اسلام آباد (ای پی آئی )سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل،جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل جاری ،سماعت آج تک ملتوی ۔
تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی، دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے۔ اس حوالے سے ملٹری ٹرائل کی 7 کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئی تھیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کل خبر چلی کہ 8 ججز کے فیصلے کو 2 ججز غلط کہہ دیتے ہیں، اس خبر پر بہت سے ریٹائرڈ ججز نے مجھ سے رابطہ کیا۔ مجھے میڈیا کی پرواہ نہیں لیکن درستگی ضروری ہے، میں نے یہ بات عام تاثر میں کی، میں یہ کہا تھا 8 ججز کے فیصلے کو 2 لوگ کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ غلط ہے، کل کی آبزرویشن میں ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا، میڈیا کے کچھ ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، اکسیویں ترمیم کے فیصلے میں واضح ہے کہ فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، سویلینز کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔ خواجہ حوارث نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں ترمیم فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو حملہ کرنے والوں کو ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے دو اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشت گرد مارے گئے تھے، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ یہ کون تھے کہاں سے اور کیسے آئے؟کیا دہشت گردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہو گئی؟وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ تحقیقات یقینی طور پر ہوئی ہوں گی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل اکسیویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ انہی تمام حملوں کی بنیاد پر ترمیم کی گئی تھی کہ ٹرائل میں مشکلات ہوتی ہیں، کامرہ بیس پر حملے کے ملزمان کا کیا ہوا؟ ان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس پر ہدایات لے کر آگاہ کروں گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کے ساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلقہ ہو، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لے کرجایا جا سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کسی کے حقوق متاثرنہ ہوں، جس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34 سال بعد کسی کورہائی دینا انصاف تو نہیں ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا 2002 سے لے کر ترمیم تک 16 ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے، ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرمان کا ٹرائل 21 ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مہران ایئربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی، فوجی امور میں مداخلت کی تعریف میں نہ آنے والے جرائم کے لیے ترمیم کی گئی تھی۔وزرات دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب میں دلائل کا حق رکھتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سکندر بشیر مہمند سے استفسار کیا کہ آپ بلوچستان حکومت کی وکالت کیسے کرسکتے ہیں؟ نجی وکیل ہی کرنے ہیں توایڈوکیٹ جنرل آفس کوبند کردیں، پہلے تو بلوچستان حکومت کواپنا حق دعوی ثابت کرنا ہوگا، صوبائی حکومت کا اس معاملے سے کیا لینا دینا ہے پہلے یہ بتانا ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم فیصلے کا پیراگراف 122 پڑھیں، فوجی تنصیبات پر حملوں کے جرائم کو چار سال کیلئے شامل کیا گیا، پہلے 2 سال کے لیے ملٹری کورٹس بنیں بعد میں 2 سال توسیع ہوئی، کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو بھی ترمیم کے تناظر میں بحال ہے۔آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم کو شامل کرنے کے لیے ترمیم ہوئی تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیکشن ٹو ون ڈی ٹو پر کسی عدالتی فیصلے میں بحث نہیں ہوئی، سیکشن ٹو ون ڈی ٹو مخصوص افراد کے لیے ہے جبکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق بلا تفریق ملک کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کیسے بلوچستان حکومت کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی رولز آف بزنس یا قانون بتا دیںَ، نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کرتا ہے، جس پر وکیل بلوچستان حکومت نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جس میں نجی وکیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چلیں اس مسئلے کوچھوڑیں اپنا حق دعوی ثابت کریں، جس پر سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ بلوچستان حکومت کومرکزی کیس میں فریق بنایا گیا تھا۔
بلوچستان حکومت اور پنجاب حکومتوں نے خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے اور وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے جبکہ شہدا فورم کے وکیل شمائل بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ شہدا فورم فریق نہیں تھی تو اپیل کیسے دائر کردی؟ جس پر شمائل بٹ نے بتایا کہ شہری کی درخواست پر دو قوانین کالعدم قرار دیے گئے، میں شہدا کے لواحقین کی نمائندگی کررہا ہوں۔شہدا فورم نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کردیا۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کہا گیا خصوصی عدالت سے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ کی گنجائش ہے، رٹ دائر کرنے کی گنجائش بنیادی حقوق صلب کرنے کاجوازنہیں بن سکتی، رٹ سننا یا نہ سننا ہائیکورٹ کی صوابدید پرہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا سول ملزم اور فورسزسے وابستہ ملزم میں فرق نہیں ہونا چاہیئے؟ ایک سویلین کو آئین بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، آئین سب سے سپریم لا ہے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ بالکل دونوں ملزمان میں واضح فرق ہونا چاہیئے، مسلح افواج میں جانے والے نے خود کو آرمی ایکٹ کے تابع کرنے کی رضامندی دی ہوتی ہے، ایک عام شہری کا معاملہ اس سے الگ ہوتا ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی جبکہ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