اسلام آباد(غلام نبی یوسفزئی سے) سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی پٹیشن منظورکرتے ہوئے انہیں کام سے روکنے کا حکمنامہ کالعدم کردیا ۔
جسٹس امین الدین خان کی سر براہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے درخواست گزار جج کے وکیل منیر اےملک،اٹارنی جنرل اور فریق مخالف میاں داؤد ایڈوکیٹ کے دلائل سننے کے بعد درخواست گزار جج کو کام سے روکنے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا عبوری حکم کالعدم کر کے کیس نمٹا دیا ۔عدالت نے قراردیا کہ ہائی کورٹ سب سے پہلے درخواست گزار جج کے خلاف زیر سماعت پٹیشن پر عائد آفس اعتراضات کو سن کر کیس کا فیصلہ کریں ۔عدالت نے آبزرویشن دی کہ ملک اسد کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کوورنٹو کی پٹیشن میں عبوری حکم جاری نہیں کیا جاسکتا ۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل اور ہائی کورٹ میں درخواست گزار جج کے خلاف پٹیشنر میاں داود نے تسلیم کیا کہ جج کو کام سے روکنے کا ہائی کورٹ کا عبوری آرڈر درست نہیں ۔سماعت شروع ہوئی تو وکیل منیر اے ملک نے روسٹرم پر آکر پچھلے دن کا سپریم کورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا اور موقف اختیار کیا کہ اس آرڈر سے یہ تااثر مل رہا ہے کہ ہائی کورٹ میں درخواست گزار جج کے خلاف پٹیشن قابل سماعت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں ایک جج کے خلاف کاروائی کی مجاز اتھارٹی سپریم جوڈیشل کونسل ہے اور ہائی کورٹ میں رٹ قابل سماعت نہیں ۔ انہوں نے کہا آئین کے آرٹیکل 209/7کے تحت صرف سپریم جوڈیشل کونسل جج کو ہٹا سکتا ہے۔انہوں نے کہا ملک اسد علی کیس میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہائیکورٹ میں رٹ قابل سماعت ہے۔منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ہم نے تسلیم کیا کہ ہائیکورٹ میں رٹ ہو سکتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم نے آرڈر میں صرف وہ لکھا ہے جو ملک اسد علی کیس کی لینگویج ہے۔جسٹس جمال خان ،مندوخیل نے کہا ہم نے ایک فیصلے میں یہ ہولڈ کیا ہوا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے ہی ایک جج کو ہٹایا جا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہم رٹ آف کو ورنٹو کے قابل سماعت ہونے کے سوال کو ٹچ نہیں کیا،ہم نے یہ کہیں پہ بھی نہیں کہا کہ ہائیکورٹ میں رٹ قابل سماعت ہے، ہائیکورٹ میں دائر کی گئی رٹ قابل سماعت ہے یا نہیں یہ اسی ہائیکورٹ نے ہی طے کرنا ہے۔فاضل جج نے آبزرویشن دی کہ ابھی تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا رٹ پر اعتراضات برقرار ہیں،ہم اس سوال کی طرف نہیں جائیں گے کہ جج کے خلاف رٹ ہو سکتی ہے یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ عبوری حکم کے ذریعے جج کو کام سے روکا جا سکتا تھا یا نہیں۔اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ کوورنٹو کی پٹیشن کیسے قابل سماعت ہوتی ہے آپ بتائیں، ملک اسد کیس کے وقت آئین میں معلومات تک رسائی کا بنیادی حق آرٹیکل 10اے شامل نہیں تھا ، اب معولامت تک رسائی بنیادی حق ہے،فرض کرلیں کہ جج کے حوالے سے معلومات مل جائیں پھر کیا ہوگا۔
انہوں نے کہاملک اسد کیس چیف جسٹس کے عہدے سے متعلق تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ چیف جسٹس کو ان کے عہدے سے ہٹائے۔ جسٹس جمال خان نے کہا ہائیکورٹ میں دائر کی گئی رٹ میں یہ کہا گیا ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز سروس آف پاکستان میں آتے ہیں، حالانکہ آئین کے مطابق ججز پبلک آفس ہولڈر نہیں ہوتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا یہ وہ ساری باتیں ہیں، ہائیکورٹ میں جب میرٹ پر کیس چلے گا تو زیر بحث آ سکتی ہیں،ہم موجودہ کیس میں جان بوجھ کر میرٹ پر نہیں جانا چاہتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کوورنٹو کی حد تک معاملہ قابل سماعت ہوسکتا ہے،ہمارے سامنے سوایل یہ ہے کہ نوٹس دیے بغیر آرڈر جاری کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا ہائی کورٹ نے پہلے آفس اعتراضات کو دیکھنا ہے۔درخواست گزار جج کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشنر میاں دائود ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے اور تسلیم کیا کہ ہائی کورٹ نے رسپانڈنٹ جج کو نوٹس جاری کیے بغیر عبوری حکم جاری کیا ۔
اس موقع پر جسٹس جمال خان نے فاضل وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اتنا اہم کیس ہے اور آپ لاہور چلے گئے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک جج کو عبوری آرڈر کے ذریعے جوڈیشل امور کی ناجم دہی سے نہیں روکا جاسکتا۔ عدالت کے استفسار پر رساپنڈنٹ میاں داؤد نے بھی اٹارنی جنرل کے موقف کی حمایت کی ۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے جسٹس جہانگیری کی پٹیشن اپیل میں تبدیل کرکے منظور کرلی۔