شکارپور(رپورٹ حاکم نصیرانی)صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور میں آج امن، ریاستی عمل داری اور قانون کی بالادستی کا دن قرار پایا۔ گھڑی تیغو آپریشن کے بعد پولیس ہیڈکوارٹر شکارپور میں ایک تاریخی تقریب منعقد ہوئی، جہاں72 ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال کر قانون کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔
یہ تقریب سندھ حکومت کی رضاکارانہ سرینڈر پالیسی کے تحت منعقد ہوئی، جسے 16 اکتوبر کو صوبائی کابینہ نے منظور کیا تھا۔ تقریب میں صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار، آئی جی سندھ غلام نبی میمن، اور ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب سمیت سیکیورٹی اداروں اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ یہ تقریب صرف ہتھیار ڈالنے کی نہیں بلکہ ریاستی رٹ، پولیس کی قربانیوں اور عوامی اعتماد کی جیت کا اعلان تھی۔
سندھ کے کچے علاقے میں برسوں سے جاری خوف، تاوان اور جرائم کے اندھیروں میں آخرکار روشنی کی کرن جاگ اٹھی۔ گڑہی تیغو آپریشن کے بعد شکارپور پولیس ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ تقریب میں 72 اشتہاری ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان میں وہ جرائم پیشہ افراد بھی شامل تھے جن کے سروں پر انعامات مقرر تھے اور جو طویل عرصے سے پولیس کو مطلوب تھے۔ تقریب کے دوران ڈاکوؤں نے اپنا جدید اسلحہ پولیس کے حوالے کیا اور امن کے قیام کیلئے پر عزم بیانات دیے۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب نے اپنے خطاب میں کہا کہ “آج کی تقریب اس بات کا ثبوت ہے کہ امن، استحکام اور ترقی ہمارا مشترکہ مقصد ہے۔” انہوں نے کہا کہ ماضی میں کچے کا ذکر آتے ہی خوف اور تاوان کے ڈاکو ذہن میں آتے تھے، مگر آج امن کی کرن صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “جہاں قانون کی طاقت، قربانی اور عزم ہو وہاں ناممکن بھی ممکن بن جاتا ہے۔”
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ سندھ پولیس، رینجرز اور فوج کی مشترکہ کاوشوں سے کچے کے بیشتر علاقے ڈاکو کلچر سے پاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں 171 ڈاکو مارے گئے، 421 زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، جبکہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ “آج کی تقریب امن، امید اور ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔”
صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے کہا کہ سندھ کے عوام امن چاہتے ہیں اور پرامن زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کامیابی پولیس سیکیورٹی اداروں اور مقامی برادریوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سرینڈر کرنے والے ڈاکوؤں کو پرامن شہری بننے کا موقع دیا جائے گا، حکومت ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے تحفظ، روزگار، تعلیم اور بحالی کی سہولیات فراہم کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جیلوں میں قید ڈاکوؤں کے اہل خانہ اور جائیدادوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے اعلان کیا کہ امن و ترقی کی دو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں مانیٹرنگ کمیٹی کی سربراہی وہ خود کریں گے جبکہ امپلیمنٹیشن کمیٹی کی قیادت متعلقہ کمشنر کے سپرد ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی فلاح کے لیے ویمن سینٹرز، بچوں کے لیے تعلیم و صحت کے منصوبے، اور کچے کے دیہات کو شہروں سے جوڑنے کے لیے نئی سڑکوں کی تعمیر کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ “یہ تو صرف شروعات ہے ابھی مزید کام باقی ہے، مگر امن اب لوٹ آیا ہے۔” پولیس کی رپورٹ کے مطابق گھڑی تیغو آپریشن کے دوران 105 ڈاکو مارے گئے، 334 گرفتار ہوئے، جبکہ 209 سے زائد جدید ہتھیار برآمد کیے گئے۔ برآمد شدہ اسلحے میں 62 جی تھری رائفلیں،97 ایس ایم جیز، 46 بارہ بور، اور 12.7 بور کے 75 ہتھیار شامل ہیں۔ آپریشن کے دوران پولیس کے ایک بہادر افسر نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 13 جوان زخمی ہوئے لیکن اداروں نے ہمت نہیں ہاری اور کارروائی جاری رکھی۔ اب ناپر کوٹ، گھڑی تیغو اور کشمور کے علاقے امن کا گہوارہ بن چکے ہیں. پچھلے آٹھ ماہ میں ان علاقوں میں اغوا، ڈکیتی یا چوری کی کوئی واردات رپورٹ نہیں ہوئی۔ سابق ڈاکوؤں نے حال ہی میں ایک پولیو ورکر کو اغوا سے بچا کر پولیس کے حوالے کیا جو امن کے قیام کے لیے ایک غیر معمولی قدم سمجھا جا رہا ہے۔ تقریب میں پولیس، رینجرز، آرمی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور سول انتظامیہ کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک ہوئے, جبکہ میڈیا نمائندگان نے اسے سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا پرامن سرینڈر قرار دیا۔ یہ دن نہ صرف سندھ پولیس کے عزم، حکومت کی پالیسی اور عوام کے تعاون کی فتح ہے, بلکہ کچے کے علاقے میں امن کے نئے سورج کے طلوع ہونے کا اعلان بھی ہے۔ وہ زمین جہاں خوف کا سایہ تھا، اب امید، روشنی اور ترقی کی پہچان بن چکی ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے کہا کہ سندھ کے عوام امن چاہتے ہیں اور پرامن زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کامیابی پولیس سیکیورٹی اداروں اور مقامی برادریوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سرینڈر کرنے والے ڈاکوؤں کو پرامن شہری بننے کا موقع دیا جائے گا، حکومت ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے تحفظ، روزگار، تعلیم اور بحالی کی سہولیات فراہم کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جیلوں میں قید ڈاکوؤں کے اہل خانہ اور جائیدادوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے اعلان کیا کہ امن و ترقی کی دو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں مانیٹرنگ کمیٹی کی سربراہی وہ خود کریں گے جبکہ امپلیمنٹیشن کمیٹی کی قیادت متعلقہ کمشنر کے سپرد ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی فلاح کے لیے ویمن سینٹرز، بچوں کے لیے تعلیم و صحت کے منصوبے، اور کچے کے دیہات کو شہروں سے جوڑنے کے لیے نئی سڑکوں کی تعمیر کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ “یہ تو صرف شروعات ہے ابھی مزید کام باقی ہے، مگر امن اب لوٹ آیا ہے۔” پولیس کی رپورٹ کے مطابق گھڑی تیغو آپریشن کے دوران 105 ڈاکو مارے گئے، 334 گرفتار ہوئے، جبکہ 209 سے زائد جدید ہتھیار برآمد کیے گئے۔ برآمد شدہ اسلحے میں 62 جی تھری رائفلیں،97 ایس ایم جیز، 46 بارہ بور، اور 12.7 بور کے 75 ہتھیار شامل ہیں۔ آپریشن کے دوران پولیس کے ایک بہادر افسر نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 13 جوان زخمی ہوئے لیکن اداروں نے ہمت نہیں ہاری اور کارروائی جاری رکھی۔ اب ناپر کوٹ، گھڑی تیغو اور کشمور کے علاقے امن کا گہوارہ بن چکے ہیں. پچھلے آٹھ ماہ میں ان علاقوں میں اغوا، ڈکیتی یا چوری کی کوئی واردات رپورٹ نہیں ہوئی۔ سابق ڈاکوؤں نے حال ہی میں ایک پولیو ورکر کو اغوا سے بچا کر پولیس کے حوالے کیا جو امن کے قیام کے لیے ایک غیر معمولی قدم سمجھا جا رہا ہے۔ تقریب میں پولیس، رینجرز، آرمی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور سول انتظامیہ کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک ہوئے, جبکہ میڈیا نمائندگان نے اسے سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا پرامن سرینڈر قرار دیا۔ یہ دن نہ صرف سندھ پولیس کے عزم، حکومت کی پالیسی اور عوام کے تعاون کی فتح ہے, بلکہ کچے کے علاقے میں امن کے نئے سورج کے طلوع ہونے کا اعلان بھی ہے۔ وہ زمین جہاں خوف کا سایہ تھا، اب امید، روشنی اور ترقی کی پہچان بن چکی ہے۔

