لاہور (عابدعلی آرائیں ) لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضی ورک نے نجی ٹی وی بول نیوزکے اینکر پرسن عمران ریاض خان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر ختم کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا چھ صفات اور پندرہ پیراگراف پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیاہے پہلے صفحے پر ریمانڈ کےلئے دی گئی درخواست جبکہ پانچ صفحات پرحکم نامہ موجود ہے ۔
عدالت نے تین فروری 2023 کو جاری کیے گئے تحریری حکم میں لکھا ہے کہ ملزم عمران ریاض خان ایف آئی اے کی تحویل میں پیش ہوئے ملزم کی طرف سے بیرسٹر میں اعلی اشفاق اور آفتاب احمد باجوہ پیش ہوئے
تفتیشی افسر حذیفہ منیر کارڈ کے ہمراہ جبکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے زینا ظہیر پیش ہوئیں
پیراگرا ف نمبر ایک
جج غلام مرتضی ورک نے لکھا ہے کہ اس پٹیشن کے ذریعے تفتیشی افسر نے عمران ریاض خان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ مانگتے ہوئے تحقیقات مکمل کرنے اور برآمدگی کے لیے ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملزم سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ٹویٹر، یوٹیوب کے پاس ورڈ برآمد کرنے ہیں ۔
ایف آئی اے کی طرف سے کہا گیا کہ ملزم نے ایک سیمینار کے دوران ریاستی اداروںسے متعلق تضحیک آمیز ریمارکس دیئے اور عوام کو اشتعال دلانے کی کوشش کی تاکہ وہ ریاست کے خلاف جرم کا ارتکاب کریں مزید یہ کہ عمران خان نے ریاستی اداروں کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیئے اوراس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف بھی تو ہین آمیز ریمارکس دیئے۔
ایف ئی اے کی طرف سے کہا گیا کہ ملزم کی طرف سے استعمال کیے جانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ریکوری کرنا باقی ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ جسمانی ریمانڈ فراہم کیا جائے
پیراگراف نمبر دو
عدالت نے لکھا ہے کہ دوسری جانب عمران خان کے وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ عمران خان کی مکمل تقریر ایف آئی آر کا حصہ بنائی گئی ہے اور ریمانڈ حاصل کرنے کی درخواست میں بھی تقریر کوشامل کیا گیا ہے لیکن اس سے کوئی جرم نہیں بنتا وکیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 میں اظہار رائے کی مکمل آزادی دی گئی ہے ، اس آزادی سے کسی بھی شہری کو محروم نہیں جا سکتا، عمران ریاض خان کے وکیل نے مزید کہا کہ پیکا ایکٹ 2016کی شق 11 اور 20 کے تقاضے بھی اس کیس میں پورے نہیں کیے گئے جبکہ پیکا ایکٹ کی شق 24 بھی اس معاملے میں نہیں لگائی جاسکتی وکیل نے مزید کہا کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 131 بغاوت سے متعلق ہے لیکن عمران ریاض خان نے ایسا ایک بھی لفظ ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے عوام نے بغاوت کردی ہو، وکیل نے مزید کہا کہ ایف آئی آر میں پاک فوج کے کسی بھی افسر کو اکسانے تک کا ذکر نہیں کیا گیا۔
عدالت لکھتی ہے کہ عمران ریاض کے وکیل نے مزید کہا کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 161 کے تحت جس شخص کو کی تضحیک کی گئی ہے اس کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا جو کہ قانونی تقاضا تھا یہ بھی قانونی تقاضا ہے کہ جس شخص کی تضہیک کی گئی ہے وہ خود شکایت کرے یا اس کا 161 کا بیان ریکارڈ کیا جانا چاہیے لیکن اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا وکیل نے کہا کہ جہاں تک مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شک 505 کا تعلق ہے یہ تقریر 29 نومبر2022کو کی گئی اس وقت سے لے کر عمران ریاض کے گزشتہ روز گرفتاری تک عوام نے کوئی غیر قانونی عمل نہیں کیا۔
