اسلام آباد (ای پی آئی )سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلزکالعدم قرار دینے سے متعلق نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی ، تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی،

دوران سماعتاٹارنی جزل منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پتا چلا کہ عدالت نے مجھے طلب کیا تھا، جب کورٹ مارشل ٹرائل ہوتا ہے ہے تو اس کا پورا طریقہ کار ہے، ملٹری ٹرائل کیسے ہوتا ہے یہ پورا ریکارڈ عدالت کے پاس ہے، اگر کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تب تک اس پر عمل نہیں ہوتا جب تک اپیل پر فیصلہ نہ ہو جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اپیل کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ کیونکہ یہ بنیادی حق ہے، اٹارنی جزل کا کہنا تھا کہ خواجہ صاحب دلائل مکمل کریں تو میں مزید بات کروں گا، کلبھوشن کیس میں ایک مسلئہ اور تھا،سیکشن تھری میں فئیر ٹرائل اور وکیل کا حق ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین میں بنیادی حقوق دستیاب ہیں، ہمارے سامنے اس وقت وہ مسئلہ ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب فل کورٹ میں یہ معاملہ آیا تھا تو وہ بھی 18ویں ترمیم کے بعد آیا تھا، جب فل کورٹ میں یہ معاملہ تھا تو عدالت نے ہی تین آپشنز دئیے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وہ تین آپشنز موجود ہیں اپیل کا حق ہے یا نہیں یہ بتائیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس وقت ہمارا فوکس اپیل پر نہیں تھا، اگر کسی کو فئیر ٹرائل کا حق دیتے ہیں اس میں مسئلہ کیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کوئی جج چھٹی پر چلا جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے کہ ٹرائل لیٹ ہو رہا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ادارہ خود شکایت کنندہ ہے وہ کیسے کیس سن سکتا ہے، کیا وفاق اور صوبوں کو اپنے ادارے پر اعتماد نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ جوڈیشل سسٹم کا حصہ آپ بھی ہیں میں بھی ہوں، ہم نے مل کر اس سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے، خواجہ صاحب دلائل مکمل کریں تو میں میں کوشش کروں گا جتنی جلدی مکمل کر لوں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر خواجہ صاحب کے دلائل آج مکمل ہو گئے تو آپ کو کل سن لیں گے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ خواجہ صاحب تو کل کی بھی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