اسلام آباد (عابدعلی آرائیں) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پی ٹی آئی مقدمات سے علیحدگی یا سماعت سے معذرت کے لئے بہاولنگر کے حلقہ این اے 173 سے پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت محمود نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی ہے الیکشن کمیشن بنام سلمان اکرم راجہ کیس میں 12 صفحات پر مشتمل متفرق درخواست میں 9 گراؤنڈ لئے گئے ہیں ۔

اے

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سال 2019 میں جب بانی پی ٹی آئی عمران خان وزیر اعظم پاکستان تھے تو اس دوران ایسیٹ ریکوری یونٹ کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خاندان کے ظاہر نہ کی گئی جائیدادوں کا انکشاف ہوا یہ ثابت ہو گیا کہ وہ جائیدادیں چھپائی گئی تھیں ،قانونی ماہرین سے رائے لینے کے بعد عمران خان نے نیک نیتی سے صدر پاکستان کو تجویز دی کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس دائر کریں تاکہ معاملے کی انکوائری ہو سکے ،یہ تجویز نیک نیتی سے دی گئی تھی تاکہ آئینی ذمہ داری پوری کی جا سکے لیکن بد قسمتی سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اس عمل کو ذاتی حملہ تصور کیا ۔

بی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ صدر پاکستان کی طرف سےجب یہ ریفرنس دائر کیا گیا تو سرینا عیسیٰ نے عمران خان پر ذاتی حملوں کی سیریز شروع کر دی یہ حملے دستاویزی کھلے خطوط اور عوامی بیانات کی صورت میںکئے گئے جن کو ملک کے تمام بڑے اخبارات نے شائع کیا ،عمران خان اور اس کی پارٹی پر کئے گئے ان حملوں کی نوعیت سنگین سخت تھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی بھی اپنی اہلیہ کی طرف سے اختیار کئے گئے موقف اور حملوں سے خود کو الگ نہیں کیا جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے موقف سے متفق نہیں ہیں،درخواست میں ایکسپریس ٹربیون میں یکم دسمبر 2020 اور یکم جولائی 2021 کو شائع ہونے والی خبروں اور 3 ستمبر 2021 کو فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہونے والی خبروں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔

یکم دسمبر 2020 کو شائع ہونے والی خبر میں سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا
یکم جولائی 2021 کو ایکسپریس ٹربیون میں شائع ہونے والی خبر میں سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم کو مناظرے کا چیلنج دیا
3 ستمبر 2021 کو سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کے نام خط لکھا جو فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہوا اس کا عنوان تھا کہ۔ ریاست مدینہ کا نام استعمال کرنا چھوڑ دیں

سی

یکم ستمبر 2021 کو سرینا عیسیٰ کی طرف سے عمران خان کو جو خط لکھا گیا تھا اس کے فرائیڈے ٹائمز میںشائع ہونے والے تین پیرا گراف کو درخواست کا حصہ بنایا گیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کو ایک اور کھلا خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے نام پر دکانداری بند کریں اور بتائیں کہ وہ کیسے اس کی نمائندگی کرتے ہیں ۔

وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں سرینا عیسیٰ نے کہا تھا کہ جب بھی ہمیں سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے تم سٹرائیک کرتے ہو،سرینا عیسیٰ نے یاد دلایا کہ مئی 2019 میں ان کے باپ کا آپریشن ہو رہا تھا اور ان کی بیٹی کے ہاں بچے کی پیدائش تھی تو تم نے میرے خاوند جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جھوٹا ریفرنس بنایا جس میں کہا گیا تھا کہ سرینا عیسیٰ کی پراپرٹی جج کی ملکیت ہیں ۔

خبر کے مطابق سرینا عیسیٰ نے خط میں مزید کہا کہ انھیں یہ حیرانگی تھی کہ وزیر اعظم نے کیوں اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا ہے کیونکہ عمران خان کی نگرانی میں اس کے لئے بہت کم انصاف کا اختیار تھا ،سرینا عیسیٰ نے ایک دفعہ پھر وزیر اعظم عمران خان کو اپنے اثاثوں اور جائیداد کے حوالے سے لائیو مناظرے کا چیلنج دیا ،سرینا عیسیٰ نے خط میں یہ بھی لکھا کہ اگر آپ سامنے والے سے خوفزدہ ہیں تو تحریری سوالات جمع کرا دیں

