اسلام آباد(ای پی آئی) پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعتراف کیا ہے کہ اسلام آباد کے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کو ملک کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس(آئی ایس آئی) نے اغوا کیا تھا۔
ایک ویب سائیٹ پاکستان 24پرشائع خبر کے مطابق جنرل باجوہ نے صحافی شاہد میتلا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے ۔ شاہد میتلا نے پاکستان 24 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل باجوہ نے دیگر بھی کئی انکشافات اور اعترافات کیے۔
شاہد میتلا کے مطابق ان کی جنرل باجوہ سے طویل ملاقات گزشتہ ماہ ہوئی تھی اور وہ اس پر سلسلہ وار کالم لکھ رہے ہیں۔جنرل باجوہ نے بتایا کہ مطیع اللہ جان کو ایجنسی نے بھونڈے طریقے سے اٹھایا اور انہوں نے جنرل فیض کو اس پر ڈانٹا۔
شاہد میتلا کے مطابق مطیع اللہ جان کوجنرل باجوہ کی مداخلت پر چھوڑا گیا۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ ابصار عالم کو گولی ان کے کہنے پر نہیں ماری گئی۔
دوسری جانب نیا دور ویب سائیٹ پر لکھے گئے کالم میں شاہد میتلا نے لکھا ہے کہ
2 فروری 2023 کو میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے فرسٹ کزن چودھری نعیم گھمن کی تیمارداری کے لیے ان کے گھر گیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی تشریف لے آئے۔ ابتدائی گپ شپ کے بعد کہنے لگے کہ آپ کے سوالات مجھ تک پہنچتے رہے۔ آج روبرو پوچھ لیں۔ اور پھر یہ ملاقات طویل انٹرویو میں تبدیل ہو گئی۔ میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے کئی چبھتے ہوئے سوال پوچھے۔ جنرل باجوہ نے تحمل کے ساتھ میرے سوال سنے اور ہر سوال کا جواب دیا۔ انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ان کے ساتھ غلط منسوب کی گئی ہیں مثلاً یہ کہ طلعت حسین، مرتضیٰ سولنگی اور نصرت جاوید کو انہوں نے نوکریوں سے نکلوایا تھا اور یہ بھی کہ ابصار عالم پر انہوں نے حملہ کروایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تین شخص سب سے زیادہ جھوٹے ہیں۔ ایک عمران خان، دوسرا شیخ رشید اور تیسرا ایک صحافی ہے۔ میر شکیل الرحمان کو عمران خان نے جیل میں ڈلوایا تھا، میں نے انہیں جیل سے نکلوایا تھا۔
میڈیا پر گفتگو شروع ہوئی تو جنرل باجوہ بولے کہ آج کل حامد میر اور طلعت حسین میرے خلاف ہیں۔ حامد میر نے نسیم زہرا کے حوالے سے بھی جو بات کی کہ اس نے مجھے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں شٹ اپ کال دی تھی وہ بالکل غلط ہے۔ “وہ خاتون ہیں وہ مجھے کیا شٹ اپ کال دے سکتی ہیں؟”
طلعت حسین کو لگتا ہے کہ میں نے اسے نوکری سے نکلوایا تھا۔ طلعت حسین کو میں نے نہیں جنرل فیض نے نوکری سے نکلوایا تھا۔ میں نے تو طلعت حسین کی مدد کی تھی۔ طلعت حسین جب پہلی مرتبہ نوکری سے فارغ ہوا تو وہ میرے کزن انجم وڑائچ کو لے کر میرے پاس آیا۔ میں نے تو الٹا جنرل فیض حمید کے ذریعے سے ان کی مدد کی تھی۔
میں نے پوچھا کیا مرتضیٰ سولنگی، نصرت جاوید وغیرہ کو آپ نے چینل سے نکلوایا تھا؟
