اسلام آباد(عابدعلی آرائیں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس اور ایون فیلڈاپارٹمنٹس کیس میں چار سال سے مفرور سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت میں 26 اکتوبر تک توسیع کرتے ہوئے نیب کو نوٹس جاری کرکے2روز میں تحریری جواب طلب کرلیا ہے ۔سابق وزیراعظم نے طویل غیر حاضری کے بعد عدالت عالیہ کے سامنے سرنڈر کیا تو دورکنی بینچ کے رکن جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم قانون کے مطابق چلیں گے،آپ نے عدالت کو قانونی دلائل سے بتانا ہے کیوں اپیلیں بحال کی جائیں،آپ کو اپنی طویل غیرحاضری کے معاملے میں بھی عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ساڑھے تین بجے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے سخت سیکورٹی میں انہیں تین بج کر 38منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا ۔سابق وزیراعظم عمران خان کی طرح نواز شریف کو بھی داخلی دروازے کے باہر ہی گاڑی سے اتارا گیا اور وہ وہاں سے پیدل احاطہ عدالت میں داخل ہوئے اس دوران میڈیا کے نمائندگان نے ان سے سوالات کرنے کی کوشش کی مگر سیکورٹی اہلکاران نے میڈیا کے نمائندوں کو قریب جانے نہیں دیا اور نواز شریف سیکورٹی حصار میں چلتے ہوئے کمرہ عدالت تک پہنچے۔

کمرہ عدالت میں جاکر ایک نشست پر براجمان ہوئے تواس موقع پرن لیگی وکلا اوررہنما سابق وزیراعظم کے ساتھ تصاویراور ویڈیوز بناتے رہے ۔وکلا اور دیگر لیگی رہنماؤں کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری ایس او پی ہوا میں اڑا دیئے گئے رجسٹرار آفس نے مجموعی طور پر 60 افراد کے داخلے کی اجازت دی تھی جن میں 30صحافی اور دونوں فریقین کے 15، 15 وکلا کو اجازت دی گئی تھی لیکن کمرہ عدالت میں 3 سو سے زائد افراد داخل ہوگئے، جس سے عدالت کی جانب سے جاری کئے گئے پاس بے وقعت ہوگئے لیگی رہنماؤں اور وکلا نے کمرہ عدالت کے نظم و ضبط کی دھجیاں بکھیر دیں کافی دیر تک اسلام آباد پولیس عدالتی ڈیکورم کو بحال نہ کراسکی عدالتی عملہ موبائل فون بند کرانے کی ہدایت کرتا رہا ۔

ایک صحافی نے نواز شریف سے سوال کیا کہ کیاالیکشن میں حصہ لیں گے؟ تو نواز شریف مسکرا دیئے ، صحافی نے جب سوال کیا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اچھا ہے؟ تو نواز شریف نے ججز کی کرسیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ آرہی ہے

چار بجے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو مسلم لیگ ن کے سینیٹراعظم نذیرتارڑ ایڈووکیٹ روسٹرم پر آگئے چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ یہ کیا ہے ؟اعظم نذیرتارڑ نے جواب دیا کہ دو درخواستیں اپیلیں بحال کرنے کی ہیں احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کا اشتہاری کا اسٹیٹس ختم کر دیا ،