عدالت نے لکھا ہے کہ عمران ریاض کے وکیل نے موقف اپنایا کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی یہ تمام دفعات اس وقت کسی پر نہیں لگائی جاسکتیں جب تک مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 196 میں دیا گیا پروسیجر مکمل نہ کیا گیا ہو۔ لیکن ایسا کوئی طریقہ کار ایف آئی آر سے واضح نہیں ہے ۔
وکیل میاں علی اشفاق نے مزید کہا کہ عمران ریاض خان اس سے پہلے ہی ایف آئی اے حکام ، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرچکے ہیں کہ ایف آئی اے کو ہدایت کی جائے کہ ان کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آرز کی تفصیلات انہیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ قانون کے مطابق تفتیش کا حصہ بن سکیں لیکن یہ ایف آئی آر لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرنے سے پہلے درج کی گئی اور ایف آئی اے نے یہ ایف آئی آر عدالت کے سامنے ظاہر نہیں کی اس طرح ایف آئی اے نے نہ صرف یہ حقیقت ملزم سے چھپائی بلکہ ملک کی قانونی عدالتوں سے بھی یہ حقائق چھپائے۔
وکیل نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کی فائل میں ایسا کوئی مواد دستیاب نہیں ہے جس کی بنا پر جسمانی ریمانڈ دیا جائے اس لیے استدعا کی جاتی ہے کہ عمران خان کو اس کیس سے ڈسچارج کیا جائے۔
پیراگراف نمبر 3
عدالت نے لکھا ہے کہ فریقین کے دلائل کو سننا ہے اور ریکارڈ کو پرکھا گیا
پیراگراف نمبر 4
عدالت نے لکھا ہے کہ ریکارڈ کا جائزہ لینے سے انکشاف ہوتا ہے کہ ایف آئی آر میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان نے نفرت آمیز تقریر کانفرنس کے دوران کی اور یہ تقریر بعد میں یوٹیوب اور ٹوئٹر ہینڈل پر شیئر کی گئی جس کی وجہ سے یہ خوف یاتاثر پیدا ہوا کہ عوام یا عوام کا کوئی گروہ ریاست کے خلاف جرم کر سکتا ہے یا کوئی شخص ملک میں کسی دوسری کمیونٹی کے افراد کے خلاف کوئی جرم کا مرتکب ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے انارکی پھیلنے کا خطرہ ہے، ریاست اوراس کے اداروں کے خلاف لوگوں کو تقسیم کیا جاسکتا ہے ،جس سے خونریزی ،انتہا پسندی ،دہشت گردی اور دشمنی کا احساس پاکستان کے لوگوں میں پیدا ہوسکتا ہے او انکے درمیان نفرت پیداہوسکتی ہے ۔
عدالت نے عمران خان کی تقریر کے ان الفاظ کو اپنے حکم کا حصہ بنایا ہے جس میں عمران خان نے جنرل باجوہ سے متعلق بات کی تھی
پیراگراف نمبرپانچ
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جہاں تک پیکا ایکٹ 2016 کی شق گیارہ کا تعلق ہے وہ نفرت آمیز تقریر سے متعلق ہے اس شق میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ شق صرف اس وقت لگائی جاسکتی ہے جب کوئی شخص کسی انفارمیشن سسٹم یا ڈیوائس کے ذریعے ایسی معلومات لوگوں تک پہنچاتا ہے جس سے مسالک اور فرقہ واریت یا نفرت پھیلتی ہو عدالت نے لکھا ہے کہ ان تینوں عناصر میں سے کوئی ایک عنصر بھی ایف آئی آر میں نہیں پایا جاتا۔
پیراگراف نمبر6
عدالت نے لکھا ہے کہ پیکا ایکٹ2016 کی20 بھی اس وقت لگائی جاسکتی ہے جب کوئی شخص جان بوجھ کر عوام میں ایسی معلومات پھیلاتا ہے کہ جب کہ اسے یہ معلوم ہے کہ وہ انفارمیشن جھوٹی ہیں اور کسی عام آدمی کی پرائیویسی یا ساکھ کو متاثر کر سکتی ہے اس کیس میں ملزم عمران ریاض خان نے اپنی تقریر میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لیا ہے لیکن اس شخص (جنرل باجوہ )کا بیان تفتیش میں ریکارڈ ہی نہیں کیا گیا
عدالت نے لکھا ہے کہ اس کیس میں تفتیشی افسر نے ایف آئی آر میں واضح لکھا ہے کہ سائبر پٹرولنگ کے دوران اس نے وہ ویڈیو دیکھی اور اس نے اس تقریر سے بد نام ہونے والے شخص سے رابطہ تک نہیں کیا تاکہ یہ جان سکے کہ وہ عمران خان کو پراسیکیوٹ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا نہیں۔
