اسلام آبا د(ای پی آئی ) پاکستان میں ایک جانب پیکاایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف مواد شیئر کرنے کے الزام میں مقدمات کا اندراج جاری ہےتودوسری جانب گذشتہ دو ہفتوں کے دوران صدیق جان، عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم، صابر شاکر، اسد طور سمیت درجنوں یوٹیوبرزاور انکے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں ،بچوں،خواتین کے اکاؤنٹ منجمد کردیئے گئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور پولیس نے دو روزقبل 24 گھنٹے کے دوران ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج کئے۔ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سید ذیشان رضا کا کہنا تھا کہ قومی اداروں کے خلاف قابل اعتراض اور نازیبا مواد کی تشہیر میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

جرمن ادارے کی رپورٹ کے مطابق ریاستی ادارے کسی صحافی کو براہ راست ہدف بنانے کے بجائے، ان کے رشتہ داروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مثلاصحافی مطیع اللہ جان کے کیس میں ان کی بیوہ بہن کے پینشن اکاؤنٹ کو بھی منجمد کر دیا گیا۔ ان صحافیوں کا الزام ہے کہ ریاست انہیں ان کے خیالات کے ریاستی پالیسیوں کے حق میں یا ان سے ہم آہنگ نہ ہونے کی سزا کے طور پر ایسے غیر قانونی طریقے استعمال کر رہی ہے۔

مطیع اللہ جان نے غیر ملکی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست انہیں سزا دینا چاہتی ہے، تو پھر ان کے رشتہ داروں کو سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست ہر طرح کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تاکہ انہیں صحافت کو بطور پیشہ چھوڑ دینے یا ریاستی پالیسیوں سے متعلق اپنے خیالات تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا موجودہ دورحکومت صحافی برادری کے لیے بدترین دور ہے۔ اس سے پہلے احمد نورانی کے بھائیوں کو بلاوجہ نشانہ بنایا گیا۔ اب صحافیوں کے رشتہ دار بھی ان جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں، جو انہوں نے کیے ہی نہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک گاؤں میں رہنے والی بہن کے پینشن اکاؤنٹ کو منجمد کر دیا گیا اور اس اقدام کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جا رہی۔

صحافی عمران ریاض خان نے بتایا کہ نہ صرف ان کے ذاتی بینک اکاؤنٹ فریز کر دیے گئے ہیں بلکہ کچھ ایسے افراد کے اکاؤنٹ بھی مبینہ طور پر بلاک کر دیے گئے ہیں، جنہیں ان کا خاندان خیراتی رقوم‘ بھیجا کرتا تھا اور اب ایسے لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

عمران ریاض خان نے کہا،میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس خیراتی کام کو ظاہر کیا جائے۔ لیکن اب یہ بتانا ضروری ہو گیا ہے کہ ریاست کس حد تک انتقامی مزاج کی حامل ہو چکی ہے کہ وہ صحافیوں کے اختلافی نظریات کی وجہ سے نہ صرف انہیں بلکہ ان ضرورت مند انسانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے، جن کی ہم مدد کر رہے تھے۔

ایک اور پاکستانی صحافی کے معاملے میں حکام نے ان کے پورے خاندان کو نشانہ بنایا اور نابالغ بچوں تک کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے۔ صحافی اسد طور نے بتایا کہ ان کا ذاتی بینک اکاؤنٹ، ان کے والدین، دو بھائیوں، ایک کزن، ان کی اہلیہ اور ان کے دو نابالغ بچوں تک کے اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے ہیں۔

اسد طور کے مطابق انہوںنے صرف اپنے کزن کو کچھ پیسے ادھار دیئے تھے۔ اب اس کا پورا
خاندان متاثر ہو رہا ہے۔اس طور کے مطابق ان کےاکاؤنٹ میں یا اس سے رقوم کی منتقلی مکمل طورپر قانونی ہے۔ یہ رقوم گوگل ایڈسینس سے یوٹیوب کے ذریعے ہونے والی کمائی کے طور پر مجھے منتقل ہوتی ہیں۔ میرے بینک اکاؤنٹ میں کچھ بھی خفیہ نہیں۔ لیکن حکام جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جا رہی۔ یہاں تک کہ میرے کزن کے دو نابالغ بچوں کے سیونگ اکاؤنٹ بھی بند کر دیئےگئے۔

متاثرہ پاکستانی صحافیوں کے مطابق متعلقہ بینکوں نے بظاہر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی ہدایت پر ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے اکاؤنٹ منجمد کیے ہیں، لیکن دراصل پس پردہ ڈوریاں کوئی اور طاقت ہلا رہی ہے۔
صحافی صدیق جان کے بینک اکاؤنٹ بھی بلاک کر دیئے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں اس کارروائی کے پیچھے مبینہ طور پر ملکی خفیہ ایجنسیاں ہیں اور ایف آئی اے یہ اقدامات اپنے طور پر نہیں کر رہی۔

انہوں نے کہاکہ یہ اقدام مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ ہماری آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ لیکن ایسے اقدامات کا اثر ہمیشہ الٹا ہوتا ہے اور ریاست کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔

ان صحافیوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ ریاست اب صحافی برادری کو کھلم کھلا نشانہ اس لیے بنا رہی ہے کہ وہ مبینہ طور پر ملکی عدالتی نظام پر بھی اثر انداز ہو چکی ہے۔ ان صحافیوں کے بقول ریاست کو یقین ہو گیا ہے کہ متاثرین کوانصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ اب کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

عمران ریاض خان کے مطابق انہوں نے عدلیہ کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔ اب عدلیہ سے انصاف ملنے کی امید بہت کم رہ گئی ہے۔ اسی لیے ریاست کھلے عام اس طرح کے غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ لیکن وہ اپنے یہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی۔

پاکستانی صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات مکمل طور پر غیر قانونی ہیں اور صحافیوں، ان کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کا ہراساں کیا جانا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر طارق ورک نے کہاکہ ہم ان اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں اغوا کیا جا رہا ہے۔ ان کے خاندانوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک صحافی ارشد ملک کو بھی ملتان سے اغوا کر لیا گیا۔ ریاست صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر کے انہیں گھٹنوں پر لانا چاہتی ہے اور یہ سب قابل مذمت حربے ہیں۔

طارق ورک نے تاہم یہ اعتراف بھی کیا کہ بعض اوقات صحافی بھی اپنی حدود سے تجاوز کر کے پراپیگنڈا کا حصہ بن جاتے ہیں، لیکن ایسی صورت میںریاست کو ان کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرناچاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر قانونی راستے سے مراد موجودہ پیکا قانون ہے، تو وہ اس لیے ناقابل قبول ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کے بقول پیکا قانون میں جھوٹی خبر کی تعریف مبہم ہے اور اس قانون میں ترمیم ناگزیر ہے۔