اسلام آباد(ای پی آئی) لاہور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں لائے گئے جج جسٹس علی باقر نجفی حلف اٹھاتے ہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کیساتھ تین رکنی بینچ میں بیٹھ کر مقدمات کی سماعت کی اس دوران ریمارکس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا کہ ہم خاندانی کیسز میں حقائق کاتعین نہیں کرتے اور ماتحت عدالتوں کی جانب سے دیئے گئے عبوری حکم میں مداخلت نہیں کرتے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس محمد شفیع صدیقی اور سپریم کورٹ میں بدھ کے روز ہی حلف اٹھانے والے جج جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل 3رکنی بینچ فائنل کاز لسٹ میں شامل 8کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے نعمان خان کی جانب سے شادی ختم کرنے اور طلائی زیورات کی واپسی کے معاملہ پر مہوش طارق اوردیگر کے خلا ف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد سعید شیخ جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے طارق مسعود بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست آپ کودائر کرنی چاہیئے تھی جبکہ درخواست مخالف فریق نے دائر کی۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ شادی کب ہوئی تھی۔ اس پر وکیل مدعا علیہ کاکہنا تھا کہ نکاح10جنوری2016کو ہوا اور رخصتی 2020میں ہوئی، خاوند کے کہنے پر مہوش طارق براہ راست کینیڈا گئی، خاتون کو اس کے والدین کی جانب سے 190گرام سونا دیا تھا جو کہ خاوند نے واپس نہیں کیا، عدالت نے سوناواپس کرنے کاحکم دیاہے۔
جسٹس محمد شفیع صدیقی کاکہنا تھا کہ خاتون کینیڈا گئی توساتھ لے جائے والے سامان میں زیوارات ظاہرکرنا ہوتے ہیں۔ مہوش طارق کے وکیل کاکہنا تھا کہ ایکس پارٹی فیصلہ ہوا، خاوند عدالت ہی نہیں آیا۔ چیف جسٹس کاویڈیولنک پر موجود درخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم کیوں مداخلت کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ توریکارڈ پر مواد لائے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ نے سونے کے زیورات خریدنے اور کینیڈالے جانے کے ثبوت لگائے ہیں اور بیان حلفی بھی لگایا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے ایکس پارٹی حکم کوچیلنج نہیں کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم فیملی کیسز میں حقائق کا تعین نہیں کرتے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔
تین رکنی بینچ نے ملک محمد عثمان امجد اوردیگر کی جانب سے کنٹومنٹ بورڈ واہ اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے شیخ مھمد فاضل صدیقی بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد شفیع صدیقی کاکہنا تھا کہ درخواست گزار رہائشی جگہ کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں، تین عدالتوں نے درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دیا ہے، کنٹونمنٹ بورڈ سے اجازت لیناضروری ہے۔
وکیل کاکہنا تھا کہ جب پیسے لگائے جاتے ہیں توبعد میں کہہ دیا جاتا ہے کہ کمرشل جگہ ہے۔ اس پر جسٹس محمد شفیع صدیقی کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پیسے کسی سے پوچھ کرنہیں بلکہ اپنی مرضی سے لگائے ہیں۔
چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ہم ماتحت عدالتوں کی جانب سے دیئے گئے عبوری حکم میں مداخلت نہیں کرتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ میرٹ پر فیصلہ کردے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ چار ماہ میں کیس کا فیصلہ کرے۔
درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ بچوں کے پیپرہورہے ہیں، سات، آٹھ ماہ کاوقت دے دیا جائے۔ بینچ نے وکیل کی استدعامسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو چار ماہ میں کیس کافیصلہ کرنے کاحکم دے دیا۔