فیلڈ مارشل کے مواخزے کا طریقہ کار۔اعلی سیاسی عسکری قیادت کااستثنیٰ
اسلام آباد (محمداکرم عابد) پارلیمینٹ میں گزشتہ آئینی ترمیم کی منظوری کے مواقع پیدا ہونے والی بدمزگی کے برعکس اس بار ماحول انتہائی پرسکون ہے، چارجماعتوں نے خوشگوار ماحول میں مسودے میں ترامیم پیش کردیں ہیں ،بارگیننگ کے مواقع بھی نہیں ہیں، بندوبست انتہائی خاموشی سے پیشگی کرلیا گیا تھا ،بعض اختلاف کرنے والوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی طرف سے،، دال گلتی،، نظر نہ آنے پر نمائشی مخالفت کے ذریعے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے .
سینیٹر ایمل ولی خان نے غیرمشروط حمایت کے ذریعے بارگینگ کے راستے کے شگاف کسی حد تک پُر کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے اپنے تین ارکان کے ساتھ 27ویں ترمیم کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اس نے اس اعلان سے کئی امیدیں پر پانی پھرگیا ہے ۔
حکومت کا دوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے یعنی اے این پی کی حمایت کے بعد 64ارکان کی تائید حاصل ہوگئی ہے ۔نئی تاریخ کسی کی بارگینگ پوزیشن موجود نہ ہونے کے حوالے سے رقم ہورہی ہے پارلیمانی جمہوری حلقے اس پر خوش ہیں غلام گردشوں میں بھی اس پر خوشگوار تبصرے سننے کو ملے بارگینگ کی شوقین جماعتوں کے بارے سخت تبصرے کئے جارہے تھے ۔ پرسکون ماحول میں آئینی ترامیم کے مسودے کوحتمی شکل دینے کا کام انتہائی خوشگوار ماحول میں شروع ہوگیا تاہم مسلم لیگ(ن) کے بعض ارکان پارلیمینٹ سینیٹ اور کمیٹی اجلاس کے بعدبجھے بجھے دکھائی دیئے، کیا فکرمندی ہے اس کا تاثر نہیں دے رہے ہیں، بس خاموش خاموش دکھائی دیئے دلچسپ امر یہ کہ کسی جماعت میںاپنے ارکان کے پھسلنے ان کے لاپتہ ہونے کے دوردور تک اندیشہ نہیں خیال رہے کہ 26ترمیم کے موقع پر نہ صرف سردار اختر مینگل سمیت پی ٹی آئی اپنے بعض گمشدہ ارکان کو رات گئے تلاش کرتی رہی جنہوں نے دباو¿ قبول نہ کیا وہ پارلیمانی گیلریوں میں گرفتاریوں کے پیش نظر چھپتے پھر رہے تھے ۔کچھ ہتھے چڑھ گئے تھے اور افسوسناک یہ ہے کہ پارلیمان کے تقدس کی پائمالی کے حوالے سے آج تک کسی کااحتساب بھی نہ ہوسکا ہے اس بار پیپلزپارٹی بہت زیادہ پرجوش تھی جیسا کوئی قلعہ فتح کرنے جارہے ہوں۔
پی ٹی آئی نے اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ قانون و انصاف کی کمیٹی کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ جے یو آئی کے بائیکاٹ کی وجہ سامنے نہیں آسکیں۔ اجلاس سے اچانک چلے جانے پر چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک بھی حیران رہ گئے ۔عالیہ کامران قومی اسمبلی سے نمائندگی کرتے ہوئے اجلاس میں آگئیں تھیں کچھ دیر بعد واپس چلی گئیں او رتصدیق کمیٹی سربراہ نے میڈیا سے بات چیت میں کردی ہے انھوں نے بتایا کہ مسلم لیگ(ن) ایم کیو ایم پاکستان، اے این پی ،بلوچستان عوامی پارٹی نے مجوزہ ڈرافٹ میں ترامیم پیش کی ہیں آرٹیکل 243 کی خواندگی کا مرحلہ نہیں آیا تاہم 80فی صد خواندگی مکمل کرلی ہے ارکان نے ترامیم پیش کرنا شروع کردی ہے ذرائع کے مطابق صدر فیلڈ مارشل کی طرح وزیراعظم کی استثنیٰ کا ورکنگ پیپر آگیا ہے۔ مجوزہ ترمیم کے تحت جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27نومبر 2025 سے ختم تصور کیا جائیگا، وزیر اعظم آرمی چیف کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا تقرر کریں گے، تقرر پاکستان آرمی کے ارکان میں سے ہوگا۔جس کی تنخواہ الانسز مقرر کی جائینگی۔وفاقی حکومت فوجی افسر کو فیلڈ مارشل، ایئر مارشل یا ایڈمرل چیف کے رینک پرترقی دے سکے گی، یونیفارم اور مراعات تاحیات رہینگی، فیلڈ مارشل ایئر مارشل اور ایڈمرل چیف بطور ہیروز تصور ہونگے، تینوں کو آرٹیکل 47کے بغیر نہیں ہٹایا جا سکے گا۔
