سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہ دینے سے متعلق فیصلے کا تفصیلی حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے 12 اور 13 جنوری 2023 کو الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت مکمل کر کے مختصر حکم جاری کیا تھا جس کی تفصیلی وجوہات 12 روز بعد آج جاری کی گئی ہیں۔ تفصیلی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا ہے جو 38 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے کا آغاز کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا ہے کہ یہ مقدمہ سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ اس کا آغاز ایک سیاسی جماعت کے بانی ممبران میں سے ایک رکن کے سینئر وکیل کی بات سے کیا جائے وہ سینئر وکیل ان فریقین کے وکیل تھے جو اس عدالت کے سامنے آئے ہیں۔

انٹرا پارٹی انتخابات کسی بھی جماعت کے اندر جمہوری کلچر کو فروغ دینے کے لئے ہر سطح پر ہونے چاہئیں ایسے انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں سیاسی جماعتیں اپنے رہنماؤں کی جاگیر نہیں ہونی چاہئیں سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابی عمل متعارف کرانے سے جمہوری کلچر فروغ پائے گا اور اس طرح سیاسی جماعتوں کے آگے بڑھنے اور مختلف عہدوں کے لئے قیادت پیدا کرنے کے بڑے مواقع پیدا ہوں گے۔ موجودہ حکمران ایلیٹ نے جان بوجھ کر سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات سے گریز کیا ہے اور یہ لیڈرز سیاسی جماعتوں کو اپنی خواہشات کے مطابق چلا رہے ہیں۔
وکیل کا یہ قول شئیر کرنے کے بعد عدالت نے مقدمے کا بیگ گراؤنڈ فیصلے میں شامل کیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کی طرف سے 22 دسمبر2023 کو دئیے گئے حکم اور اس کے بعد پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ 13 جنوری 2024 کو الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرنے کا مختصر آرڈر رات کو تاخیر سے جاری کیا گیا تھا کیونکہ عام انتخابات 8 فروری کو رکھے گئے ہیں اور الیکشن کمیشن نے الیکشن پروگرام بھی جاری کر رکھا ہے اگر اس کیس کے فیصلے میں تاخیر کی جاتی تو الیکشن شیڈول ڈی ریل ہو سکتا تھا۔

عدالت نے تفصیلی وجوہات کا آغاز کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017 کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایکٹ ایک مفصل قانون سازی ہے جس میں الیکشن سے متعلق دیگر تمام قوانین کو ختم کرکے ایک قانون بنایا گیا ہے اس قانون کی شق 241 کے ذریعے 8 قوانین کو ختم کیا گیا عدالت نے ان 8 قوانین کے نام بھی لکھے ہیں۔

عدالت نے الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی کو اپنا آئین بنانے کا حق دیا ہے شق 201 میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا طریقہ کار بھی دیا گیا ہے۔ عدالت نے شق 201 کو اپنے فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 208 میں پارٹی عہدے داروں کے الیکشن سے متعلق واضح طور پر بتایا گیا ہے عدالت نے الیکشن ایکٹ کی شق 208 کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا ہے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد منتخب عہدیداران پارٹی کے امور چلانے کے مجاز ہوتے ہیں۔ انتخابات کے بعد الیکشن ایکٹ کی شق 209 کے تحت سیاسی جماعت ایک سرٹیفیکیٹ فراہم کرتی ہے کہ اس نے اپنے پارٹی آئین اور الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابات کرائے ہیں عدالت نے الیکشن ایکٹ کی شق 209 کو بھی اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے۔

