اسلام آباد (ای پی آئی ) سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت، خواجہ آصف کے دلائل جاری ،سماعت آج (جمعرات) تک ملتوی تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کئے اور شق 19 کا حوالہ دیا۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ میرا سوال گزشتہ روز بھی یہی تھا کہ کیا تفتیش چارج سے پہلے ہوتی ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے تفتیش ہوتی ہے پھر چارج ہوتا ہے۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں واضح ہے کہ ٹرائل اور فئیر ٹرائل میں کیا فرق ہے، چارج فریم ہونے کے بعد شامل تفتیش کیا جاتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ ہو تو کیا آرڈر کے خلاف کوئی ریمیڈی کرسکتے ہیں، مطلب اس میں بھی وہی سزائیں ہوتی ہیں؟جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ اگر اعتراف نا کرے تو پھر کیا طریقہ کار ہوگا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اعتراف نا کرنے کی صورت میں بھی کیس وہی چلے گا؟خواجہ حارث نے بتایا کہ جج اور ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق 3 کا کیس نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہوسکتا ہے؟وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے۔ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کرلے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو تو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے؟وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟خواجہ حارث نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان، ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھا جاتا ہے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور۔انہوں نے کہا کہ جب رٹ میں ہائیکورٹس میں اپیل آتی ہیں تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ کنڈکٹ کرنے والے کا تجربہ ہوتا ہے یا پہلی دفعہ ہی بٹھا دیا جاتا ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بیس سال کی محنت کے بعد سیشن جج بنتے ہیں۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ دفاعی آفیسر کا کوئی تجربہ ہوتا ہے یا نہیں، جج ایڈووکیٹ عدالت میں موجود ہوتا ہے کورٹ مارشل بھی کرسکتا ہے؟ جس طرح ہم ججز بیٹھے ہوتے ہیں اسی طرح سیٹنگ ہوتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جب ٹرائل مکمل ہوجاتا ہے تو کیا کوئی سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آج کل ہمارا ملک اتنا ٹرین ہوچکا ہے کہ آٹھ ججز کے فیصلے کو دوججز کہتے ہیں غلط ہے، کیا ان کیسز کا کوئی ڈاکیومنٹ دیا جاتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ٹرائل میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو کیا اپیل میں غلطی کی نشاندہی پر ملزم کو فائدہ ملتا ہے؟جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس کے تمام پہلو دیکھے جاتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا رٹ میں اتنا اختیار ہے کہ پروسیجر کو دیکھا جائے کہ اسے مکمل فالو کیا گیا یا نہیں، زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے، جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلاتا ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اپیل میں اپیل کنندہ کو کیا مکمل موقع دیا جاتا ہے؟خواجہ حارث نے کہا کہ رولز 63 میں ملٹری کورٹ کے پرائزئڈنگ آفیسر کی ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور شفاف ٹرائل کا موقع دینا اس کی ذمہ داری میں شامل ہے، حلف لینے کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرتے ہیں، ٹرائل کرنے والے افسران کا تجربہ ضروری نہیں لیکن ملٹری ایکٹ پر عبور رکھتے ہوں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پروسیجر اور شفاف ٹرائل کا موقع تو ہونا چاہیے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والوں کو اس کی کوئی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، انہوں نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں کہ یہ قصوروار ہے کہ نہیں۔سوشل میڈیا کی تو بات نہ کریں وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بیٹھ کر اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ان کا کام ہے ان کو کرنے دیں ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ افسوس ہے سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے میں ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کہ وجہ سے سوال کرتی ہوں، لیکن افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو بھی ہے وہ فیکٹ میں دلچسپی نہیں لیتے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے، سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کا عام شہریوں پر کیا اثر پڑے گا، ہمیں ایک بےلگام معاشرے کا سامنا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں شفاف ٹرائل کے تمام سیف گارڈز رکھے گئے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ڈیفنس آفیسر کا کوئی تجربہ ہوتا ہے، کیا ڈیفنس آفیسر کی صلاحیت ہوتی ہے ملزم کے دفاع کی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی متعلقہ افیسر کا تجربہ ہوتا ہے۔