پنجاب حکومت نے صوبے کے اسپیشلائزڈ میڈیکل اور ڈیٹل کالجوں و طبی اداروں کو عمل خود مختیاری دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس ضمن میں قانون کے ایک مسودے کو حتنی شکل دیدی ہے ۔مجوزہ پنجاب اسپیشلائزڈ میڈیکل انسٹی ٹیوشنز ایکٹ 2025کے تحت صوبے کی تمام سرکاری اسپیشلائزڈ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز اور ان سے منسلک تدریسی اسپتالوں کو خودمختار بورڈ آف گورنرز کے تحت چلایا جائے گا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سرکاری اسپیشلائزڈ طبی ادارے ایک خودمختار کارپوریٹ حیثیت میں کام کریں گے اور مالی، انتظامی، تعلیمی اور عملی خودمختاری کے ساتھ اپنی کارروائیاں انجام دیں گے،اور توقع کی جاتی ہے کہ اس مجوزہ قانون سے صوبے میں صحت کی خدمات، طبی تعلیم اور انتظامی شفافیت کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔ اس مجوزہ قانون کا مقصد مریضوں کو معیاری طبی سہولیات کی فراہمی، اسپتالوں کی کارکردگی میں بہتری، طبی تحقیق کے فروغ، اور جوابدہی کے مضبوط نظام کا قیام ہے۔
اس قانون کے تحت ہر اسپیشلائزڈ میڈیکل انسٹی ٹیوشن کو ایک بااختیاربورڈ آف گورنرز چلائے گا، جس میں سرکاری افسران کے ساتھ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات، مالیاتی ماہرین، طبی تعلیم کے ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندگان شامل ہوں گے۔ بورڈ کا چیئرمین حکومت کی نامزد کردہ نجی شخصیت ہوگی، جبکہ بورڈ ادارے کے تمام اہم فیصلے، پالیسی سازی، بھرتیاں، بجٹ، انفراسٹرکچر اور تعلیمی معیار سے متعلق معاملات میں مکمل اختیار رکھے گا۔
مجوزہ قانون کے مطابق ادارے کا سربراہ ڈین ہوگا، جو ادارے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کے طور پر فرائض انجام دے گا۔ ڈین کی تقرری چار سال کے لیے بورڈ کرے گا، اور وہ کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ تقرری کے اہل ہوں گے۔ ڈین کے ساتھ اسپتال کے تین کلیدی ڈائریکٹرز ہوں گے،اسپتال ڈائریکٹر (غیر طبی امور کا انچارج)، میڈیکل ڈائریکٹر (تمام کلینیکل معاملات کا نگران)، نرسنگ ڈائریکٹر (نرسنگ خدمات اور تربیت کا سربراہ) اور فنانس ڈائریکٹر (مالی نظم و ضبط اور بجٹ کی نگرانی)۔
مجوزہ قانون کے تحت ادارے کی ملازمتیں بورڈ کے تحت ہوں گی اور ان پر سول سروس رولز لاگو نہیں ہوں گے۔ بورڈ ملازمین کی بھرتی، تبادلے، ترقی اور انضباطی کارروائی کے مکمل اختیارات رکھے گا۔ صرف کنسلٹنٹس اور کلینیکل ڈپارٹمنٹ کے سربراہوں کو ادارہ جاتی بنیاد پر نجی پریکٹس کی اجازت ہوگی، جو حکومتی پالیسی کے مطابق ہوگی۔
قانونی مسودے میں اس امر کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ ہر مریض کو بلا امتیاز یکساں طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی، جبکہ ریکارڈز کی درست اور شفاف رکھوالی لازمی قرار دی گئی ہے۔ بورڈز کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ داخلی اور بیرونی آڈٹ کروائیں، اور وزیراعلیٰ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی وقت تھرڈ پارٹی اسپیشل آڈٹ کا حکم دے سکیں۔
حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی انتظامی رکاوٹ یا عملی دشواری کو دور کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرے اور چیئرمین بورڈ کو اضافی اختیارات تفویض کرے۔ حکومت اور بورڈ دونوں کو قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہوگا تاکہ قانون کے اغراض و مقاصد مؤثر طریقے سے حاصل کیے جا سکیں۔ ذرائع کے مطابق کابینہ سے مجوزہ قانون منظور ہونے کے بعد بل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ۔