اسلام آباد (ای پی آئی ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت،عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا
تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے آغاز پر عدالتی معاون حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکمنامہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔
عدالتی معاون حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تشکیل آرٹیکل 175 کے تحت ہوئی ہے، جوڈیشل پاور پوری سپریم کورٹ کو تفویض کی گئی ہے، سپریم کورٹ کی تعریف بھی واضح ہے جس میں تمام ججز شامل ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں مخصوص ججز ہی سپریم کورٹ کی پاور استعمال کرسکتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟وکیل حامد خان نے کہا کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ ایسا نہیں ہوسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ سوال الگ ہے۔ اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جاسکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے کیس واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرے تو معاملہ فل کورٹ میں جاسکتا ہے؟ اس سوال پرمعاونت دیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر ابہام تو ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے اسفتسار کیا کہ حامد خان صاحب آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ماضی میں بنچز تشکیل جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں، یہ خیر چلیں 26ویں ترمیم کا سوال آجائے گا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا دنیا کے کسی ملک میں بنچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟ حامد خان صاحب آپ کے ذہن میں کوئی ایک ایسی مثال ہو؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ ایسا کہیں نہیں ہے، بینچ جوڈیشری ہی بناتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ 191 اے کو سامنے رکھیں تو کیا یہ اوورلیپنگ نہیں ہے؟
حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی پاور کو انڈر مائن نہیں کرسکتی، یہ الٹی میٹ پاور ہے جو عدالت نے دی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر فال ونہیں کرتی تو پھر کیا ہوگا۔ جس پر حامد خان نے کہا کہ کمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز فکس کرنے کا اختیار ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ راجا عامر کیس میں بھی فل کورٹ بنا تھا۔حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرکے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر عدالت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کرسکتی ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ 2 اے کے مطابق کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں، 2 اے کے مطابق کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو اگنور کرکے بینچ سے کیس واپس لے سکتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کے زریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے ججز کمیٹی کو بجھوایا جا سکتا ہے۔حامد خان نے کہا کہ ریگولر ججز کمیٹی کے ایکٹ کے سیکشن 2 اے آرٹیکل 191، بینچ جوڈیشری ہی بناتی ہے، اے سے ہم آہنگ نہیں ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی، میں آرٹیکل 191 اے کی مثال دینا چاہتا ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کا اختیار موجودہ کیس سے الگ ہے، یہ سوالات 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے میں آئینی بنچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بنچ کا ذکر نہیں ہے، کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ایک آئینی بنچ ہوسکتا ہے، اس صورتحال میں تین آئینی بنچز بن سکتے ہیں جو ان میں سینئر ہوگا وہی سربراہ ہوگا، آرٹیکل 191 اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2 اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی کیا حالیہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ ابھی پڑا ہے، ماضی میں اتنا نہ جائیں، آپ ہمارے یونیورسٹی کے دوست بھی ہیں۔
