کراچی (ای پی آئی )سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ،عدالت نے کورنگی سے لاپتہ ہونے والے شہری عمران اور ظہیر کی واپسی پر پولیس کی رپورٹ کی بنیاد پر درخواست نمٹا دی، عدالت کی جانب سے دیگر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر شدید برہمی کا اظہار۔
سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ شہری فضل احمد کے بھائی کے مطابق وہ افغانستان چلا گیا ہے۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے استفسار کیا کہ بیان کہاں ہے؟ اور نشاندہی کی کہ بیان میں صرف بچوں کے افغانستان میں ہونے کا ذکر ہے، شہری کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔
عدالت نے تفتیشی افسر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”آپ نے عدالت کا وقت کیوں ضائع کیا؟ آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟“ افسر نے جواب دیا کہ اس نے کراچی یونیورسٹی سے بی کام کیا ہے، جس پر عدالت نے کہا ”کونسی زبان میں کیا ہے؟ آپ کو اردو پڑھنی نہیں آتی؟“
عدالت نے بیان پر دستخط نہ ہونے پر بھی سوال اٹھایا اور ریمارکس دیے کہ ”اس بیان کی نہ کوئی قانونی، نہ شرعی اور نہ اخلاقی حیثیت ہے سب جانتے ہیں لکھتا کون ہے اور دستخط کون کرتا ہے۔“معروف وکیل حبیب احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ بیان ریکارڈ کرنے والے کے دستخط ہونے چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ کس کے سامنے دیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل حکم شیخ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کے کیسز کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جائیں گے۔عدالت نے لاپتہ شہری فضل احمد کے کیس میں پیش رفت رپورٹ، جبکہ شہری فواد کا سی ڈی آر جمع نہ کروانے پر ایس ایس پی سینٹرل کو رپورٹ سمیت طلب کرلیا۔
مزید برآں عدالت نے لاپتہ دو بھائیوں اقبال اور حسن، اور شہری مصور شاہ کے کیسز پر بھی رپورٹ طلب کی۔ سماعت کے دوران مصور شاہ کی والدہ عدالت میں روپڑیں اور الزام لگایا کہ انہیں اے ایس آئی محمد خان اور توفیق نے درخواست دینے پر دھمکیاں دیں۔
عدالت نے والدہ کو ہدایت کی کہ متعلقہ اہلکاروں کے خلاف تحریری شکایت دیں اور تمام درخواستوں پر سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