اسلام آباد(عابدعلی آرائیں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچ لاپتہ طلبا کے حوالے سے کیس میں اہم فیصلہ جاری کیا ہے.

ایمان زینب حاضر مزاری کی جانب سے وفاق پاکستان کیخلاف دائر رٹ پٹیشن پر 19فروری کوہونے والی سماعت کا حکم نامہ چودہ صفحات اور9 پیراگراف پر مشتمل ہے۔

فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ تیرہ فروری کے حکم کی روشنی میں اٹارنی جنرل، وزیر قانون و انصاف احمد عرفان اسلم ،وفاقی سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی دیگر افسران کے ہمراہ پیش ہوئے تاہم وزیراعظم پاکستان ، سیکرٹری وزارت دفاع ،وزیرداخلہ اور وزیردفاع غیر حاضر ہیں ۔

جب اٹارنی جنرل سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیراعظم کراچی میں مصروف ہیں جبکہ دیگر افسران بھی دستیاب نہیں ، عدالت نے لکھا ہے کہ نگران وزیراعظم ، وزیردفاع اور وزیر داخلہ کا کنڈکٹ انتہائی قابل مذمت ہے کیونکہ ان کی نظر میں عدالتی احکامات کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یہ بات اس سے بھی عیاں ہے کہ عدالت نے گذشتہ سماعت پر کہا تھا کہ اگر اس سماعت پر وہ حاضر نہ ہوئے تو یہ توہین ا میز عمل تصور کیا جائے گااور پھر اسی طرح ان کوڈیل بھی کیا جائے گا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت نگران وزیراعظم ، وزیردفاع، وزیرداخلہ اورسیکرٹری دفاع کیخلاف کسی بھی ایڈورس حکم جاری کرنے کے حوالے سے اس امید کیساتھ تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے کہ یہ تمام افراد کو قانون کی حکمرانی اور عدالتی کارروائی کااحترام کرینگے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے حکام نے آگاہ کیا ہے کہ چار لاپتہ بلوچ طلبا بازیاب ہوچکے ہیں لیکن جب درخواست گزار سے اس ضمن میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے موقف اپنایا کہ وہ تصدیق کرنے کے بعد ہی عدالت کو کچھ بتا سکتی ہیںاس لئے انہوں نے وقت دینے کی درخواست کی۔

درخواست گزار ایمان مزاری نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے عدالتی حکم پرہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بلوچستان سے کچھ مزید سویلینز کو اٹھالیا ہے ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جب اٹارنی جنرل سے اس ضمن میں استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اٹھائے گئے ان افراد کے نام ریکارڈ پر لائیں تاکہ متعلقہ حلقوں سے اس بارے میں پوچھا جاسکے۔

عدالت نے ایمان مزاری کی طرف سے دیئے گئے 26لاپتہ افراد کے ناموں کو بھی اپنے حکم نامہ میں شامل کیا ہے۔جن میں ٩ طلبا ہیں باقی کچھ دوسرے پیشوں سے منسلک لوگ ہیں۔ عدالت نے ایمان مزاری کی جانب سے دیئے گئے دلائل کو حکم کا حصہ بنایا ہے جن میں ایمان مزاری نے مینگل کمیشن رپورٹ اور وزارت دفاع کے حکام کے کنڈکٹ سے متعلق بات کی ہے۔

عدالت نے لکھاہے کہ ایمان مزاری نے بلوچ لاپتہ طلبا کے ورثا کے ان بیانات کا حوالہ بھی دیا جن میں انہوں نے افسران اور ریاستی اداروں کے کنڈکٹ کا ذکر کیا تھا۔عدالت نے لکھا کہ کہ صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم ، وزیرداخلہ ، وزیردفاع اور دونوں وزارتوں کے سیکرٹریز اور انکے ماتحت کام کرنے والی ایجنسیز کے حکام اپنے ان افسران کے کنڈکٹ سے متعلق جواب دینے کے قابل نہیں ہیں جو ان واقعات میں ملوث ہیں۔

