اسلام آباد (محمداکرم عابد) پارلیمینٹ ہاؤس اسلام آباد میں میڈیا کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے پارلیمانی رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ
سب سے پہلے یہ طے ہونا چاہیے کہ پاکستان میں اس سنگین سیلاب کا کیا سٹیٹس ہے ،پتا چلنا چاہییے سیلاب سے متاثرہ افراد میں کتنے لوگوں تک امداد پہنچ رہی ہے۔
متاثرین تک امداد میں تاخیر سمجھ سے باہر ہے، حکومت کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو فوری امداد جاری کر نی چاہیے ،کم سے کم متاثرین تک اتنی کیش پہنچی چاہیے کہ وہ اپنا اور اپنے مال مویشی کے کھانے کا بندو بست کر سکیں،
سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر بچے اور خواتین ہوتے ہیں ،شیری رحمان نے مزید کہا کہ 2022میں سیلاب متاثرین کو بی آئی ایس پی کے تحت فوری رقوم جاری کی گئیں،ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنا ہمارے بس میں ہے موجودہ سیلاب میں ہمیں متاثرین کیلیے انٹرنیشنل کمیونٹی سے فوری امداد کی درخواست کرنی چاہیے.
چیئرمین بلاول کے مطالبے پر ہی ملک میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا ، گلگت بلتستان میں صورتحال بہت سنگین ہے وہاں کے لوگ کبھی گلیشیر پگھلنے سے اور کبھی گلاف سے متاثر ہو رہے ہیں ،گلگت بلتستان میں سائٹس ڈبل ہو چکی ہین جہاں ابتدائی وارننگ سسٹم کی اشد ضرورت ہے،ان سب معاملات پر جو اخراجات ہو رہے ہیں ان کا بھی آڈٹ ہونا چاہیے۔
حالیہ سیلاب کے تناظر میں میپنگ کا ہونا بہت ضروری ہے ،تاکہ ہر صوبے پر دیہات کو پتا ہو کہ انہوں نے کہاں کنسٹرکشن کرنی ہے ،لوکاسٹ سٹوریج کے طریقہ کار بھی تلاش کرنے ہوں گے ،واٹر ویز میپنگ اور جنگلات کو کٹائی سے روکنا بہت اہم ہے ۔