وفاقی حکومت فیلڈ مارشل، ایئر مارشل اور ایڈمرل چیف کی زمہ داریاں اور امور کا تعین کریگی، صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر تینوں سربراہان کی تنخواہوں اور مراعات کا تقرر کرینگے، مجوزہ آئینی ترمیم میں ججز کے حلف میں بھی تبدیلی کی تجویز شامل ہے۔حلف میں آئینی عدالت کے ججز کیلئے سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کا نام شامل کرنے کی تجویز ہے۔پیپلزپارٹی کے اعترضات متعلقہ ترامیم مجوزہ ڈرافٹ سے نکال دیں گئیں، این ایف سی، آبادی، تعلیم، صحت کے شعبوں کی وفاق کو منتقلی کی شقیں ڈراپ کردی گئیں، ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے اختیارات سے متعلق شقیں بھی نکال دی گئیں۔۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ اڑتالیس شقوں اور 28 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کے تحت ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کے قیام، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا عہدہ ختم کرکے چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ قائم کرنے اور یہ عہدہ آرمی چیف کو دینے کی تجویزپیش کی گئی ہے۔
حکومت فوجی افسر کو فیلڈ مارشل، ایئر مارشل یا ایڈمرل چیف کے رینک پر ترقی دے سکے گی، جن کی یونیفارم اور مراعات تاحیات رہیں گی۔آئین پاکستان میں 27ویں آئینی ترمیم کا بل میڈیاکو موصول ہوگیا، مجوزہ ڈرافٹ 48شقوں اور 25صفحات پر مشتمل ہے۔مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آئینی ترمیم بل کا مقصد آئین میں مزید تبدیلیاں کرنا ہے، بل فوری طور پر نافذ العمل ہو گا، آرٹیکل 42 میں لفظ پاکستان کی جگہ فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ تجویز ہے۔آرٹیکل 59 میں ممبران کی مدت کی وضاحت شامل ہیں، ہر رکن کی مدت 11 مارچ کو مکمل تصور ہو گی۔ آرٹیکل 63A میں لفظ سپریم بدل کر فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کرنے کی تجویز ہے۔آرٹیکل 68 میں پارلیمانی بحث کے حوالے سے فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا ذکر شامل ہے۔آرٹیکل 243 میں مجوزہ ترامیم کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر کریں گے، چیف آف آرمی اسٹاف چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے۔ 27نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز ہے، وزیراعظم آرمی چیف کی سفارش پر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ کا تقرر کریں گے، فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمیرل آف فلیٹ کا رینک مراعات اور وردی تاحیات رہیں گے۔آرٹیکل 78 میں ترمیم متعلقہ پیراگراف میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا ذکر شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 81 میں ترمیم دونوں پیراگراف میں عدالت کا اضافہ تجویز ہے۔
مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق آئینی عدالت 7ججز پر مشتمل ہو گی، آرٹیکل 93 میں تبدیلی: لفظ 5 کی جگہ 7 کرنے کی تجویز شامل ہے، آرٹیکل 100 میں ترمیم: لفظ سپریم کی جگہ وفاقی آئینی شامل کرنے کی تجویز ہے۔آرٹیکل 114 میں ترمیم کے دوسری بار آنے والے لفظ کے بعد عدالت کا نام شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 165A میں ترمیم بھی مجوزہ ڈرافٹ کا حصہ ہے۔آرٹیکل 165A میں دوسرے مقامات پر فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا اضافہ تجویزکیا گیا ہے، سرکاری اخراجات اور عدالتی دائرہ کار سے متعلق حوالوں میں تبدیلی، آرٹیکل 175 میں ترمیم بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
آرٹیکل 175 کی تعریف میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ آف پاکستان کا ذکر شامل کرنے کی تجویز ہے، آرٹیکل 175A میں بڑی تبدیلیاں کر دی گئی۔عدالتی تقرری کے طریقہ کار میں فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کا کردار شامل کرنے کی تجویز ہے، چیف جسٹس فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کو جوڈیشل کمیشن میں نمائندگی ملنے کی تجویز ہے۔جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو، سپریم کورٹ اور فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ کے سینئر ججز شامل ہوں گے۔اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کیلئے آرٹیکل 175اے میں ترمیم کی تجویز، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے، سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت نے سنیئر ایک ایک جج بھی جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہونگے۔ آئینی ترمیم کے ذریعے سو موٹو اختیارات ختم کرنے اور آرٹیکل 184مکمل شق ختم کرنے کی تجویز ہے.