پیراگراف نمبر 7
عدالت نے لکھا ہے کہ پیکا ایکٹ 2016 کی شق20 اس وقت لگائی جاسکتی ہے جب کسی شخص کو بدنام ہا ہراساںکیا جا رہا ہوں اور اس عمل کے لیے انفارمیشن سسٹم ،نیٹ ورک ،انٹرنیٹ، ویب سائٹ ،الیکٹرونک میل یا کوئی اسی طرح کا اور ذریعہ استعمال کیا جا رہا ہو لیکن ایسا کوئی الزام بھی ایف آئی آر میں نہیں لگایا گیا
پیراگراف نمبر آٹھ
عدالت نے لکھا ہے کہ جہاں تک مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 131 کا تعلق ہے یہ پاک فوج کے کسی افسر کو ڈیوٹی کرنے منع کرنے کے حوالے سے ہے لیکن ایف آئی اے نے ایف آئی آر میں جو الفاظ شامل کیے ہیں ان میں کوئی بھی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ کسی افسر کوڈیوٹی نہ کرنے پر اکسایا گیا ہو۔
پیراگراف نمبر 9
عدالت نے لکھا ہے کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 500 میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر متاثر ہونے والے شخص کا بیان ریکارڈ کرے گا یا وہ شخص خود کیس درج کرا سکتا ہے،لیکن اس عدالت کے سامنے پیش کی گئی پوری فائل میں اس شخص کا ایک بھی بیان موجود نہیں ہے جس کی تصدیق ہوئی یا عوام میں سے کوئی بھی بندہ سامنے نہیں آیا جس نے کہا ہو کہ وہ متاثر ہوا ہے اور نہ ہی تفتیشی نے ایسے کسی بندے کا بیان ریکارڈ کیا ہے۔
پیراگراف نمبر 10
عدالت نے لکھا ہے کہ جہاں تک مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 505 کا تعلق ہے اس کا اطلاق اس وقت کیا جا سکتا ہے جب کوئی شخص بڑے پیمانے پر لوگوں کو اکسا رہا ہو عدالت نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 29 نومبر 2022کو پیش آیا اور ملزم کو دو فروری 2023 کو گرفتار کیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران ریاض خان کو وقوعہ کے 64 دن بعد گرفتار کیا گیا اور اگر اس کا بیان لوگوں کو اکسانے سے متعلق تھا تو ضرور آرمی نیوی یا پاک افواج کے خلاف کو ئی ریکشن آتا کوئی مزاحمت ہوتی، بغاوت کے لئے کوئی عمل ہوتا یا کوئی آواز سامنے آتی یا کوئی افسراپنی ڈیوٹی نہ کرتا اس طرح ایف آئی آر میں مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 505 لگانا بھی قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا۔
پیراگراف نمبر11
عدالت نے لکھا ہے کہ تفتیشی میں ایف آئی آر درج کرتے ہوئے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی فک 505اور 196 کے تقاضے بھی پورے نہیں کئے
عدالت نے ان دونوں شقوں کو اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے
پیراگراف نمبر 12
عدالت نے لکھا ہے کہ عمران ریاض خان 2 فروری 2023 کے ریمانڈ آرڈر میں لکھا گیا ہے کہ عمران ریاض خان لاہور ائیر پورٹ سے پاکستان سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔عدالت نے لکھا ہے کہ عمران خان نے 14 جنوری 2023 کو ایف آئی اے حکام کو درخواست لکھی تھی کہ اسے اپنے خلاف دائر کی گئی ایف آئی آرز، انکوائری اور انویسٹیگیشن کی تفصیلات فراہم کی جائیں تاکہ وہ تفتیش میں شامل ہوسکے لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی اسی تاریخ پر عمران خان نے ایف آئی اے پنجاب کے ڈائریکٹر کو ایک درخواست دی لیکن اس درخواست پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اسی تاریخ پرعمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈوکیٹ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو درخواست دی لیکن ایف آئی اے نے اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں کی جس کے بعد عمران ریاض خان نے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں رٹ پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے استدعا کی کہ عمران ریاض خان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آرز، اور جاری انکوائریز کی تفصیلات فراہم کی جائیں لیکن ایف آئی اے کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں کوئی بھی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا ،