کہتے بالکل نہیں، مرتضیٰ سولنگی کو پہلے میں نہیں جانتا تھا۔ ڈیڑھ سال سے انہیں جاننا شروع ہوا۔
پھر میں نے سوال کیا ابصارعالم کو آپ نے گولی مروائی؟
کہتے آپ ایک انسان کو قتل کرنا معمولی بات سمجھتے ہیں، میں نے قبر میں نہیں جانا؟ میں نے آج تک کسی بے گناہ کو مارنے کا حکم نہیں دیا۔ میں نے کہا وہ آپ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے آپ کو آرمی چیف بنوانے میں مدد بھی کی اور آپ نے ان پر پھر بھی گولی چلوائی؟
جنرل باجوہ نے جواب دیا ابصار کو گولی میں نے نہیں مروائی۔ میں نے فوٹیج دیکھی تھی حملہ آور کے ہاتھ میں چھوٹا سا ٹی ٹی پسٹل تھا، حملہ اناڑی پن سے کیا گیا تھا۔ میں ایسا کیوں کرتا؟
میں نے کہا پھر جنرل عرفان ملک نے یہ کروایا تھا کیونکہ ابصار عالم نے ان کی تصویر ٹویٹر پر لگائی تھی؟ انہوں نے یہ کام غصے میں کیا ہوگا؟ جنرل باجوہ نے کہا یہ میرے علم میں نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے نیچے کے لیول پر کسی کو غصہ آ گیا ہو اور اس نے یہ کام کیا ہو۔ میں تو اسد طور کو بھی نہیں جانتا تھا۔ مجھے اسد طور کے واقعے کا بھی اگلے دن پتہ چلا تھا۔ آرمی چیف کو ہر چیز کی خبر نہیں ہوتی، اس کے کرنے کے اور بہت کام ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا مطیع اللہ جان والا واقعہ ایجنسی نے بھونڈے طریقے سے کیا تھا، میں نے اس پر جنرل فیض کی کلاس لی۔ پھر مطیع اللہ جان کو چھڑوایا۔
مجھ پر اعظم سواتی اور شہباز گل کو ننگا کرنے کا بھی غلط الزام لگایا گیا۔ میں ساٹھ باسٹھ سال کا ہوں۔ میں اس عمر میں کسی کو ننگا کرواؤں گا؟ ستر سال کے بزرگ اعظم سواتی کو ننگا کیسے کر سکتا ہوں؟ یہ بھی بکواس ہے۔ مجھ پر شہباز گل کو ننگا کرنے کا الزام بھی غلط ہے۔ میرا ان چیزوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں نے قبر میں بھی جانا ہے لیکن اعظم سواتی نے مجھے باسٹرڈ تک لکھ دیا۔
پولیس اور ایف آئی اے بھی ایسے معاملات میں اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔ میں نے کہا اعظم سواتی تو ایجنسیوں پر الزام لگاتے ہیں؟
وہ بولے بعض اوقات ایجنسیوں میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نچلے لیول پر ہوتا ہے۔ بہرحال میرا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایمان مزاری نے پوسٹر لگایا ‘جنرل باجوہ بے غیرت ہے’ تو اس پر جوانوں کو غصہ آیا۔ ایک میجر نے کہا کہ سر آپ بے غیرت ہیں۔ ہم اس کو فکس کریں گے، تو میں نے منع کر دیا کہ نہیں بس قانونی طریقے سے نمٹیں اور اس ایشو کو ختم کر دیں۔ میں ہر طرح کی تنقید برداشت کرتا تھا لیکن ادارے کی عزت کا بھی سوال ہوتا ہے۔
پھر ایمان مزاری کے خلاف جی ایچ کیو نے باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی۔ جسٹس اطہر من اللہ کی بیٹی ایمان مزاری کی دوست ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کو ضمانت دے دی۔ اس کے بعد ہم نے جان بوجھ کر اس کیس کی پیروی نہیں کی تا کہ معاملہ وہیں ختم ہو جائے۔
