اسلام آباد (ای پی آئی ) سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ، سلمان اکرم راجہ کے دلائل، تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سوویلینز کے ٹرائلز کیس کی سماعت کی دوران سماعت سلمان اکرم راجہ نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی علی کیس کا 1962 کے آئین کے مطابق فیصلہ ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں، کیا کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ایف بی علی کیس میں بھی کہا گیا ہے کہ سویلنز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا۔سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے، عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، ایف بی علی کیس میں آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی ون پر بات ہوئی، ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لایا گیا آرمی ایکٹ درست ہے، یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی حقوق کے تحت نظرثانی کی جاسکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایف بی علی کیس میں نیکسز کی کیا تعریف کی گئی۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ آرمڈ فورسز کو اکسانا اور جرم کا تعلق ڈیفنس آف پاکستان سے متعلق ہونے کو نیکسز کہا گیا، یہاں ایف بی علی کیس کو ایسے پڑھا گیا جس سے الگ عدالت قائم کرنے کی اجازت دینے کا تاثر قائم ہوا۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ مرکزی فیصلے کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ بولے کہ جسٹس عائشہ ملک کا بھی فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا۔سلمان اکرم راجہ نے دلائل پیش کیے کہ اپیل ڈگری کے خلاف دائر کی جاتی ہے، وجوہات کے خلاف اپیل دائر نہیں ہوتی، عدالت آپریٹو پارٹ برقرار رکھتے ہوئے وجوہات تبدیل کرسکتی ہے، عدالت ایسا آئے روز کرتی رہتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 1968 میں آرڈیننس آیا جس کے تحت بلوچستان تحصیلدار کو عدالت کے اختیارات دیے گئے، عزیز اللہ میمن کیس میں معاملہ چیلنج ہوا تو عدالت عظمیٰ نے اسے ختم کیا، 1973 کے آئین کے بعد بھی 14 سال تک سلسلہ چلتا رہا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 1987 میں جب آرٹیکل 175کی شق 3 آئی تو قانون بدل گیا، اگر عدالت جسٹس عائشہ ملک کا آرٹیکل 10 اے کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو ہماری جیت ہے، اگر یہ کہا جاتا ہے کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 سے باہر عدالت قائم نہیں ہوسکتی تب بھی ہماری جیت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عجیب بات ہے کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی کو ضیاالحق نے ملٹری عدالت سے سزا دی، پھر وہی ضیاالحق جب آرمی چیف بنے تو ایف بی علی کی سزا ختم کردی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے ضیاالحق نے بعد سوچا ہو کہ پہلے وہ غلط تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ضیاالحق نے بعد میں ایف بی علی سے معافی مانگی ہو۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا 1962 کا آئین درست تھا۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 1962 کا آئین تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے، ’میں فیلڈ مارشل ایوب خان خود کو اختیارات سونپ رہا ہوں‘، اس دور میں آرٹیکل چھپوائے گئے، فتوے دیے گئے کہ اسلام میں بنیادی حقوق نہیں ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فتوے دینے والے وہیں رہتے ہیں، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسی لیے ایوب خان کے دور میں حبیب جالب نے نظم لکھی ’میں نہیں مانتا، ایسے دستور کو‘، ایف بی علی بعد میں کینیڈا شفٹ ہوئے جہاں وہ کینیڈین آرمی کے ممبر بن گئے۔سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ 1977-80 کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل لا کے تحت سزا پانے والوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں، ہر 8 سے 10 سال بعد عدلیہ کو تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کی رجسڑیشن کے خلاف ایک قانون لایا گیا تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بینادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک فیصلے کے خلاف اپیل سن رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل بھی بولے کہ کیا اس اپیل میں ہم 187 کے اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار تو عدالت کے پاس ہمیشہ رہتا ہے۔جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ شروع میں آپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض کیا تھا، شکر ہے اب بڑھا دیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے، جس پر میں نے بہت ریسرچ کی ایسی کوئی سیکشن دنیا میں نہیں، ہمارا آئین کا آرٹیکل 175 (3) آزاد ٹرائل کو یقینی بناتا ہے، بھارت میں ہمارے آئین کے آرٹیکل 175 (3) جیسی کوئی چیز شامل نہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بھارت میں اس کے باوجود محض اصول کی بنیاد پر عدالتوں نے ٹرائل کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے، ہمارا تو آرٹیکل 175 (3) آزاد ٹرائل کا مکمل مینڈیٹ دیتا ہے، آزاد ٹرائل کسی آزاد ٹریبونل میں ہی ممکن ہے، فوجی عدالتوں میں نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب سویلین آرمڈ پرسنل کو اکسانے کی کوشش کرے، کیا آرٹیکل 10 اے صرف سویلین کی حد تک ہے یا اس کا اطلاق ملٹری پرسنل پر بھی ہوتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں، باقی سوالات کسی اور کیس میں آئیں گے تو دیکھ لیں گے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 کا فائدہ سویلین اور آرمڈ فورسز دونوں کو دینا ہوگا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بعض اوقات ملک دشمن ایجنسیاں سویلین کو استعمال کرتی ہیں، آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، ایسے میں تو ملک دشمن ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والوں کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں بھارتی آرمی ایکٹ اور پاکستان کے آرمی ایکٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں، ایسا نہیں ہوسکتا ایک ایس ایچ او خود عدالت لگا لے، اپیل ایس پی سنے اور توثیق آئی جی کرے، بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیل ٹربیونل میں جاتی ہے، ٹربیونل اپیل میں ضمانت بھی دے سکتا ہے، شفاف ٹرائل کا حق ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا بھارت کے آرمی ایکٹ میں ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ یہ شقیں بھارت میں نہیں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ شقیں ہی نہیں ہیں تو آپ تقابلی جائزہ کیسے لے سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ہمارا قانون الگ ہے، بھارت کا قانون الگ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سویلین اور ملٹری پرسنلز دونوں پاکستان کے شہری ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے آرمی ایکٹ میں سویلین سے متعلق دفعات دہشتگردوں کیلئے ہیں، دراصل یہ دفعات حکومت اپنے مخالفین پر لگا رہی ہے، مجھ پر بھی ایف آئی آر ہے کہ 26 نومبر کو تین رینجرز اہلکاروں کو قتل کیا، مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے ہی قتل کا منصوبہ بنایا تھا، مجھے کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں میں اور ٹی وی پر بولنا بند کر دو، مجھے کہا جا رہا ہے تمہیں رینجرز اہلکاروں کے قتل پر خصوصی کورٹس لے جائیں گے، ہو سکتا ہے مجھے سات فروری کو اسی کیس میں گرفتار کر لیا جائے، عدالت ان دفعات کو بحال کرتی ہے تو ان کا ایسا ہی استعمال ہوگا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