کراچی(ای پیآئی) کراچی میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو ہوئے 13 سال گزر گئے …
بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائز نامی فیکٹری میں گیارہ ستمبر 2012 کو آتشزدگی کے واقعے میں 264 افراد زندہ جل کر ہلاک ہوئے تھے جب کہ 50 زخمیوں کا اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔، جھلس جانے کی وجہ سے کئی لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی تھی، بالآخر ہائی کورٹ کے حکم پر 17 میتوں کی اجتماعی تدفین کردی گئی۔
فیکٹری میں لگنے والی آگ کے بھیانک واقعے پر تحقیقات کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تقریباََ ڈھائی سال بعد 2015 میں قائم کی گئی تھی۔اس ٹیم نے 43 سیشنز کیے، 6 بار جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور 39 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر کے حتمی رپورٹ تیار کی۔
اس رپورٹ میں کیمیکل ایگزمینر کی رپورٹس، کرائم سین انسپیکشن رپورٹ، الیکٹرک انسپکٹر، چیف فائر آفیسر، ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ، ویڈیو فرانزک رپورٹ اور دیگر رپورٹس اور تجزیات کا بھی احاطہ کیا گیا تھا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت نے بلدیہ فیکٹری میں آتش زنی کے مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سیکٹر انچارج رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو 264 بار سزائے موت سنائی ہے۔ چار ملزمان کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جب کہ سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی سمیت چار ملزمان کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں آگ لگانے کی وجہ بھتہ
اس واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے قائم جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آگ لگنے کی اصل وجہ حادثہ نہیں بلکہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینا تھی جس پر فیکٹری کو جان بوجھ کر آگ لگائی گئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ غیر قانونی اسلحہ کیس میں گرفتار ایک ملزم رضوان قریشی نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما حماد صدیقی نے فیکٹری کے مالکان سے 20 کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فیکٹری مالکان کے انکار پر ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج رحمٰن عرف بھولا نے 11 ستمبر 2012 کو آگ لگانے والا کیمیکل پھینکا جس سے وہاں آگ لگی۔ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ فیکٹری میں ہونے والا سانحہ آتش زنی کا واقعہ تھا۔ جب کہ شواہد بتاتے ہیں کہ الیکٹرک شارٹ سرکٹ کے کوئی آثار نہیں ملے۔
کمپنی میں کام کرنے والے ایک گواہ نے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا کہ اس نے زبیر عرف چریا نامی شخص کو اپنے پانچ ساتھیوں سمیت کوئی ایسی چیز پھینکتے ہوئے دیکھا جس سے اگلے 5 سے 10 سیکنڈ میں گودام میں آگ بھڑک اٹھی۔ جب کہ زبیر نے کینٹین کی جانب جانے والے دروازے لاک کر دیے اور وہ آگ بجھانے والوں کو بھی اوپر جہاں لوگ کام کر رہے تھے، جانے سے روک رہا تھا۔ جے آئی ٹی نے رپورٹ میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تکنیکی رپورٹس، شہادتوں اور گواہوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگانے کا عمل حادثہ نہیں بلکہ سوچا سمجھا دہشت گردی کا منصوبہ تھا۔ جو غالباََ کیمیکل کے استعمال سے ممکن ہوا۔
فیکٹری کے پروڈکشن مینیجر کے بیان کے مطابق ایم کیو ایم کے بلدیہ سیکٹر کا فیکٹری میں اثر و رسوخ کافی زیادہ تھا۔ سیکٹر آفس فیکٹری انتظامیہ سے زکوٰۃ، فطرانہ، پارٹی کے لیے چندے کے علاوہ کنٹریکٹ وغیرہ بھی حاصل کرتا تھا۔ فیکٹری میں ملازمتیں رکھنے اور نکالنے سے متعلق بھی ان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔
اس نے اپنے بیان میں جے آئی ٹی کو مزید بتایا کہ سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا نے ایم کیو ایم تنظیمی کمیٹی کی جانب سے فیکٹری مالکان سے 25 کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا۔
اسی شخص کے بیان کے مطابق فیکٹری مالکان اس پر کافی پریشان تھے۔ وہ ایک کروڑ روپے میں معاملات حل کرنے پر راضی تھے، لیکن سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا اپنا مطالبہ 20 کروڑ روپے سے کسی صورت کم کرنے پر تیار نہیں تھا۔ جب کہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔
اس نے بتایا کہ وسیم دہلوی نامی شخص جس کے ایم کیو ایم سے گہرے روابط تھے، وہ بھی فیکٹری سے بھتہ اور ملبوسات حاصل کرتا تھا۔ جب کہ رمضان میں زکوٰۃ اور فطرانہ بھی مالکان سے لے کر پروڈکشن مینیجر خود وسیم کے حوالے کرتا رہا۔
فیکٹری کے پروڈکشن مینیجر نے اپنے بیان میں بتایا کہ آگ لگنے کے بعد فائر بریگیڈ کو اطلاع دیے جانے کے باوجود کوئی گاڑی آگ بجھانے نہیں آئی۔ بلکہ اکاؤنٹنٹ عبدالمجید کو فائر بریگیڈ اسٹیشن بھیجا گیا تاکہ وہ فائر ٹینڈرز لا سکیں۔ان کے بقول اس دوران آگ پر قابو پانے کے لیے خود ہی کوشش جاری رکھی گئی۔ جب کہ فائر بریگیڈ آگ لگنے کے ایک گھنٹہ 26 منٹ بعد جائے وقوع پر پہنچی۔
جے آئی ٹی نے فیکٹری مالکان کے بیانات دبئی میں ریکارڈ کئے۔ جنہوں نے اس سے قبل لیے گئے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رحمٰن بھولا نے 25 کروڑ روپے کے ساتھ فیکٹری میں حصہ داری کا بھی مطالبہ کیا تھا لیکن یہ دنوں مطالبات ان کے لیے لیے ناقابلِ قبول تھے۔