اسلام آباد (ای پی آئی ) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے وفاقی ترقیاتی ادارے( سی ڈی اے) کے ریکارڈ سے شہریوں کو الاٹ کئے گئے پلاٹس کی اصل فائیلیں غائب ہونے کی وجہ سے شہریوں کو شدیدمشکلات کا سامنا ہے ، اپنی جائیداد کے انتقال کیلئے شہری در بدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔
انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سی ڈی اے کے سیکٹرز میں دو قسم کے پلاٹس ہوتے ہیں ایک وہ پلاٹ ہیں جوسی ڈی اے آکشن کے ذیعے فروخت کرتا ہے اور دوسرے وہ پلاٹس ہیں جو متاثرہ شہریوں کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کئے گئے تھے متاثر ہ شہری وہ لوگ ہیں جن کی جائیداد سی ڈی اے نے ایکوائر کی تھی جس کے بدلے میں انہیں سی ڈی اے کی طرف سے پلاٹس دیئے گئے تھے ۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ متاثرہ شہریوں کو دیئے گئے پلاٹس کی بہت سی فائیلیں لیڈ ڈائریکٹوریٹ کے ریکارڈ سےغائب ہوچکی ہیں ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ یا تو یہ فائلیں بوگس ہیں یا ان میں بے ضابطگیاں ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ پلاٹ دوسری پارٹیوں کو فروخت کیے گئے تھے اس لیے ریکارڈ غائب ہونے کی وجہ سے ان خریداروں کو مشکلات کا سامنا تھا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ یہ سی ڈی اے میں ایک قدیم مسئلہ ہے۔
ذرائع نے الزام لگایا کہ بعض اوقات سی ڈی اے اہلکار پراپرٹی ڈیلرز کے ساتھ ساز بازکرکے ان فائلوں کو اس وقت تک غائب کر دیتے ہیں جب تک کہ ان کے من پسندلوگوںکی ان اہم عہدوں پر تقرری نہیں ہو جاتی جو منظوری دیتے ہیں۔
دوسری جانب بعض اوقات بوگس فائلوںکی بنیاد پر پلاٹوں کی الاٹمنٹ کو چھپانے کے لیےبھی فائلیں غائب کردی جاتی ہیں۔
ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ حال ہی میں سی ڈی اے مینجمنٹ نے ایکشن لیتے ہوئے فراڈکے ذریعے پلاٹس کی الاٹمنٹ کے معاملے کی انکوائری کا آغاز کردیاہے ایف آئی اے کی مدد سے یہ انکوائر ی سال 2017 سے 2023کے دوران کی گئی الاٹمنٹ کے حوالے سے شروع کی گئی ہے ۔ اس تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی ڈی اے کے ملوث افسران نے شہادتوں کو ٹیمپر کرنے کی کوشش کی اور فائیلیں سرکاری ریکارڈ سے غائب کردی ہیں۔
سات رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم
دریں اثناء سی ڈی اے ک ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل نے اس مسئلے کا نوٹس لیا اور سی ڈی اے چیئرمین انوارالحق کی منظوری سے ایک سات رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس میں انٹیلی جنس بیورو اور ایف آئی اے کی نمائندگی بھی ہے یہ کمیٹی غائب فائیلوں کے معاملے کا جائزہ لے گی۔
سی ڈی اے کے ڈائریکٹر سیکورٹی کی صدارت میں قائم کمیٹی میں سی ڈی اے کے ڈائریکٹرلینڈ ، پلاننگ اور قانونی ونگ کے نمائندوں سمیت آئی بی اور ایف آئی اے کے نمائندے شامل ہیں ،
6 نومبر کو جاری کئے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لینڈ اینڈ ری ہیبیلیٹیشن ڈائریکٹوریٹ کو متعدددرخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ اپنی جائیداد ٹرانسفر نہیں کروا پارہے کیونکہ سرکاری ریکارڈ سے ان کی جائیداد یا پلاٹس کی فائیلیں غائب ہیں اور یہ فائیلیں دوبارہ نہیں بنائی جاسکتیں کیوںکہ ان کو الاٹمنٹ کا ریکارڈ ہی غائب ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اس طرح کے کیسز میں عام طور پر سی ڈی اے کے سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے انکوائری کرائی جاتی ہے جس سےخصوصا عام شہریوں کو کوئی فائد نہیں ملتا۔ اس کے نتیجے میں ان کودربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں حالانکہ ان شہریوں کااس میں کوئی قصور نہیں ہوتا ۔
رپورٹ کے مطابق حال ہی میں سیکرٹری داخلہ نے بھی ایسے واقعات کانوٹس لیا ہے اورانہوں پریشانی کے شکار شہریوں کوریلیف دینے کےلئے مسئلہ حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔
معاملے کی تحقیقات کےلئے قائم کی گئی کمیٹی کے قواعدو ضوابط کے مطابق کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ کل کتنی فائیلیں ریکارڈ سے غائب ہیں؟ کمیٹی مستقبل میں فائیلیں غائب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے،ذمہ دار اہلکاران کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات/ملوث اہلکاران کیخلاف انضباطی یا مجرمانہ کارروائی تجویز کر سکتی ہے۔کمیٹی عام شہریوں کو اس مسئلے کی وجہ سے درپیش مسائل کا حل بھی تجویز کرسکتی ہے ۔خط میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی ان پرائیویٹ افراد کے خلاف اقدامات یاکارروائی بھی تجویز کرسکتی ہے جن کے ذریعے تبادلے ہوئے ہیں۔