عدالت نے انتخابی نشان حاصل کرنے کی اہل جماعت سے متعلق شق 2012 بھی فیصلے میں شامل کی ہے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ ان تمام شقوں کو دیکھنے کے بعد یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ ا نٹرا پارٹی الیکشن کرانا ہر پارٹی کا مینڈیٹ ہے اور اگر یہ انتخابات نہیں کرائے جاتے تو اس پر 2 لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے لیکن یہ جرمانہ 1 لاکھ سے کم نہیں ہو گا۔ عدالت نے انتخابات نہ کرانے پر شوکاز نوٹس جاری کرنے کا سارا عمل اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق اقدامات نہیں کر رہا ہم نے اس معاملے کا جائزہ لیا کہ الیکشن کمیشن نے اس معاملے کو کیسے آگے بڑھایا، تحریک انصاف نے قانون میں دئیے گئے وقت کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے جس پر الیکشن کمیشن نے 24 مئی 2021 کو پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لئے خط لکھا لیکن الیکشن کمیشن کی یہ تجویز نظر انداز کر دی گئی اس کے بعد 27 جولائی 2021 کو الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس جاری کیا اس شوکاز نوٹس کے جواب سے واضح ہوتا ہے کہ مقررہ مدت کے دوران انتخابات نہیں کرائے گئے اور انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے مزید وقت کی درخواست کی گئی جو 1 سال تک بڑھا دی گئی ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ اس وقت یہ مؤقف نہیں اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان واپس لینےکا اختیار نہیں ہے یا متعلقہ شق غیر آئینی ہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 24 اگست 2021 تک پاکستان تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی الیکشن کے لئے توسیع دی ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ جب الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس جاری کئے گئے اس وقت وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور عمران احمد خان نیازی وزیراعظم تھے۔ پی ٹی آئی کے پاس پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومت تھی اس لئے الیکشن کمیشن پر بعد میں لگائے گئے الزامات ناقابل فہم ہیں۔

عدالت نے لکھا ہے کہ نوٹسز جاری کرنے اور 1 سال کا ٹائم دینے کے باوجود انتخابات نہیں کرائے گئے تو 27 مارچ 2022 کو الیکشن کمیشن نے دوبارہ یاددہانی کا خط لکھا الیکشن کمیشن نے 16 اپریل 2022 کو دوسرا خط لکھا اس کے بعد 21 مئی 2022 کو حتمی نوٹس جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی ہدایت کی گئی جس کے جواب میں 8 جون 2022 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے جن کو الیکشن کمیشن نے قبول نہیں کیا اور 22 جون 2022، 19 جولائی 2022 اور 4 اگست 2022 کو خط لکھ کر خامیوں کی نشاندہی کی اس دوران الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف کے درمیان خط و کتابت کا ذکر کرتے ہوئے عدالت نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 2 اگست 2023 کو شوکاز نوٹس جاری کئے لیکن انتخابات نہیں کرائے گئے الیکشن کمیشن نے 13 ستمبر 2023 اور 23 نومبر 2023 کو مؤقف سن کر حکم جاری کیا کہ 20 دن کے اندر انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جائیں۔

عدالت نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن کا وہ حکم بھی فیصلے میں شامل کیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے 2019 کے آئین کے مطابق انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ فیصلے میں عدالت نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان کے لئے نااہل قرار دینے سے قبل مناسب نوٹس دئیے یا نہیں؟ عدالت نے لکھا ہے کہ اس کیس میں الیکشن کمیشن، حکومت اور نہ کسی سیاسی جماعت میں سے کسی نے بھی تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کی استدعا نہیں کی ۔ الیکشن کمیشن نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی بار انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لئے پی ٹی آئی کو کہا لیکن انہوں نے انتخابات نہ کرانے کے نتائج کو نظر انداز کیا عدالت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے تمام نوٹسز اور الیکشن کمیشن کے احکامات کو فیصلے کا حصہ بنایا ہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کی طرف سے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستوں کا حوالہ بھی دیا ہے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کے احکامات فیصلے میں شامل کئے ہیں۔
عدالت نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 23 نومبر 2023 کو جاری کیا گیا حکمنامہ لاہور ہائیکورٹ میں عمران خان نے چیلنج کیا عدالت نے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن میں کی گئی استدعا کو فیصلے میں شامل کیا ہے جس میں پی ٹی آئی کی طرف سے 8 جون 2022کے انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم نہ کرنے کے فیصلے کو کالعدم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔عدالت نے لاہور ہائیکورٹ میں عمران خان کی درخواست پر ایک رکنی بینچ کی سماعت اور اس کے بعد 5 رکنی بینچ کے سامنے ہونے والی سماعت کا ذکر بھی کیا ہے

