اسلام آباد(عابدعلی آرائیں) سپریم کورٹ نے شہید ارشد شریف قتل کیس کی 17 مارچ 2023 کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے 4 صفحات 5 پیراگراف پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر
پر مشتمل6 رکنی بینچ نے جاری کیا ہے سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے کینیا میں قتل کی تحقیقات کے لئے ازخود نوٹس لیا تھا۔
پیراگراف نمبر 1
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ دوران سماعت مقتول ارشد شریف کی والدہ ، اہلیہ اور 5 بچوں کی طرف سے ایڈووکیٹ شوکت عزیز صدیقی دوران سماعت پیش ہوئے انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے اسپیشل جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے عدالت کی نگرانی میں ہونے والی یہ تحقیقات اگرچہ نیک نیتی پر مبنی ہے لیکن یہ درست نہیں ہے اپنے اس مؤقف کی تصدیق کے لئے انہوں نے شہناز بیگم بنام ججز سندھ و بلوچستان ہائیکورٹ کیس میں دیئے گئے فیصلے کی نظیر پیش کی۔
عدالت نے لکھا ہے کہ شہناز بیگم کیس میں دیئے گئے فیصلے کا ہم نے جائزہ لیا جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس فیصلے کا اطلاق اس معاملے پر نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ فیصلہ بالکل ہی مختلف حقائق کی روشنی میں دیا گیا تھا ہمارے اس مؤقف کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار یہ واضح کرتا ہے کہ اس عدالت کے پاس عوامی حقوق کو متاثر کرنے والے معاملات میں ہونے والی تحقیقات کی مانیٹرنگ اور نگرانی کے اختیار ہیں، اس حوالے سے سپریم کورٹ نے بینک آف پنجاب بنام حارث سٹیل مل کیس اور 2010 میں لئے گئے ایک ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے ۔
پیراگراف نمبر 2
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کیس سے متعلق عدالت کے سامنے موجود تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ یہ از خود نوٹس مفاد عامہ اور صحافتی برادری سمیت پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے متعلق ہے اس حقیقت پر کسی نے بھی سوال نہیں اٹھایا۔ حقیقت میں 5 دسمبر 2022 کو ارشد شریف کے قتل کے بارے میں نوٹ پر موجودہ ازخود نوٹس کا آغاز ہوا اس نوٹ میںیہ کہا گیا تھا کہ 23 اکتوبر 2022 کو ارشد شریف کے قتل کے بعد صحافیوں اور عام عوام کی طرف سے 5 ہزار سے زائد خط موصول ہوئے تھے جن میں ارشد شریف کے معاملے کی سکروٹنی کی استدعا کی گئی تھی اس کے باوجود عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 6 دسمبر 2022 کو ارشد شریف کے قتل کا اس وقت ازخود نوٹس لیا جب یہ واضح ہو گیا کہ کیس کی تحقیقات میں بہت کم پیش رفت ہو رہی ہے عدالت کا ازخود نوٹس لینے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ارشد شریف کے قتل کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور عدالت اپنے اس مقصد کے ساتھ ابھی تک کھڑی ہے۔
پیراگراف نمبر 3
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے 2 پیپر بکس نمبر CMA-NO. 983/2023اور CMA-NO. 1385/2023 پیش کیںجس میں سےپہلی سی ایم اے سپیشل جے آئی ٹی کی رپورٹ ہے جس میں عدالت کی طرف سے 13 فروری 2023 کو اٹھائے گئے 3 سوالات کا جواب دیا گیا ہے ۔ دوسری سی ایم اے سیکرٹری وزارت داخلہ کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ پر مشتمل ہے جس میں ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے کینیا کے حکام سے تعاون کے لئے کئے گئے اقدامات کی تفصیلات دی گئی ہیں.
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 22 فروری 2023 کو کینیا اور متحدہ عرب امارات کے حکام کو باہمی قانونی معاونت کی ترمیم شدہ درخواستیں بھجوائی گئی ہیں تاہم دونوں ممالک سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا اس کے باوجود انہوں نے مزید بتایا کہ 15 مارچ 2023 کو کینیا کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر خارجہ کو بتایا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے کینیا کے حکام کو بھجوائی گئی درخواستوں پر ایک ہفتے کے اندر جواب بھجوایا جائے گا.
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آخر میں کہا کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے نے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کی معاونت لینے کے لئے مختلف طریقہ کار کی نشاندہی کی ہےاس کے باوجود وزرات خارجہ نے سفارش کی ہے کہ اس سطح پراقوام متحدہ سے معاونت جیسی کوئی کارروائی شروع نہ کی جائے کیونکہ کینیا کی حکومت نے اس معاملے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے
پیراگراف نمبر 4
یہ عدالت واضح کرتی ہے کہ ارشد شریف کے قتل کا معاملہ انتہائی حساس ہے جس میں غیر ملکی حدود شامل ہیںجس کے نتیجے میں فوری طور پر نتائج حاصل کرنا ممکن نہیںاگر اس معاملے کی صرف پاکستان کی حدود میں تحقیقات کی جائیں تو یہ درست نہیں ہو گا تاہم عدالت تحقیقات کے حوالے سے گزشتہ چند ماہ میں ہونے والی پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرتی ہے.
عدالت نے لکھا ہے کہ حکومت اورسپیشل جوائینٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو 3 ہفتے کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ وہ تحقیقات کو آگے بڑھا سکیں۔ عدالت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر تحقیقات کو تیز کرنے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے تو عدالت ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کینیا کی حکومت کے ساتھ میوچل لیگل اسسٹنس کے درست طریقہ کار کی نشاندہی کریںاور کینیا کے حکام کی طرف سے 22 فروری کو پاکستان کی طرف سے بھجوائے گئی درخواستوں پر ملنے والے جواب سے عدالت کو آگاہ کریں۔
پیراگراف نمبر 5
کیس کی سماعت اپریل میں ہو گی۔