اس دوران لطیف کھوسہ بولے کہ جج ایڈووکیٹ ملزم کے ساتھ نہیں بلکہ پریزائڈنگ آفیسر کے ساتھ بیٹھتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب جج ایڈووکیٹ پریزائڈنگ آفیسر کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہ ملزم کی کیسے معاونت کرے گا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس حوالے سے بڑے خواجہ صاحب کا بہت وسیع تجریہ تھا۔لطیف کھوسہ کے بار بار سیٹ پر کھڑے ہونے پر جسٹس امین الدین نے لطیف کھوسہ کو ٹوک دیا اور کہا کہ کھوسہ صاحب یہ کوئی طریقہ نہیں ہے آپ اپنی باری پر بات کیجئے گا۔اس دوران خواجہ حارث نے 9 مئی کے ملزمان میں سے ایک ملزم کے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ پیش کر دیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔آئینی بنچ کے ججز نے ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ دیکھ کر فائلیں واپس کر دیں، لیکن جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی نے ملٹری ٹرائل کی فائل رکھ لی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم ابھی ریکارڈ دیکھ رہے ہیں کچھ دیر بعد فائل واپس کردیںگے۔خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کہ کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں، کسی نے بھی آفیسر پر اعتراض نہیں کیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ تو اپیل میں دیکھا جانا ہے، ہمارے لیے اس ریکارڈ کا جائزہ لینا مناسب نہیں۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم ٹرائل پر متاثر نہیں ہوں گے۔آئینی بنچ کے 6 ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کردیا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریکارڈ دیکھنے کے بعد واپس کردیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل اتنا ہی اچھا ہے تو پھر سارے کیسز ان کو ہی بھجوا دیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹ میں عوامی سماعت ہوتی ہے پبلک ہیرنگ کا مکمل موقع دیا جاتا ہے، آزادانہ اور غیرجانبدرانہ ٹرائل ہوتا ہے، آرٹیکل 175 اے میں کہا گیا ہے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، ملٹری کورٹس بھی آزاد ہوتی ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمیں کسی پر شک نہیں کرنا چاہیے شرعی طور پر بھی شک کرنا درست نہیں، انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک نے اپنی ججمنٹ میں ایک پوائنٹ سے اختلاف کیا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تمام سیکشنز پی پی سی کے نیچے آتے ہیں، ریکارڈ کے مطابق گواہ کہہ رہا ہے کہ وہ چشم دید گواہ بھی نہیں۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 9 ملزمان میں سے سات چشم دید گواہ ہیں، آپ اتنی تفصیل سے ملٹری کورٹس کی دستاویزات دیکھ رہی ہیں کل کو اپیل آپ کے پاس آنی ہیں، آپ کو کیس کے میرٹ سے متعلق سوال نہیں پوچھنے چاہئیں یہ معاملہ ابھی آپ کے پاس آنا باقی ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے ذہن میں جو سوال بنتا ہے وہ میں کروں گی کسی کو اچھا لگے یا برا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والا جج تو اتھارٹیز کے ماتحت ہوتا ہے۔ خواجہ ھارث نے کہا کہ اگر کوئی شواہد ہیں تو بات کریں محض تاثر پر اعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نہ مجھے کسی پر کوئی شک ہے نہ اعتراض ہے، سوال یہ ہے کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والے کون ہیں اس لیے پوچھا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کی جانب سے پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا، میں بہت تفصیل میں نہیں گیا، 9 مئی واقعات میں بظاہر سکیورٹی آف سٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا، 9 مئی واقعات کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل بہت تفصیل سے چلایا گیا، کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ تمام ریکارڈ پبلک کردیا جائے تاکہ پبلک ان ملزمان کی مذمت کرسکے، 9 مئی واقعات کے ملزمان نے جو کارنامے سرانجام دیئے وہ عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو اتھارٹیز نے طے کرنا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 175 کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے؟خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 175 سے ہٹ کر ملٹری کورٹس قائم کی گئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین میں کہیں تو ہوگا جس کے مطابق ملٹری کورٹس قائم ہوتی ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ اگر عدالت اس طرف جائے گی تو اب تک ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جتنے بھی فیصلے دیئے گئے ان پر نظرثانی کرنا پڑے گی، آئین میں آئین و قانون کے تحت عدالتوں کے قیام کا ذکر ہے، بہت سارے ممالک میں ملٹری کورٹس قائم ہوئیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نارکوٹکس کا پورا کنٹرول فوج کے پاس ہے، نارکوٹکس میں جب کسی ملزم کا ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے، کیا یہاں بھی ملٹری کورٹس کیلئے ایسا کیا جاسکتا ہے؟خواجہ حارث نے کہا کہ تمام عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس کو آرٹیکل 175 سے الگ رکھا گیا ہے، آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کردی