شہراقتدارمیں ایک بار پھر سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے اس بار اپوزیشن کی بڑی جماعت بھی مشترکہ حکومت سازی کے معاملات میں پیپلزپارٹی کے حوالے سے اپنے موقف میں نرمی پر کمربستہ دکھائی دے رہی ہے۔ ناقدین اتحادیوں کے ہاتھوں کسی سیاسی انہونی کا امکان ظاہر کررہے ہیں ۔سابق وزیراعظم عمران خان کوہٹھانے جیسے منظرکی عکاسی کے لئے دورکی کوڑیاں ملائی جارہی ہیں۔ جبکہ پیپلزپارٹی نے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو اکثریت ملنے کا اعتراف کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عمران خان کو حکومت سازی کی پیش کش کی گئی تھی آپشن موجودہیں۔

حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف کے صوبوں سے متعلق متنازعہ بیانات کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال پر مذاکرات شروع ہوگئے ،پیپلزپارٹی اپنے موقف پر ڈٹ گئی ،اتحادی کی ناراضگی پر وزراء کی دوڑیں لگ گئیں. اسپیکر قومی اسمبلی سہولت کار بن گئے۔ چیف وہیپ اعجازجاکھرانی نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ہم نے تو پاکستان تحریک انصاف کو بھی حکومت بنانے کی دعوت دی تھی ہمارے پاس تمام آپشن موجودہیں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کرکے حکومت کامزید اتحادی رہنے نہ رہنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے بدھ کو پارلیمینٹ ہاؤس میں اسپیکر قومی اسمبلی سردارایازصادق کی سہولت کاری میں حکومت پیپلزپارٹی میں مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔پہلے مذاکراتی دور میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار،وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ،مشیرسیاسی اموررانا ثناءاللہ خان،نویدقمر،اعجازجاکھرانی ،حکومتی چیف وہیپ ڈاکٹرطارق فضل چوہدری دیگر شریک ہوئے ۔انھوں نے کہا کہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو اچھے ماحول میں وزیراعلی مریم نوازکے بیانات سے متعلق تحفظات سے آگاہ کیا ۔ بال وزیراعظم کے کورٹ میں ہے۔ اسحاق ڈار نے یقین دہانی کروائی ہے ۔وزیراعظم ،پارٹی قیادت کو پیپلزپارٹی کے تحفظات آگاہ کریں گے،معاملہ پارٹی قیادت تک پہنچ گیا ہے ہوسکتا ہے وزیراعظم سے ہماری پارٹی سربراہ کی قیادت میں ملاقات ہو۔ پہلا دور ہوا ہے بعض باتیں فی الحال نہیں بتاسکتا۔ ہماری کوئی مجبوری نہیں ہے ہم تو ملکی حالات کے پیش نظرعمران خان کو بھی حکومت بنانے کی پیش کش کی تھی کیونکہ ان کی اکثریت تھی مگر نہ انھوں نے حکومت بنائی نہ کسی کے ساتھ ملے پھر آپشن یہی تھے کہ عام انتخابات کی طرف جاتے یا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومت بناتے۔لہذاہم اس حکومت میں اس لئے شامل ہوئے تھے کہ ملکی حالات جس طرف جارہے تھے اس کا ادراک تھا۔ہم اس لئے کابینہ کا حصہ نہ بنے کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ اتحادی حکومت میں اس طرح کے معاملات آسکتے ہیں اس لئے فیصلہ کیا کہ حکومت میں براہ راست شامل ہونے سے بہتر ہے کہ دوررہ کرساتھ دیا جائے تاکہ سسٹم چلے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کریں ہم ان کووہاں مشورہ دیں گے جہاں یہ صیحح نہیں ہونگے۔کوشش کرتے رہیں گے ۔معاملات طے نہ ہوئے تو اتحادی رہنے نہ رہنے پر مشاورت کے لئے مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا جائے گا امید ہے معاملات خوش اسلوبی سے حل کرلئے جائیں گے۔ادھرذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے حکومت سے اپنے تعاون کو سندھ سے متعلق مریم نوازکے بیانات کی واپسی سے مشروط کردیا ہے ۔نائب وزیراعظم نے وقت مانگ لیا ہے اور وزیراعظم کورپورٹ پیش کردی ہے ،پیپلزپارٹی قانون سازی میں عدم تعاون اورقومی اسمبلی سینیٹ کے اجلاسوں کے بائیکاٹ کے آپشن پر بھی غورکررہی ہے ۔ دوسری طرف پی ٹی آئی بھی حکومت پیپلزپارٹی کے اختلافات میں بڑھتی شدت ،خلیج پر نظر رکھے ہوئے وہ اس ضمن میں پارٹی کے بانی چیئرمین کی ہدایات کی منتظر ہے ۔