کراچی (ای پی آئی)احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان کے خلاف نیب ریفرنس واپس نیب کو بھیجنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیاہے ۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس واپس نیب کو منتقلی کی درخواست پر فیصلہ 30 مئی کو سنایا جائے گا۔احتساب عدالت میں سابق ایم ڈی پی ایس کی غیر قانونی تعیناتی کے ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی و دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے ریفرنس واپس نیب کو بھیجنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس واپس نیب کو منتقلی کی درخواست پر فیصلہ 30 مئی کو سنایا جائے گا۔ ملزمان کے وکیل نے موقف دیا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بعد اب اس عدالت کو سماعت کا اختیار نہیں ہے۔ درخواست شیخ عمران الحق اور یعقوب ستار کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں موقف اپنایا کہ ملزمان کے خلاف 5 سو ملین سے کم کی کرپشن کا الزام ہے۔
سابق وزیر اعظم و مسلم لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں ایسی مثال نہیں کہ ایک آدمی جو کرپشن کے الزام میں ریمانڈ پر ہو اسکو سپریم کورٹ بلائے اور ضمانت دے۔ صرف ضمانت نہیں بلکہ تین کمرے کا گیسٹ ہاوس دیا گیا۔ اعلی ترین عدالت ملزمان کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔
مسلم لیگ ن نے نیب کا ریمانڈ بھی کاٹا ہے اور جیلیں بھی۔ تب عدالتیں کہاں تھیں۔ عمران خان نے 190 ملین پانڈ کابینہ کے فیصلے کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں دیدیا۔ پورے معاملے کی کوئی سمری نہیں، ریکارڈ میں کیا ہے کچھ نہیں پتہ۔ اس کو تحفظ دینے والی سپریم کورٹ ہے۔ عمران خان کو عدالتی احاطے سے گرفتار کرنا غلط تھا۔ مجھے قانون کا نہیں پتہ یہ روایات نہیں۔ سپریم کورٹ کو آسان راستہ بتاتے ہیں نیب کو ختم کردیا جائے۔ ہمارے خلاف بنائے گئے کیسز میں کوئی حقیقت نہیں۔ میں نے سو تفتیشیں بھگتی ہیں، عمران خان کے خلاف تفتیش نہیں ہونے دیتے۔ عمران خان سامنے آئیں اور تفتیش کا سامنا کریں۔
یہ ممکن نہیں نواز شریف، یوسف گیلانی کے لئے انصاف الگ ہو اور عمران خان کے لئے اور ہو۔ تین کمرے کے گیسٹ ہاوس میں کیا تفتیش ہوگی۔ ہمیں پتہ ہے آج سپریم کورٹ کیا کرے گی۔ جج کو بلیک میلنگ کرکے فیصلوں پر سو موٹو کون لیگا۔ جب نیب کے ملزموں کو خوش آمدید کریں گے تو عدالتوں پر کون یقین کرے گا۔ کیا دوسرے ملزمان عمران خان سے کم پاکستانی ہیں؟ سپریم کورٹ کو اپنے رویے ہر عوام سے معافی مانگنی چاہیئے۔ فوج کے ہیڈ کوارٹرز محفوظ نہیں سو موٹو لینا چاہئے تھا۔ جب آئین کی دھجیاں اڑانے والے جج ہوں وہاں کچھ باقی نہیں رہ سکتا۔
ملزم کو خوش آمدید کہنا عدالت کا کام نہیں ہے۔ عمران خان کو عدالت کے بجائے کہیں اور سے گرفتار کرنا چاہیئے تھا۔ سپریم کورٹ کے باہر دھرنا نہیں احتجاج ہے۔ عوام کو حقائق بتانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس بندیال صاحب تین ماہ بعد گھر جائیں گے۔ جو نقصان ملک کو پہنچایا گیا اسکا ازالہ کیسے ہوگا۔ سپریم کورٹ کی سیکیورٹی کا انتظام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کور کمانڈر ہاس میں اگر فوج گولی چلاتی تو کہا جاتا نہتے شہریوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ یہ بہت مشکل فیصلہ تھا۔ اداروں سے اختلاف نہیں اداروں کے رویے اور فیصلوں سے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ججز نے بعد میں کہا کہ دبا میں فیصلہ دیا۔ کیا اعتراف سے ذوالفقار بھٹو واپس آسکتے ہیں؟ 190 ملین پانڈ کا حساب دینا نہیں چاہتا۔ جو فیصلہ ماورائے آئین و قانون ہوگا تاریخ اس کو غلط ثابت ہوگا۔ انصاف کا دوہرا نظام نہیں چل سکتا۔ سو موٹو کی روایت سپریم کورٹ نے ڈالی ہے۔