فیصلہ میں لکھا گیا ہے اس عدالت نے جب استفسار کیا کہ کیا مینگل کمیشن کی روپورٹ میں لگائے گئے الزامات کا کیا جواب ہے تو اٹارنی جنرل سمیت جتنے افسران عدالت میں موجود تھیوہسب خاموش رہے کوئی اس کا جواب نہ دے سکا۔

عدالت نے لکھا ہے کہ یہ افسوسناک صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ گورننس کا مکمل نظام پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے اورگذشتہ حکومتوں ، سیاسی کھلاڑیوں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز سمیت تمام سٹیک ہولڈرز نے پاکستان کی حدود میں جبری گمشدگی جئسے سنگین جرائم پر اپنی نکھیں بند کررکھی ہیں۔

عدالت نے لکھا ہے کہ کہ وزیراعظم پاکستان سمیت تمام ریاستی حکام کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ وہ آئین پاکستان کے تحت شہریوں کی آزادی اور تحفظ کے ذمہ دارہیں اور وہ ریاست کی جانب سے ملک میں قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ان بڑے عہدوں پر موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے گذشتہ 24سماعتوں پر ان کاکنڈکٹ قانونی عمل کے غلط استعمال کی بد کلاسک مثال ہے جس میں افسران بشمول لاافسران نے اس عدالت کے سامنے پیش ہوکر باربار التوا حاصل کیا اور یقین دہانیاں کرائیں کہ متعلقہ ادارے تمام لوگوں کو بازیاب کردیں گے ۔

عدالت نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں تمام پہلوؤں کومدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ادارے، اسٹیبلشمنٹ اور محکمے اپنے ماتحت لوگوں کے جرائم کیخلاف کارروائی نہ کرکے مس کنڈکٹ کے مرتکب ہورہے ہیں اور وہ اس جبری لاپتہ افراد کے سنگین مسئلہ کو حل بھی نہیں کرنا چاہتے۔ اس مسئلہ کی وجہ سے عالمی برادی میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ یہ عدالت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ نگران وزیراعظم ، حتی کہ اگر نئی حکومت بھی بن جاتی ہے تو وہ بھی اس وقت تک اس مسئلہ کاکوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی جب تک کہ جبری گمشدگیوں کو فوجداری قانون میں ترمیم کے ذریعے جرم قرارنہیں دیا جاتااور یہ عدالت قانون سازوں کوتجویز دیتی ہے کہ اگر مستقبل میں وفاقی حکومت فوجداری قانون میں ترمی کا کوئی بل پارلیمنٹ میں لاتی ہے تو جبری گمشدگی کی سزا موت رکھی جائے تاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو دماغی تارچر سے بچایا جاسکے ۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ شہریوں کے کلواحقین ابھی انصاف کی منتظر ہیں جوکہ پالیسی سازوں، آئینی اداروں ، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے وال اداروں کی جانب سے فراہم نہیں کیا جارہا۔ عدالت نے کہا ہے کیہ اگر ان لاپتہ افراد میں سے کوئی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو ان کا قانون کے مطابق ٹرائل کیا جائے۔

عدالت نے قراردیا ہے کہ آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی وزیراعظم ، وزیردفاع اور وزیرداخلہ کے ماتحت کام کرتے ہیں یہ تینوں ادارے ان معاملات کو ڈیل کرتے ہیں اورلاپتہ افراد کے ورثا انہی اداروں پر الزامات لگاتے ہیں ۔

عدالت نے ان اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی کمانڈ میں ہونے والے معاملات کو دیکھیں اور اس پٹیشن میں اٹھائے گئے سوالا ت کا جواب دیں جوکہ ابھی تک بطور سربراہ حکومت وزیراعظم کی جانب سے بھی نہیں دیا گیا ۔اس لئے تین رکنی مشترکہ کمیٹی تشکیل سی جاتی ہے جس میں ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایم آئی شامل ہونگے اور یہ تینوں افسران اپنے دستخطوں کیساتھ ایک وہ تحریری رپورٹ عدالت کو دیں گے جو ریکارڈ کا حصہ بنائی جائے گی۔