27ویں آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ سے سوموٹو کے اختیارات واپس لینے کی تجویز ہے۔وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو مشترکہ طور پر 2 سال کیلئے نامزد کر سکتی ہے۔وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تعداد ایکٹ آف پارلیمنٹ یا صدر کی منظوری سے کیا جائیگا۔وفاقی آئینی عدالت کے جج کا پاکستانی شہری ہونا لازمی قرار دینے اور وفاقی آئینی عدالت کے جج کیلئے 68 سال عمر کی حد مقرر کرنے کی تجویز ہے، آئینی عدالت میں 20سال وکالت کا تجربہ رکھنے والا وکیل جج بننے کی اہلیت رکھ سکے گا۔27ویں آئینی ترمیم سے قبل مفاد عامہ کے تمام مقدمات جو آئینی بینچز میں زیر سماعت تھے خودکار طور پر وفاقی آئینی عدالت میں منتقل ہو گے۔
وفاقی آئینی عدالت دو وفاقی اور صوبوں حکومتی کے مابین تنازعات کا مقدمہ سننے کی مجاز ہوگی، صدر مملکت کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت بھی آئینی عدالت کرنے کی مجاز ہوگی۔وفاقی آئینی عدالت میں ہائی کورٹ کا وہ جج ممبر بن سکتا ہے جس نے ہائی کورٹ میں کم از کم 7سال بطور جج خدمات دی ہوں، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مدت تین سال رکھنے کی تجویز ہے، وفاقی آئینی عدالت کی مستقل نشست اسلام آباد میں ہو گی۔وفاقی آئینی عدالت کے فیصلے کا اطلاق پاکستان کی تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی ہوگا، سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کا اطلاق وفاقی آئینی عدالت پر نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق آئینی عدالت کے سوا ملک کی تمام عدالتوں پر ہوگا۔آرٹیکل 200میں ترمیم بھی ڈرافٹ میں شامل ہے، صدر مملکت ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ٹرانسفر کرنے کے مجاز ہونگے، ہائی کورٹ سے ججز کے تبادلے کی صورت میں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے ممبران ہونگے۔ججز کے تبادلے کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دیدیا گیا، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا۔تبادلے کی صورت میں آنے واے جج کی سنیارٹی اس بطور جج پہلی تقرری سے شمار ہوگی، ایسے کسی جج کا تبادلہ نہیں کیا جائیگا جو کسی دوسری عدالتی کی سنیارٹی پر اثر انداز ہوکر چیف جسٹس سے سنیئر ہوں۔
مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سنیئر نہیں ہوگا، ٹرانسفر سے انکار پر جج کو ریٹائر کر دیا جائیگا، ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقرر مدت تک کی پنشن اور مراعات دی جائینگی۔وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے سے انکار پر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کا متعلقہ جج ریٹائر تصور ہوگا، ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقررہ مدت تک پنشن اور مراعات ججز کو دی جائیں گی، وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جوڈیشل کونسل کے ممبر ہونگے۔
وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے دو سنیئر ججز جوڈیشل کونسل کے ممبر ہونگے، وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کے کسی جج کو چیف جسٹس سپریم کورٹ یا چیف جسٹس آئینی عدالت مشترکہ طور پر دو سال کیلئے نامزد کر سکتی ہے۔ہائیکورٹ کے دو سنیئر ججز بھی جوڈیشل کونسل کے ممبر کو ہونگے، سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس میں سے سنیئر کونسل کا سربراہ ہوگا، سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی سنیارٹی کا تعین بطور چیف جسٹس سے ہوگا۔مجوزہ ڈرافٹ میں آرٹیکل 243میں ترامیم بھی شامل ہیں،