عدالت نے لکھا ہے کہ یہ کیس ابھی تک لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے جب ایک کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا تو دوسرا کیس پشاور ہائیکورٹ میں 9 دسمبر 2023 کو دائر کیا گیا۔ پشاور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں کی گئی استدعا کو بھی فیصلے میں شامل کیا گیا ہے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں ایک تیسرا مقدمہ بھی دائر کیا گیا جو 3 جنوری 2024 کو خارج کر دیا گیا اور اس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے جو ریلیف مانگا گیا ہے اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک ایکٹ کی کچھ شقوں کو آئین کے آرٹیکل 17 سے متصادم قرار نہیں دیا جاتا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس سوال کا جواب بھی دیا ہے کہ کیا پارٹی ایک ہی کیس 2 مختلف عدالتوں میں لے جا سکتی ہے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ کوڈ آف سول پروسیجر 1908 کی شق 10 کے مطابق کوئی بھی جماعت ایک ہی معاملہ دو مختلف عدالتوں میں نہیں لے جا سکتی وہ معاملہ اسی عدالت میں جائے گا جس میں پہلے سے معاملہ اٹھایا گیا ہو کیونکہ اس سے یہ امکان ہوتا ہے کہ 2 متضاد فیصلے آ جائیں گے۔

پشاور ہائیکورٹ نے بھی اس پہلو کو یکسر نظر انداز کیا کیونکہ لاہور ہائیکورٹ میں 5 رکنی بینچ یہ معاملہ سن رہا تھا۔

عدالت نے فیصلے میں جمہوریت اور آئین کے آرٹیکل 17 سے متعلق لکھتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریت اس کیس کی بنیاد ہے اور جمہوریت ہی وہ بنیاد ہے جس کی بناء پر پاکستان کا وجود موجود ہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے ان 14 شکایت کرنے والے ارکان کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان افراد کو طویل عرصے سے بطور امیدوار پارٹی انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ انہیں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ پارٹی کے ممبر نہیں ہیں لہذا وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تاہم انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ عرصہ دراز سے پی ٹی آئی کے ساتھ منسلک ہیں۔ عدالت نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہی ہے کہ وہ پارٹی کے ممبران نہیں ہیں یا انہوں نے کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے یا ان کی رکنیت معطل کی گئی کوئی بھی چیز اس ضمن میں ریکارڈ پر نہیں لائی گئی اگر کسی شخص کی رکنیت معطل یا اسے پارٹی سے نکالا جاتا ہے تو الیکشن ایکٹ کی شق 205 میں اس کا طریقہ کار دیا گیا ہے۔ بار بار پوچھنے کے باوجود تحریک انصاف کی طرف سے ایسا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا عدالت نے الیکشن ایکٹ کی شق 205 کو بھی اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بار بار طلب کرنے کے باوجود علامتی انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کے بارے میں کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ پشاور ہائیکورٹ میں بھی جو کیس دائر کیا گیا اس میں بھی کاغذات نامزدگی شامل نہیں کئے گئے تھے۔ خود کو فائدہ پہنچانے والی چند دستاویزات کے علاوہ ایسی کوئی چیز اس عدالت میں بھی جمع نہیں کرائی گئی جس سے ظاہر ہو کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے ۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اور اکبر ایس بابر سمیت دیگر فریقین کے وکلاء نے انٹرا پارٹی الیکشن میں 10 خامیوں کی نشاندہی کی۔ عدالت نے فیصلے میں سماعت کے دوران انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق ویب سائیٹ پر معلومات دیکھنے کے عمل کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ویب سائیٹ پر بھی کوئی مواد دستیاب تھا اور نہ ہی پشاور میں چمکنی کے مقام پر انتخابات کا ذکر کیا گیا تھا اس کے بارے میں معلومات مل سکیں۔اس لئے اس امر سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہی نہیں اور نہ ہی پی ٹی آئی کے ارکان کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بلامقابلہ آتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے منتخب تسلیم نہیں کیا جائے گا لیکن جب ہر بندہ ہی بلامقابلہ بغیر کسی انتخابی ثبوت کے بلامقابلہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ معاملہ مختلف ہوتا ہے۔

عدالت نے لکھا یہ کہ گوہر علی خان خود کو چئیرمین جبکہ عمر ایوب خود کو پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری ظاہر کرتے ہیں لیکن ریکارڈ پر ایسی کوئی چیز بھی موجود نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ ان اہم عہدوں کا دعوا کیسے کر رہے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں عمران خان نے دعوا کیا ہے کہ وہ پارٹی کے چئیرمین ہیں۔ اگر انتخابات نہیں ہوئے تو ان اہم پارٹی عہدوں پر قبضہ کیسے کیا جا رہا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل کو شامل کیا ہے ۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا ہے عدالت نے پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کے دلائل کو شامل کرنے کے بعد آئین کے آرٹیکل 17 اور اس میں کی گئی ترامیم کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا ہے۔

عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کی طرف سے10 جنوری کو جاری کئے گئے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ 2021 میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اس لئے وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ الیکشن کمیشن نے اسے نشانہ بنایا اس کے باوجود ہم نے خود کو مطمئن کرنے کے لئے جاننا چاہا کہ کوئی امتیازی سلوک تو نہیں کیا گیا یہ ظاہر ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 13 دیگر رجسٹرڈ پارٹیوں کے خلاف بھی سخت احکامات جاری کئے ہیں اور وہ احکامات پی ٹی آئی کے خلاف دئیے گئے احکامات سے زیادہ سخت ہیں۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے آل پاکستان مسلم لیگ کی رجسٹریشن ہی منسوخ کر دی ہے اور سپریم کورٹ نے 12 جنوری کو الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات یقینی بنانا چاہتا تھا صرف سرٹیفیکیٹ پیش کر دینا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس کیس میں بادی النظر میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق شواہد پیش نہیں کئے گئے ۔ پارٹی کے ممبران نے الیکشن کمیشن سے شکایت کی تھی کے انتخابات نہیں ہوئے ۔ ان شکایت کرنے والے افراد کو صرف یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ پارٹی ممبران نہیں ہیں اس لئے پارٹی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے عدالت نے لکھا ہے کہ اگر کسی رکن کو پارٹی سے نکالا جاتا ہے تو اس کا طریقہ کار ایکٹ کی شق 205 میں دیا گیا ہے لیکن ان ممبران کو نکالنے کے حوالے سے کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جمہوریت پاکستان کی بنیاد ہے جسکا اہم پہلو یہ ہے کہ ہر شخص عام اور انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے اس سے کم کوئی بھی چیز ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن ایک کمیشن آئینی ادارہ ہے اور الیکشن ایکٹ کی شق 208 الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشنز کا معاملہ دیکھ سکتا ہے اور پارٹی کے انتخابات 5 سال کے عرصہ کے دوران کرانے ضروری ہیں قانون یہ بھی کہتا ہے کہ سیاسی جماعت کے ہر رکن کو کسی بھی عہدے کے لئے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان جب کاغذات نامزدگی لینے گئے تو انہیں کاغذات نامزدگی فراہم نہیں کئے گئے اور نہ ہی پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا گیا ۔ پی ٹی آئی سیکرٹیریٹ کی طرف سے جو نوٹس جاری کیا گیا اس میں بتایا گیا کہ انتخابات پشاور میں ہوں گے لیکن کسی مقام کا ذکر نہیں تھا بعد میں انتخابات کے انعقاد کا مقام پشاور کے نزدیک ایک گاؤں چمکنی میں منتقل کر دیا گیا۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے لاہور اور پشاور ہائی کورٹس میں الیکشن ایکٹ کی شق 215 کی ذیلی شق 5 کو چیلنج ہی نہیں کیا گیا لیکن فاضل ججز کی طرف سے دی گئی آبزرویشنز کے ذریعے اس قانون کو غیر مؤثر کیا گیا تاہم کوئی بھی شق غیر آئینی قرار نہیں دی گئی یہ امر بھی حیران کن ہے کہ اس ڈیکلئیریشن کی استدعا بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ فیصلہ دیا گیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد ہوا ہے صرف یہ کہہ دیا گیا کہ یہ انتخابات قانون کے مطابق ہوئے ہیں۔ اگر انتخابات قانون کے مطابق ہونا ثابت ہو جاتا تو الیکشن کمیشن کو یہ جواز دینا پڑتا کہ اس نے کیوں ایک سیاسی جماعت کا قانونی حق سلب کیا۔ لیکن اگر انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تو ایسی صورت میں انتخابات کے حوالے سے فوائد کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ہم پشاور ہائیکورٹ کے فاضل ججز کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اگر پشاور ہائیکورٹ کی یہ تشریح قبول کر لی جائے تو الیکشن ایکٹ کی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق شقیں غیر مؤثر ہو جائیں گی ان تمام وجوہات کی بناء پر الیکشن کمیشن کی پٹیشن منظور کی جاتی ہے اور پشاور ہائیکورٹ کی طرف سے جاری حکم کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 کا حکم برقرار رہے گا۔