محمد خان نے کہا کہ وزیرصاحب انسانی حقوق کمیٹی میں بھی نہیں آتے،ان کو شاید کسی حکیم نے منع کیا ہے۔ شہریوں کے یکساں حقوق سے متعلق نفیسہ شاہ کے آئینی ترمیمی بل کا جائزہ لیتے ہوئے صوبوں سے رائے آنے تک موخر کردیا گیا۔
سردار لطیف کھوسہ کی جانب نے بل پرسخت اعتراضات کئے گئے انہوں نے کہا کہ اس پر ووٹنگ کرائی جائے۔ ارکان کی اکثریت کا موقف تھا کہ آئین میں بتایا دیاگیا ہے کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں، آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے.
اس دوران سردار لطیف کھوسہ اور نفیسہ شاہ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوگیا نفیسہ شاہ نے کہا کہ سرائیکی پنجابی سندھی بلوچ پشتون کا کیا ہم فرق ختم کرسکتے ہیں، شہریوں سے اسی مساوی ریاستی طرزعمل کو دیکھیں ہم کیا حکومت کے پابند ہیں، حکومت ہماری پابند ہے.
محرک خاتون کے مطابق آئینی کے آرٹیکل 25میں ایک حکومت عالمی سطح پر یقین دہانی کرواچکی ہے انھوں نے وہ تحریر کمیٹی میں پڑھ دی اور کہا وزارت اس کی تصدیق اور تردیدکیوں نہیں کرتی.
مخالف ارکان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو وزارتوں کی جانب سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے کئی کئی ماہ رپورٹس نہیں آتی علی محمدخان نے کہا کسی ملک یا کسی عالمی آرگنائزیشن کے کہنے پر ہم اپنا تبدیل نہیں کرسکتے یہ فیصلہ ہماری ریاست اور یہاں کے ارکان نے کرنا ہے بعد ازاں بل موخرکردیا گیا اور حکومت سے متعلقہ عالمی مراسلہ کی تصدیق یا تردیدکی رپورٹ مانگ لی گئی ہے حکومت کی رپورٹ آنے تک بل موخر کردیاچنگیز احمد خان کے آئینی ترمیمی بل پیش کیا کہ فیصل آباد میں ہائیکورٹ کا بینچ قائم کیا جائے،تین تین سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے سائلین اور وکلا لاہور پہنچتے ہیں کئی وکیل ٹریفک حادثات کا شکار ہوگئے ۔ دو کروڑ سے زیادہ آبادی ہے، چار اضلاع ہیں،
رکن کمیٹی عالیہ کامران نے کہا کہ سستا اور فوری انصاف لازمی ملنا چاہئے،آج کل نیٹ کا دور ہے، ویڈیو لنک کے ذریعے رجسٹری میں آفس بنا دیا جائے، ویڈیو لنک کے ذریعے وکلاءکیسز کیوں نہیں کرسکتے،اس میں آئینی ترمیم کی بالکل ضرورت نہیں ہے.
بیرسٹر گوہر نے بھی بل کی مخالفت کی اور کہا کہ آئینی طریقہ کار کوئی اور ہے یہ صوبائی معاملہ ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ ہم نے ابھی ہر صوبے کی اسمبلی کو اختیار دیا ہے صوبہ ہائیکورٹ کا بینچ قائم کرسکتا ہے ،فیصل آباد میرے بھی دل کے بڑے قریب ہے،جو طریقہ کار آئین میں دیا گیا ہے اس کے تحت ہونا چاہئے،یہ معاملہ صوبائی حکومت اور چیف جسٹس ہائیکورٹ کو ریفر کرسکتے ہیں،گوجرانوالا کا بھی مطالبہ ہے،ڈی جی خان، سرگودھا بھی بینچ مانگتا ہے۔کمیٹی نے ووٹنگ کے بعد کثرت رائے سے بل مسترد کردیا۔ عمیرنیازی ،سہیل سلطان ،علی محمدخان نے حمایت کی لیکن بل کے محرک چنگیزخان جذباتی ہوگئے اور کہا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ہائی کورٹس کے بینچزبنے تھے اب کیا کسی آمر سے کہیں گے یہ آکر بنادے ہم اس آمر سے مل جائیں گے ۔
پی ٹی آئی کے رکن ڈاکٹرامجد علی خان کے مفت صحت کی سہولیات سے متعلق آئینی ترمیمی بل کی بھی اپنی پارٹی قیادت نے مخافت کردی بیرسٹرگوہر نے اسے صوبائی معاملہ قراردیا جبکہ مسلم لیگ ن سمیت دیگر ارکان نے ان کی تائید کردی۔
آبادی کے پچیس کروڑ اعدادوشمار کے تذکرے پر سربراہ کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کی آبادی 30 کروڑ سے زیادہ ہے.
