اسلام آباد (ای پی آئی )سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت ، بانی پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری کے دلائل مکمل،سماعت آج تک ملتوی ،تفصیل کے مطابق سریم کورٹ میںجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 1962 کے آئین میں ایوب خان کا دور تھا اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟ عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق اوریجنلی دستیاب نہیں تھے۔ سویلینز کی حد تک کریمنل دفعات پہ ٹرائل عام عدالت ہی کر سکتی ہے۔ آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھی جو آرمڈ فورسز کے حوالے سے تھیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ یہاں تعلق سے کیا مراد ہے؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ خود کو سبجیکٹ کر سکتا ہے یا نہیں، کس قانون کے تحت کیا جا سکتا ہے وہ متعلقہ ہے یا نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ ٹو ون ڈی میں سویلینز کا تعلق کیسے بنایا گیا ہے؟

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ٹو ون ڈی کے حوالے سے ایف بی علی میں کچھ نہیں کہا گیا، ٹرائل دفعات پر نہیں اسٹیٹس پر ہوگا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ محرم علی کیس اور راولپنڈی بار میں دہشتگردی کی دفعات تھیں۔ فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا ان کی سیکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہوگی؟جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ان سے تحقیقات پولیس افسر کرے گا؟ جہاں ملٹری کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 103 ایسے ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے، میڈیا پر ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں۔

مختصر وقفے کے بعد عزیر بھنڈاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فوجی کے حلف میں لکھا ہوتا ہے افسر کا حکم زندگی سے زیادہ ضروری ہے۔ جسٹس حسن رضوی نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں فوج دوران جنگ ہی جواب دے سکتی ہے گھر پر حملے کا نہیں۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہے کہ فوج ہی سب کچھ کرسکتی ہے۔وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوا تو دفاع کیوں نہیں کیا گیا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ ایک بات کر رہے ہیں آپ کے مؤکل دوسری بات کرتے ہیں، آپ کا مؤکل کہتا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں ان سے بات کروں گا۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کمرہ عدالت سے جو باہر ہے اس پر بات نہیں کروں گا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ سیاست کی بات نہیں حقیقت کی بات ہے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف بھی علی کیس میں اعتزاز احسن نے آپ کو بتایا کہ ٹرائل کیسے ہوتا تھا، آج بھی بانی پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ہورہا ہے، فئیر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا۔جس پر جسٹس امین الدین خان کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آج کل تو خطوط کا تنازع بھی چل رہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دیں۔وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کورٹ مارشل میں تو موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، نہ جج کی کوئی معیاد، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ ہوتی ہے، سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے، ہائیکورٹ میں رٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر وہ محدود ہوتا ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اب معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جرم کی نوعیت پر نہیں ملزم کے اسٹیٹس کو مد نظر رکھ کر فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا۔ ملزم کا اسٹیٹس دیکھنا ہوگا کہ وہ آرمڈ فورسز سے تعلق رکھتا ہے یا سویلین ہے۔ امریکی عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں ملزم کے اسٹیٹس کو دیکھ کر ٹرائل پر فیصلہ دیا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مگر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے مطابق تو گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے، گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ٹرائل کا مطلب ملزم کا اسٹیٹس نہیں جرم دیکھ کر ٹرائل ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ فوج اپنے لوگوں تک تو یہ اختیار استعمال کرسکتی ہے مگر سویلین کی حد تک نہیں، لیکن اگر فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی تو کسی کے لیے بھی نہیں کرسکتی۔عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 کے تحت آرمڈ فورسز کے لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں، جسٹس منیب اختر نے تفصیلی فیصلے میں یہی بات کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آرمڈ فورسز میں لوگ آئین کے آرٹیکل 8(3) کے تحت آتے ہیں تو انہیں آرٹیکل 10 اے بھی حاصل نہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کا ٹرائل پھر چاہے جہاں مرضی ہو؟

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سلمان اکرم راجا نے دلائل میں بھارت کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے۔ بھارت میں اپیل کا حق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں؟ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے۔ کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا۔ اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق ایک فیصلے میں تجویز دی۔ میری تجویز پر ہائیکورٹ کے ججز کی کمیٹی بنی اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے انٹرویو شروع ہوئے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے لیے قانون سازی کی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، ایک کے بعد دوسرا نوٹیفکیشن آرہا تھا، یہ تو ہماری حالت تھی۔دوران سماعت وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یورپی یونین نے ہمیں جی ایس پی پلس کا درجہ دیا، یورپی یونین کی یہ رعایت بین الاقوامی کنونشن پر عمل داری سے مشروط ہے، ہمارے جی ایس پی پلس کو خطرہ لاحق ہے، یورپی یونین سویلین کے ملٹری ٹرائل کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی۔جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بنیادی حقوق آئینی تقاضا ہے کسی بین الاقوامی فائدے سے مشروط نہیں۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے، یہ سپریم کورٹ کا کام نہیں۔

اس موقع پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری کے دلائل مکمل کرلئے اور سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، فیصل صدیقی کل دلائل شروع کریں گے۔