فوج اور فوجی افسروں کے خلاف جو مرضی کہہ دیں، الزام لگا دیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ فوجی افسر جواب بھی نہیں دے سکتے۔ ججوں کے بارے میں بات کریں گے تو وہ جواب دے لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کمزور ہیں۔
میں نے کہا آپ نے جنرل عرفان ملک کو آئی ایس آئی سے اس لئے ہٹایا کہ انہوں نے مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دی تھی؟
وہ بولے، میں نے نہیں، ان کو جنرل فیض نے ہٹایا تھا۔ جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی سی دونوں کا کام خود کرنا چاہتے تھے۔
میں نے پوچھا مریم نواز والا واقعہ کیسے ہوا تھا، کس نے دروازے توڑنے کا حکم دیا تھا؟
انہوں نے کہا یہ حکم میں نے نہیں دیا تھا۔ برگیڈیئر حبیب اس وقت سیکٹر کمانڈر تھے۔ کیپٹن صفدر نے مزارِ قائد پر نعرے بازی کی تو عوام، فوجی جوانوں اور میڈیا کا دباؤ تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے تو جنرل فیض نے مقدمہ درج کرنے کا کہا تھا مگر نچلے لیول پر کچھ زیادہ ہو گیا۔ پولیس نے جب ریڈ کیا تو کیپٹن صفدر اور مریم نواز الگ الگ کمروں میں تھے وہ دونوں ایک کمرے میں نہیں تھے۔
میں نے کہا آپ کو اس پر نواز شریف نے فون کیا یا کوئی شکایت کی؟
انہوں نے بتایا کہ نہیں، نواز شریف نے فون کیا نہ کوئی شکایت کی۔ ہم نے ذمہ دار افسر کو ہٹا دیا تھا۔
میں نے سوال کیا آپ نے کہا تھا کہ شیو کرتے ہوئے آپ صدیق جان کو سنتے ہیں؟ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف کا انٹلیکٹ لیول اتنا پست ہے؟
اس پر جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ ہاں میں نے صدیق جان کو کہا تھا مجھے کسی نے اس کا وی لاگ بھیجا تھا تو شیو کرتے ہوئے سنا اور یہی فارغ وقت ملا۔ ویسے بھی جب آپ دباؤ میں ہوتے ہیں تو آپ وہی بات سننا چاہتے ہیں جو آپ کے حق میں ہو اور آپ کے مخالف کے خلاف ہو۔ بعض اوقات آپ کسی کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ یوٹیوبرز میرے پاس آئے ہوئے تھے تو اس وقت صدیق جان کو یہ کہا تھا۔
میں نے کہا اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافی کیسے عمران خان کے کیمپ میں چلے گئے اور ایسے بھی جن کو بنایا ہی فوج نے تھا؟
یہ بولے، بالکل ہم نے کچھ صحافیوں کو بنایا، ان کو ہم خبریں بھی دیتے تھے، ان سے پروگرام بھی کرواتے تھے۔ ہوا یہ کہ جب فوج کی ن لیگ کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی تو ہمیں ایسے صحافیوں کی ضرورت تھی جو ان کے خلاف بات کریں یا ان کے مخالف ہوں۔ اسی طرح اے آر وائی کی ہمیں اس لئے ضرورت تھی کہ وہ ہماری بات کرتا تھا۔ چودھری غلام حسین اور صابر شاکر کو تو میں فیلڈ میں بھی ساتھ لے کر گیا۔ جب فوج نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو ہمیں ایسے صحافیوں کو آہستہ آہستہ بتانا چاہئیے تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا بیانیہ بدلنا چاہئیے تھا اور ان کو آہستہ آہستہ تبدیل کرتے لیکن ہم نے یہ نہیں کیا اور ہم نے ایک دم اپنی سائیڈ بدل لی۔ اس سے وہ صحافی وہیں پر رہ گئے۔
