اسلام آباد (ای پی آئی )سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی کیس کی سماعت ۔ وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کل دلائل دیں گے ۔

تفصیل کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعویٰ کیا؟ انہوں نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟

جسٹس مسرت کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہو سکتے ہیں، لیکن جو پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہو سکتے ہیں؟جس پر وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ایس آئی سی کے مطابق آزاد امیدواران ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ لیا تھا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، جبکہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی بنا سکتی تھی، لیکن مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آزاد اراکین نے جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہونا تھا۔وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا، جبکہ ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل نوٹس نہیں دیا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 185/3 میں آئی تھی، اور عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن تھا۔

مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ نوٹیفکیشن سے اگر کوئی متاثرہ ہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 225 کا ذکر تک نہیں ہے، حالانکہ آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ یہ معاملہ مخصوص نشستوں کا ہے، اور مخصوص سیٹیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، اور کاغذات نامزدگی پر غلطی کی صورت میں معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ کی دلیل مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا، اور عدالت کی ذمہ داری ہے کہ اس غلطی کو درست کیا جائے۔جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھیں کہ فیصلہ درست ہے اور نظرثانی درست ہے تو ایسی صورت میں کیا ہوگا؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں نظرثانی مسترد ہو جائے گی۔جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی؟ اور کیا جو جماعت فریق نہ ہو، اسے نشستیں دی جا سکتی ہیں؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو، اسے نشستیں نہیں مل سکتیں۔ وکیل مخدوم علی خان کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس کیس میں فریق نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اُس وقت الیکشن کمیشن کے کردار کو ہم نے دیکھنا تھا۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے، اصل میں الیکشن کمیشن کا کردار دیکھنا تھا۔عدالت نے مشاہدہ کیا کہ 39 لوگوں کو پی ٹی آئی کا ڈکلیئر کر کے نشستیں دینے کا کہا گیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا۔ عدالت نے بتایا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ اور پارٹی وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا، تاہم جسٹس مندوخیل نے وضاحت دی کہ یہ ریکارڈ عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کیا گیا جبکہ 41 لوگوں کو وقت دیا گیا کہ وہ 15 روز میں کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں۔وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 187 کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مکمل انصاف آئین کی ایک شق ہے جس میں سپریم کورٹ کسی تنازع پر مکمل انصاف کرتی ہے، لیکن مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرکے تیسرے فریق کو، جو عدالت کے سامنے نہ ہو، ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کل کو یہ عدالت مالک مکان اور کرایہ دار کے تنازع پر مکمل انصاف کرکے تیسرے فریق کو ریلیف دے گی؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ سپریم کورٹ ہے، سول کورٹ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرایہ دار اور مالک مکان کا تنازع ذاتی نوعیت کا ہے، جبکہ یہاں عوام کے حق رائے دہی کا معاملہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل اختیار اہم معاملہ ہے اور احتیاط سے استعمال کیا جائے، نیز مکمل انصاف کا اختیار مجوزہ طریقہ کار کو ختم کر سکتا ہے۔سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسران نے فارم 33 درست طریقے سے نہیں بنائے، اور آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ یہ عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے دائرہ اختیار میں تھی اور سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہ اختیار 184/3 کے تحت نہیں سنا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی اور اس کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی، پھر نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید ریمارکس دیے کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی، سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی، امیدوار لڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی نشان عوام کی آگاہی کے لیے ہوتا ہے اور اس کے نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، اور اگر سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں مکمل انصاف کے ساتھ نظریہ آئینی وفاداری بھی استعمال کیا گیا، لیکن آئین سے وفاداری کے نظریے کی بات جذباتی لگتی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پشاور ہائیکورٹ یا الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج کیے؟ اور خود ہی جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج نہیں کیے تھے۔انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا، اس لیے نظرثانی درخواستیں منظور کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نظرثانی کیس میں عدالت اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا میں مخصوص نشستوں کے کیس کا اپنا فیصلہ بدل سکتا ہوں؟ جس پر وکیل نے کہا، ’بالکل آپ اپنی رائے بدل سکتے ہیں‘۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا، ’پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے‘۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا، ’زبان ایک ہوتی ہے مگر رائے تو بدل سکتے ہیں‘۔وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے تحریری دلائل جمع کرا چکے ہیں، مسلم لیگ ن کے وکیل نے بھی یہی موقف اپنایا جبکہ پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ وہ کل تحریری دلائل جمع کرا دیں گے۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ تحریری جوابات جمع کرا کے دوسرے فریقین جواب الجواب کا حق ختم کر چکے ہیں۔ تاہم وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم جواب الجواب دیں گے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ جواب الجواب کا حق دینا ہے یا نہیں۔ عدالت نے بتایا کہ کل سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے۔ کیس کی سماعت کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