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے درخواستوں سے متعلق بتائیں ۔اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ عدالت ہماری اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں پہلے سنے ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہم آپ کے دلائل سے مطمئن نہ ہوئے تو پھر؟ اعظم نذیرتارڑ نے جواب دیا کہ میں دلائل دوں گا عدالت کو مطمئن کروں گا آسان الفاظ میں یہ اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی ہم نے اس پر نوٹس جاری کر کے نیب کو سننا ہے،کیونکہ اپیلوں کی بحالی روٹین کا معاملہ نہیں،آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ آپ عدالت سے غیر حاضر کیوں رہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ہم نے آپ کی درخواستیں پڑھی ہیں ،جب ڈیکلریشن اس قسم کا دیا جائے تو کیا وہ پھر کہہ سکتا ہے اپیلیں بحال کریں ؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے جیسٹیفائی کرنا ہے کہ کیوں وہ اشتہاری ہوئے ؟ وہ عدالت کیوں پیش نہیں ہوتے رہے؟جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ایک بات آپ کو کلئیر کر دوں آپ قانون کے مطابق جائیں گے ۔ اس پراعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے سے پہلے کی صورت حال مختلف تھی ،چیف جسٹس نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 10 اے میں حیات بخش کیس کا فیصلہ بھی ہے ،
ا
عظم نذیرتارڑ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ نواز شریف جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں رہے وہ عدالتی اجازت سے بیرون ملک گئے اورہم عدالت میں میڈیکل رپورٹس پیش کرتے رہے ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا تھا اور نواز شریف دوسری عدالت چلے گئے ، نواز شریف کی اپیل یہاں زیرسماعت تھی لیکن آپ دوسری عدالت گئے ؟ اعظم نذیرتارڑ نے جواب دیا کہ دوسری عدالت سے ریلیف سے متعلق ہم نے اس عدالت کو آگاہ کیا تھااپیل یہاں پینڈنگ تھی۔

جسٹس میاں گل نے کہاکہ ہم نے دوسرے فریق یعنی استغاثہ کو نوٹس کرکے سنیں گے، اعظم نذیرتارڑ نے موقف اپنایا کہ ہم فوجداری کیس میں کھڑے ہیں اس میں حقوق کی بات اہم ہے، عدالت حفاظتی ضمانت میں توسیع کردے کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے (یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے) ، اعظم نذیر تارڑنے استدعا کی کہ نواز شریف کے حفاظتی ضمانت کے آرڈر میں کچھ روز کی توسیع کردیں ، اس دوران پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور موقف اپنایا کہ اگر حفاظتی ضمانت میں توسیع کردی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ میں ان کیسز میں پانچ سال بعد واپس آیا ہوں ،پانچ سال بعد سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیا یہ وہی نیب ہے ،خواجہ حارث ٹرانسفر کی درخواست پر دلائل دے رہے تھے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹرکو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیاآپ کو پتہ ہے عام عوام کا کتنا وقت اس کیس میں لگا ؟بڑا آسان ہے کہ عدالت میں الزام لگایا جائے ،ہمارامزید ٹائم کیوں ضائع کرتے ہیں ، کیا اب نیب یہ کہے گی کہ کرپٹ پریکٹسز کا الزام برقرار ہے اور ان کو چھوڑ دیں ، شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے دوبارہ پوچھتے ہیں کیا آپ گرفتار کرنا چاہتے ہیں ؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ ہم نواز شریف کو گرفتارنہیں کرنا چاہتے اس پر جسٹس میاں گل نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیاکہ کیا نیب کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کا کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کا الزام برقرار ہے لیکن نواز شریف کو چھوڑ دیں؟

عدالت نے استفسار کیاکہ کہ کیانواز شریف کی ضمانت میں توسیع پر کوئی اعتراض ہے؟ تو نیب حکام نے جواب دیا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں جس پر عدالت نے نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں 26 اکتوبر تک توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی۔ کیہس کی سماعت چار بج کر 35منٹ تک جاری رہی.

یاد رہے کہ عدالت کی جانب سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ اس کیس کی سماعت دن ساڑھے بارہ بجے ہوگی لیکن بعد میں وقت تبدیل کرکے تین بجے کردیا گیا۔ تون لیگی وکلا اور رہنما کمرہ عدالت میں پہنچ گئے توکلیئرنس کیلئے میڈیا سمیت سب کو عدالت سے باہر نکال کربم ڈسپوزل سکواڈ سے اس کی سرچنگ کرائیگئی اور کلیئرنس کے بعد کمرہ عدالت دوبارہ کھولا گیا ۔ شاہراہ دستور پر سارا دن سیکورٹی سخت رہی اس کے باوجود مسلم لیگ ن کے درجنوں کارکنان عدالت کے باہر پہنچے اور نعرہ بازی کرتے رہے ، عدالت میں سابق وزیراعظم میاں شہبازشریف ، حنا پرویز بٹ ، مریم اورنگزیب ،حنیف عباسی ، طارق فضل چوہدری، چوہدری تنویر، امیر مقام سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