فاضل مجسٹریٹ نے لکھا ہے کہ عمران ریاض خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی ایک درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ انہیں معلومات فراہم کی جائے لیکن ڈی جی ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کے سامنے یہ بیان دیا کہ عمران ریاض خان ایف آئی اے کو کسی بھی ایف آئی آر میں مطلوب نہیں ہے اور اس کے خلاف کوئی بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے لیکن یہ ایف آئی آر 29 نومبر دوہزار بائیس کو درج کی گئی ،اسطرح انہوں نے نہ صرف عدالتوں سے حقائق چھپائے بلکہ پٹیشنر کو بھی یہ معلومات نہیں دی گئیں حالانکہ یہ ان کا آئینی طور پر بنیادی حق تھا اس لیے استغاثہ کا یہ موقف بالکل جھوٹ پر مبنی ہے کہ عمران ریاض خان تفتیش میں تعاون نہیں کر رہا
پیراگراف نمبر 13
عدالت نے لکھا ہے کہ یہ دلچسپ امر ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسرحذیفہ منیر جو کہ ایک سب انسپکٹر ہیں نے سائبر پٹرولنگ کی اور انہوں نے خود ہی ایف آئی آر درج کی اور خود ہی کیس کی تفتیش کی جو کہ تفتیش کے حوالے سے فوجداری قانون کی صریحا خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے لکھا ہے کہ تفتیشی نے ریمانڈ کی درخواست میں یہ بات لکھی ہے کہ عمران ریاض خان کا ٹوئٹر ہینڈل جس پر وہ ویڈیو شیئر کی گئی وہ ویریفائیڈ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی ٹیکنیکل رپورٹ اور فرنزک رپورٹ پہلے ہی تفتیشی نے تیار کر رکھی تھی مزید یہ کہ عمران ریاض خان نے وہ ویڈیو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر نہیں کی تھی ، عدالت لکھتی ہے کہ ریمانڈ درخواست میں واضح بتایا گیا ہے کہ یہی ویڈیو عمران ریاض خان فین پیج سے یوٹیوب چینل پر شیئر کی گئی اور نوشین پیروانی اور عمران ریاض خان کے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران ریاض خان سے برآمد کرنے والی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔
پیراگراف نمبر14
عدالت نے لکھا ہے کہ ایف آئی اے کی طرف سے تمام قانونی شقوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے نہ تو انکوائری کی گئی نہ ہی عمران ریاض خان کو انکوائری یا تفتیش کے لیے بلایا گیا اسے براہ راست گرفتار کیا گیا اور عدالت کے سامنے پیش کر دیا گیا ایسا کرنا ایف آئی اے ایکٹ میں دیئے گئے عمل کی صریحا خلاف ورزی ہے۔
پیراگراف نمبر 15
عدالت نے لکھا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ عدالت سمجھتی ہے کہ ایف آئی اے کی طرف سے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کا کوئی جواز موجود نہیں ہے کیونکہ ایف آئی اے کی فائل میں کوئی بھی قابل اعتماد مواد موجود نہیں ہے،یہ ایف آئی آر گاسپل ٹرتھ ہے کیونکہ عمران خان کے وکیل اور خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بیان دیا ہے اور وہ جھوٹا نہیں ہے اس لیے تفتیشی افسر کی ریمانڈکی استدعا مسترد کی جاتی ہے اور عمران ریاض خان کو ایف آئی آر نمبر 253/2022 میں ڈسچارج کیا جاتا ہے اگر عمران خان کسی اور فوجداری کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
عدالت میں کیس کی سماعت کا احوال