دوسرا عمران خان جھوٹ بولنے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بہت چالاک آدمی ہیں اور بار بار جھوٹ بولتے ہیں اور لوگ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔
اوریا مقبول جان کا ذکر ہوا تو جنرل باجوہ ہنسے اور کہا کہ وہ بھی بہت جھوٹا آدمی ہے۔ پہلے اس کو میرے بارے میں خواب میں بشارت ہوتی تھی اور اب میری مخالفت کرتا ہے۔
ارشاد بھٹی سے شناسائی کے ذکر پر جنرل باجوہ کہتے اس کو میں نے جیو میں نہیں رکھوایا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن میرے سُسر جنرل اعجاز امجد کہتے تمہیں اپنے دوست کے ہاں ڈنر پر لے کر جانا ہے۔ جب ہم اسلام آباد ان کے دوست کے گھر پہنچے تو یہ صدرالدین ہاشوانی کا گھر تھا۔ میں اس وقت میجر جنرل تھا۔ وہاں صدرالدین ہاشوانی نے ارشاد بھٹی کا تعارف کروایا کہ وہ ہمارا میڈیا کا سیٹ اپ دیکھتا ہے۔ پھر اس کے بعد ارشاد بھٹی میرے پاس آنا شروع ہو گئے۔ جب میں کورکمانڈر بنا تب بھی میرے پاس باقاعدگی سے آتے رہے۔
میں نے پوچھا میر شکیل الرحمان کو جیل کس نے بھجوایا تھا؟
انہوں نے بتایا، میر شکیل الرحمان کو عمران خان نے جیل میں ڈلوایا تھا۔ میں نے میر شکیل الرحمان کو جیل سے نکلوایا۔ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ میر شکیل الرحمان کینسر کا مریض ہے وہ جیل میں ہی مر جائے گا تو پھر اس نے بات مانی۔
میری جنرل باجوہ سے ملاقات کے وقت میڈیا پر شیخ رشید کی گرفتاری کی خبر چل رہی تھی۔ جنرل باجوہ بولے شیخ رشید گرفتار ہو گیا ہے اس کو کیوں گرفتار کر لیا، وہ تو بالکل زیرو ہے۔
میں نے کہا وہ تو جی ایچ کیو کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں اور خود بھی بتاتے ہیں۔
بولے، وہ کوئی جی ایچ کیو کے قریب نہیں ہے، وہ ایسے ہی ڈینگیں مارتا ہے۔ جب میں گورڈن کالج گیا تو اس سے چھ سال پہلے شیخ رشید کالج سے جا چکا تھا۔ میں تو اس کو زندگی میں صرف دو دفعہ ملا ہوں۔ ایک دفعہ وہ فروری 2022 میں میرے پاس آیا تھا اور کہتا کہ عمران خان سے حکومت نہیں چل رہی، کچھ کریں۔
“شیخ رشید جیسے جھوٹے آدمی سے بھلا میں خود کیوں ملوں گا؟ اس کا کوئی انٹلیکٹ لیول نہیں ہے۔ بالکل فارغ ہے اور مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور ایسے ہی نجومیوں کی طرح تاریخیں دیتا ہے”، جنرل باجوہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ملاقات کے دوران جب میں جنرل باجوہ سے سوالات پہ سوالات کر رہا تھا تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا آپ میری طرح بہت بے چین روح ہیں۔ آپ صبر سے سنیں گے تو آپ کو سب سمجھ آ جائے گا اور واقعی ایسا ہی ہوا تو میں نے کہا آپ بہت اچھے سٹوری ٹیلر ہیں۔
جنرل باجوہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا میں جب لمز یونیورسٹی گیا۔ لمز یونیورسٹی انٹی اسٹبلشمنٹ سمجھی جاتی ہے لیکن میں نے وہاں چھ گھنٹے سے زائد گفتگو کی، طلبہ کے سوالات کے جواب دیے۔ اس پر یونیورسٹی کے ریکٹر نے کہا سر آپ کو استاد ہونا چاہیے، آپ بہت رواں گفتگو کرتے ہیں۔