وزیرقانون نے کہا کہ وہ بل کے مقاصد سے متفق ہیں تاہم یہ معاملہ صوبوں کے حوالے کیا جاچکا ہے،صوبوں کو آن بورڈ کرنے کے لئے ان کے کمنٹس لے لیں،چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کی رائے اس پر آئے،طبی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے.
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ کمیٹی پر بلز کا بوجھ نہ ڈالیں پہلے ہی بہت سے معاملات زیرالتواءہیں یہ صوبائی معاملہ ہے، اسے بنیادی حق کے طور پر آئین میں نہ رکھیں۔
چیئرمین کمیٹی نے پنجاب کے حوالے سے کہا کہ ہیلتھ کارڈ دیا گیا تھاجس طرح کرپشن ہوئی ہے، وہ سارا کرپشن کی نظر ہوگیا۔ محرک نے کہا کہ کسی معاملے میں خرابی درست کی جاتی ہے سسٹم ختم نہں کیا جاتا امریکہ برطانیہ جیسے امیر ملکوں میں مفت صحت کی سہولت دستیاب ہے ۔ تاہم کمیٹی نے رائے شماری کے بعد بل مسترد کردیا۔
اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ اور علی محمد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوگیا کہترمیم کے لئے ممبران کو اغوا کیا جاتا ہیں، ممبران کو دھمکیاں دیتے ہیں، ڈنڈے چلتا ہے گوشت نوچا جاتا ہے یہاں مفاد عامہ کا بل مسترد ہورہا ہے ،قائمہ کمیٹیاں بند کردیں، اگر قانون سازی نہیں کرنی۔
اس دوران اجلاس ہنگامہ آرائی کا منظر پیش کررہا تھا ڈاکٹر امجدعلی خان نے کہا اتنی بحث 26ترمیم پرنہیں ہوئی جتنی اس بل پر ہوئی سارے اعدادوشمار میرے بل کی تصدیق کرتے ہیں آصفہ بھٹو سمیت صوبوں سے بات کی ہے وہاں سے قراردایں آجائیں گی کے پی کے اسمبلی قراردادمنظورکرچکی ہے۔حکومت اور بیرسٹر گوہر اس موقع پر یکجا نظر آئے کہ رائے شماری کروائی جائے ۔ تیسرابل کوڈ آف سول پروسیجرمیں ترمیم موخر کردی گئی ۔
ازراہ تفنن وفاقی وزیرقانون نے کہا کہ کسی نے ناراض نہیں ہونا ، میں پہلے معافی مانگ رہا ہوں،میں اور گوہر صاحب آج ولن بنے ہوئے ہیں۔
نیب ترمیمی سے متعلق آرڈیننس کے بارے میں وزیرقانون نے کہا کہ یہ آرڈیننس لیپس ہوگیا ہے یا زندہ ہے؟وائٹ کالرجرائم میں تفتیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پندرہ دنوں کا ریمانڈ کافی نہیں تیس چالیس دن ضروری ہے ایسا نہ پی ٹی آئی کو کم دنوں کا نقصان ہو ہم تو نیب کو بھگت چکے ہمارے لوگوں نے طویل اسیری ریمانڈ میں گزاری ۔ پی ٹی آئی دور میں قانون سازی کے لئے سینیٹ میں حکومت کی طرف دیکھتے تھے بلز لاتے تھے مگر اچھا سلوک نہ ہوا تھا .
اجلاس میں علی محمدخان نے اس کا اعتراف کیا اور کہا کہ اب موجودہ حکومت تو وہ روش اختیار نہ کرے یا وزیراعظم کے کسی معاملے میں قانون سازی کے اختیار کویہ کہہ کرمستردکرسکتے ہیں یہ صوبائی معاملہ ہے آئین پارلیمان نے بنایا ہے۔