احسن بھون نے کہا کہ ماضی میں تشریح کے نام پر آئینی آرٹیکل کا کیس غیر مؤثر کیا گیا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آج کل تو ایسا کچھ نہیں ہوا، حال میں تو سب ٹھیک ہے۔احسن بھون نے کہا کہ حال تو مائی لارڈ آپ لکھیں گے، ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم تو ویسے ہی گپ شپ کر رہے ہیں۔احسن بھون نے کہا کہ اس لیے ہم چاہتے تھے کہ آئینی عدالت بنے۔ جس پرجسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ تھوڑا دھکا اور لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے۔ احسن بھون نے کہا کہ دھکا تو ہم نے لگایا تھا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہم نے آرٹیکل 191 اے کا جائزہ لینا تھا، جائزہ کے دوران کیس بینچ سے واپس لے لیا گیا۔اس دوران جسٹس منصور علی شاہ اوراحسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا اور دوران سماعت عدالت میں قہقہے بھی لگے۔احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موثر ہوچکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں۔
احسن بھون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انہیں توایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ توگپ شپ لگتی رہے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو آج ہی سنیں گے، کوشش کریں گےآج ہی سماعت مکمل ہوجائے۔عدالتی معاون خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 191 تین کے تحت بنچ کے دائرہ اختیار پر بات کروں گا۔خواجہ حارث نے کہا کہ کیس اگر مقرر نہیں ہوتا تو پہلے ججز کمیٹی کو بھجوانا ہوگا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آرڈر کریں فل کورٹ نہ بنے تو کیا فائدہ، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا سیکشن 2 اے آگیا۔وکیل صلاح الدین نے کہا کہ فل کورٹ بینچ نہیں، ججز موجود ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے فل کورٹ لانا ہوتا ہے۔
اس دوران احسن بھون نے کہا کہ آپ کا شکریہ مجھے معاونت کیلئے بلانے کا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ملک کے نامور وکیل ہے۔احسن بھون نے کہا کہ توہین عدالت کامعاملہ عدالت اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب ہم کمیٹی کے فیصلے کا جائزہ لے رہے ہیں، سوال ہے کیا کمیٹی جوڈیشل آرڈر نظرانداز کرسکتی ہے، کمیٹی نے آرڈر نظرانداز کیا تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا،طے کرنا ہے کمیٹی کو جوڈیشل آرڈر کا احترام کرنا ہے، آپ کا شکریہ ہم نے کل آرڈر کیا آپ آج معاونت کیلئے آگئے۔جسٹس منصور علی شاہ بولے آپ ہمارا حکم مانتے ہیں اور کوئی ہمارا حکم نہیں مانتا۔خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین یہ نہیں کہتا کیسز کس نے اسائن کرنے ہیں، ہائیکورٹ اگر سرٹیفیکیٹ دے دیتا ہے کہ یہ آئینی سوال موجود ہے تو وہ بھی آپ سن سکتے ہیں، ڈائیریکٹ اپیل کے تمام کیسز آپ سن سکتے ہیں، 185 (3) کا دائرہ اختیار وہاں نہیں ہے جہاں آپ دیکھ رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا یہ کمیٹی کا دائرہ اختیار ہے کہ ایک کیس جو چل رہا ہو وہ واپس لے سکے؟خواجہ حارث نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ کمیٹی آئینی بینچ میں کیسز لگائے گی۔جسٹس منصور علی شاہ نھے کہا کہ کمیٹی واپس لے سکتی ہے یا بینچ تبدیل کر سکتی ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ کمیٹی چاہے تو کیس ڈراپ کر سکتی ہے، آئین میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اگر طریقہ کار بنے گا تو کس طرح بنے گا، دونوں میں بینچ کی تشکیل کا ذکر ہے کہیں یہ نہیں ہے کہ کون اسائن کرے گا، سول اورکریمنل کیسز میں آئینی سوالات ریگولر بینچ دیکھ سکتا ہے، آرٹیکل 185 تین پر مگر دائرہ اختیار کا معاملہ آجاتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی ہم نے 63 اے کا ایک کیس تھا اس میں ریگولر بینچ میں فیصلہ دیا، یہاں کیس ہم سے واپس لیکر کمیٹی نے آئینی بینچ میں لگا دیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ڈائریکٹ کیس آئینی بینچ میں نہیں لگا سکتی، آئینی بینچ میں کیس آئینی کمیٹی ہی لگا سکتی ہے، اگر سادہ کمیٹی نے ایسا کیا تو غلط کیا ہے۔خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ مجھے پتہ چلا کہ جو بینچ پہلے کیس سن رہا تھا وہ اگلے ہفتے کیلئے یبنچ شیڈول میں نہیں تھا، ایسی صورتحال میں کمیٹی کیس کسی اور بینچ میں لگا دینے کی مجاز ہے، کمیٹی کا کیس واپس لینا اس کے آئینی مینڈیٹ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے، اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر آج بھی ایک نافذ العمل قانون ہے، سپریم کورٹ کا بینچ قانون کے مطابق ہی کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہنے کہا کہ کیا انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے درست ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے؟ اگر ہمارا 16 جنوری کا آرڈر غلط ہے تو کیا وہ جوڈیشل فورم پر ہی چیلنج نہیں ہو گا؟