لاہور کی ضلع کچہری، سائبر کرائم مقدمے میں بول نیوز کے سینئر اینکر پرسن عمران ریاض خان کو پیش کییا گیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضی ورک کے روبرو عمران ریاض خان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا بھی کی گئی۔
عمران ریاض خان کی طرف سے میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور کہا کہ ایف آئی اے نے جسمانی ریمانڈ کی جو درخواست دی اس میں کوئی وجوہات بیان نہیں کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران ریاض پر نفرت انگیز تقریر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور درخواست میں کہا گیا کہ عمران ریاض کی تقریر ایف آئی اے کی علاقائی حدود میں آتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کا علاقائی حدود کا لفظ قابل غور ہے، قانونی حدود کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا اور جب کوئی جرم ثابت ہونا نہ پایا گیا ہو تو ملزم کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا جاتا ہے جبکہ اسی نوعیت کے مقدمہ میں اسی عدالت نے ملزم کا مقدمہ خارج کیا تاہم عمران ریاض خان کیخلاف درج مقدمہ خارج کیا جائے۔
میاں علی اشفاق نے کہا کہ یہ بیان دینا کوئی جرم نہیں ہے، اس عدالت میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو محب وطن نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت گھٹیا، غلیظ الزامات لگا کر ڈھول پیٹ رہی ہے جبکہ عمران ریاض خان نے کسی ادارے کو ٹارگٹ نہیں کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے ادارے کی اپنی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 14 جنوری کو عمران ریاض نے ایف آئی اے کو خط لکھ کر پوچھا تھا کہ میرے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو بتایا جائے جبکہ مقدمہ نومبر 2022 سے درج ہے، عمران جہاں کام کرتے ہیں وہاں سے ایف آئی اے دفتر کا فاصلہ 500 میٹر ہے ، ایف آئی اے والے روز عمران ریاض خان کا وی لاگ دیکھتے ہیں مگر پہلے کارروائی کیوں نہیں کی؟
عمران ریاض کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران ریاض خان درج مقدمہ میں جو بیان کیا گیا اس کو تسلیم کرتے ہیں اور جس بیان کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا اس بیان کو عمران ریاض سر کا تاج سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے ٹویٹر، یو ٹیوب پاسپورڈ لینے کیلئے ریمانڈ مانگ رہے ہیں جبکہ یہ موبائل کے لاک توڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور وہ پاسورڈ توڑ چکے ہیں اور جس بیان کا الزام ایف آئی اے لگا رہا ہے اسکو تسلیم کر لیا ابھی مزید ریکوری کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انکوائری کے دوران طلب نہیں کیا گیا اور مقدمہ درج کرنے سے قبل قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا جبکہ مقدمہ درج ہونے کے بعد 2 ماہ کے دوران ایف آئی اے نے کیا تفتیش کی وہ بھی ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کی زندگی کو خطرہ ہے تاہم ان کے تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کئے گئے، بلٹ پروف گاڑی کے پرمٹ بھی معطل کئے گئے اور اللہ کے بعد عمران ریاض کی حفاظت عدالتوں کے ذمہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر اس عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ یا مقدمہ خارج نہ کیا تو اعلی عدالتیں یہ کام کر دیں گی۔
بعدازاں عمران ریاض خان کی تقریر عدالتی ہدایت پر کمرہ عدالت میں چلائی گئی اور جوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضی ورک نے قریر کا متعلقہ حصہ سنا اور جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سنا دیا گیا.