دوسری وہ رپورٹ دی جائے گی جو صرف عدالت کے دیکھنے کیلئے ہوگی جس میں وضاحت کی جائے گی کہ کن حالات میں ان کے ماتحت افسران پر الزامات لگائے جارہے ہیں اور لاپتہ ہونے والوں کی بازیابی کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں اور اگر لاپتہ افراد ان کی تحویل میں نہیں ہیں توحکومت پاکستان کی طرف سے تمام وسائل دیئے جانے کے باوجود وہ ان کوتلاش کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟

عدالت نے لکھا ہے کہ ڈی جی آئی بی کمیٹی کے چیئرمین ہونگے جبکہ دیگر دو افسران ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی ممبران ہونگے۔
عدالت نے کمیٹی کے لیئے سات ٹرمزآف ریفرنس (ٹی او آرز) بھی فیصلے میں شامل کئے ہیں۔
نمبرایک
کمیٹی پہلے سے لاپتہ بلوچ طلبااور نئے لاپتہ بلوچ طلبا کے حوالے سے رپورٹ آئندہ سماعت سے قبل یاآئندہ سماعت پر جمع کرائے گی۔

نمبر دو
کمیٹی متعلقہ اضلاع اور ڈویژن کے سیکٹر کمانڈرز کے انٹرویوز کرے گی اور اس ضمن میں عدالتی جائزے کیلئے ہر کیس سے متعلق ایک الگ رپورٹ پیش کرے گی۔
نمبر تین
اگر کمیٹی لاپتہ افراد کو تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو کمیٹی مقامی انتظامیہ کے ذریعے ورثا سے رابطہ کرے گی اور متاثرہ خاندان کے افراد کے بیانات ریکارڈ پر لائے جائیں گے۔
نمبر چار
کمیٹی ان ماتحت افسران کیخلاف کارروائی کے آغازکیلئے اپنی سفارشات بھی دے گی جو جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں۔
نمبر پانچ
عدالت میں جمع کرائی جانے والی ہر رپورٹ تینوں افسران کی دستخط شدہ ہوگی۔
نمبر چھ
اگرکمیٹی میں شامل ان افسران میں سے کسی کا تبادلہ بھی کردیا جائے تو بھی یہ کمیٹی اس وقت تک کا م جاری رکھے گی جب تک نیا افسر اس منصب پر نہیں آجاتا۔
نمبر سات
اٹارنی جنرل اس کمیٹی کی معاونت کرینگے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے وکیل شیر افضل مروت پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والا حالیہ واقعہ عدالت کے سامنے رکھا اور بتایا کہ سی ٹی ڈی اور اسلام آباد پولیس نے انکے سیکٹرایف ایٹ میں واقع گھر پر آدھی رات کے وقت چھاپہ مارا جس میں پولیس ان کا لیپ ٹاپ اور دیگر اشیا سمیت انکے ملازم کو اٹھا کرلے گئی ہے اور ان کے ملازم کو کوئی سرچ وارنٹ دکھائے بغیر گرفتار کرلیا گیاہے۔ شیر افضل مروت نے بتایا کہ وہ منتخب ایم این اے اور سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور اسلام آباد پولیس کی طرف سے ہراساں کئے جانے اور اس قسم کے سلوک پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

عدالت نے فیصلے میں قراردیا ہے کہ اگرچہ شیر افضل مروت کا معاملہ اس کیس سے متعلقہ نہیں ہے تاہم اس کے باوجود جب عدالت میں موجودسیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا گیاتو انہوں نے کہاکہ وہ اس واقعے سے متعلق آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی سی ٹی ڈی سے ضرور پوچھیں گے ، تاہم شیر افضل مروت آزاد ہیں اورچاہیں تو قانونی ریلیف حاصل کرسکتے ہیں۔
عدالت فیصلے میں قراردیا ہے کہ وزیراعظم ، وزیرداخلہ، وزیردفاع اپنے سیکرٹریز کے ہمراہ آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہوں اس موقع پروزیراعظم اس مسئلے کے حل کیلئے کی گئی اپنی کوششوں کی وضاحت کریں۔کیس کی سماعت اٹھائیس فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