خواجہ حارث نے کہا کہ یہاں آپ کی بات درست ہے مگر میں اس کو صرف الگ تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا آئین میں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو ماننا لازم ہے؟ کیا سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹی پر یہ آئینی شق لاگو نہیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے کمیٹی واپس لینے لگ جائے تو عدلیہ کی آزادی کمیٹی کے ہاتھ آجائے گی۔خواجہ حارث نے دلائل پیش کیے کہ آرٹیکل 191 اے آئین کا حصہ ہے جسے کسی جوڈیشل فورم نے کالعدم قرار نہیں دیا، اگر ریگولر بینچ کے سامنے کوئی آئینی نقطہ آیا تھا تو اسے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا، اگر آپ کا پچھلا عدالتی بینچ آئینی سوالات پر فیصلہ دیتا تو وہ فیصلہ ہی خلاف قانون ہوتا، یہ معاملہ عدالتی بینچ کو ججز انتظامی کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے یاد دلایا کہ ایسا ہی ایک واقعہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، ایک جوڈیشل آرڈر پر رجسٹرار آفس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا، جوڈیشل آرڈر کے باوجود انتظامی کمیٹی نے کیس ہی لے لیا، کمیٹی کے پاس کیس واپس لینے کا اختیار کدھر سے آگیا۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں لکھا ہے کہ کونسا مقدمہ کہاں چلے گا۔جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آرٹیکل 185/3 کے کیس میں اگر کوئی ٹھوس قانونی سوالات آجائے تو کیا ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی اجازت نہیں، کیس ہمارے سامنے کمیٹی نے لگایا۔خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ کمیٹی نے آرٹیکل 191 اے کا معاملہ سمجھ کر آئینی بینچ کو بھجوایا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ہم کوئی فیصلہ دیتے تو نظرثانی میں بڑا بینچ بنا دیتے۔
خواجہ حارث نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، میرے حساب سے کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ کمیٹی تو پھر ایسا کیس بھی واپس لے لی گی جو ہم سب سن سکتے ہوں گے۔جسٹس عقیل عباسی بولے کہ لیگل معاملات بینچز اور عدالتیں ہی حل کرتی ہیں، کمیٹی بھی سر آنکھوں پر، رولز بھی سر آنکھوں پر۔
عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ میں اپنے بڑوں سے سیکھتا رہتا ہوں، نوجوان بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں، چیف جسٹس کمیٹی کے سامنے معاملہ رکھیں، پارلیمنٹ کا اختیار 2 تہائی اکثریت کے ساتھ قانون سازی کرنا ہے۔اس موقع پر جسٹس عقیل نے ان سے پوچھا کون سی کمیٹی، 2 یا 2 اے والی کمیٹی۔جسٹس عقیل عباسی کے جملے پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونجنے لگے۔ تاہم، احسن بھون نے جواب دیا کہ دونوں کمیٹیاں قانون کے تحت بنائی گئی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا، چیف جسٹس پھر کیا کریں، یعنی آپ کہہ رہے ہیں کہ کمیٹی نے ٹھیک کیا، مسئلہ کمیٹی کے سامنے رکھیں؟احسن بھون نے کہا کہ فل کورٹ جوڈیشل آرڈر کے تحت نہیں ہوسکتا ورنہ فساد ہوجائے گا، یہاں ادارے کو تباہ کرنے میں لوگ لگے ہوئے، ہر کوئی اپنی پارلیمنٹ، اپنے ججز، اپنی سپریم کورٹ چاہتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم ادارے کو بچانے کے لیے ہی لگے ہوئے ہیں۔عدالتی معاون احسن بھون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل نے بھی اپنے دلائل دیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ معاملہ حل کی طرف جائے، ایک بار ہی حل نکال لینا چاہیے، ہمارے پاس اختیار ہے کہ کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتے تھے، لیکن ہمیں چاہیے کہ معاملہ فل کورٹ کو بھیجا جائے۔ بعدازاں، عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