درخواست میں یکم دسمبر 2020 کو معروف صحافی حسنات ملک کے نام سے ایکسپریس ٹربیون میں شائع ہونے والی خبر کے 2 پیرا گراف بھی شامل کیئے گئے ہیں جس میں سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کو مبینہ طور پر اثاثے نہ طاہر کرنے اور ٹیکس چوری پر عہدے سے ہتانے کا مطالبہ کیا تھا ،حسنات ملک کی اس خبر میں کہا گیا تھا کہ سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان پر 4 الزامات کی فہرست دی تھی جس میں ٹیکس چوری ، اپنے اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہ کرنے ،غیر قانونی طور پر ایف بی آر ،نادرا ،ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک سے پروٹیکٹیڈ مواد لینے کے الزامات شامل تھے ،سرینا عیسیٰ نے ان الزامات کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ سے وزیر اعظم کی نا اہلی کا جواز پیش کیا تھا ،

درخواست میں یکم جولائی 2021 کو ایکسپریس ٹربیون میں عقیل افضل کی خبر کو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں سرینا عیسیٰ نے وزیر اعظم عمران خان کو تین صفحات پر مشتمل خط لکھا تھا اس خط میں سرینا عیسیٰ نے لندن پراپرٹیز کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلیویژن پر براہ راست مناظرے کا چیلنج دیا تھا ۔،
اس خط میں سرینا عیسیٰ نے یہ کہا تھا کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کی وجہ سے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف 2019 میں بد نیتی پر مبنی ریفرنس دائر کیا تاکہ انھیں استعفیٰ پر مجبور کیا جا سکے ،

خط میں سرینا عیسیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وزیر اعظم کو ان کی لندن پراپرٹیز کے حوالے ے شبہات ہیں تو وہ وزیر اعظم کے ساتھ ٹی وی پر براہ راست مناظرے کے لئے تیار ہیں وہاں پر وہ منی ٹریل کے ساتھ ساتھ آمدن کے ذرائع بھی بتائیں گی ۔
سرینا عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کو بھی اپنے غیر ملکی اثاثوں کی منی ٹریل دینا ہوگی میں ان کے جواب کا انتظار کروں گی ۔

ڈی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 5 مارچ 2022کو سرینا عیسیٰ نے کچھ مخصوص صحافیوں کوانٹرویو دیا جو یو ٹیوب پر چلایا گیا اس انٹرویو میں بھی سرینا عیسیٰ نے براہ راست عمران خان پر غصے کا اظہار کیا کیونکہ انھوں نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا تھا ، سرینا عیسیٰ نے صحافی عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں ؟میں اسے واقعی نا پسند کرتی ہوںاور وہ بہت زیادہ منافق ہیں ۔

اسی انٹرویو میں سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عمران خان کے بنی گالہ رہائش کی منی ٹریل کہاں ہے اس حوالے سے عمران خان کو سچ بتانا چاہیے کہ کیا اس کی سابق اہلیہ نے رقم دی ؟ حقیقت میں جمائمہ ایک مہربان اور وضع دار خاتون ہیں لیکن مجھے حیرانگی ہے کہ وہ کیوں اپنے سابق شوہر کو رقم دیں گی جمائمہ نے براہ راست عمران خان کو کیوں نہ دی ،عمران خان کہتا ہے کہ جمائمہ نے رقم راشد خان کے بینک اکاائونٹ میں جمع کرائی جو بینک ہی موجود نہیں ہے یہ کیسے ممکن ہوا ؟اور اگر کوئی شخص دن رات احتساب کا نعرہ لگاتا ہے تو عمران خان کو تمام شبہات کلیئر کرنے اور احتساب کے لئے سپریم کورٹ کے سامنے آنا چاہیے لیکن نہیں اس نے بڑے بڑے وکلاء کی خدمات حاصل کر لی ہیں ۔

اسی طرح اس انٹرویو میں سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں عمران خان کی غیر موجودگی میں بیٹھ کر الزامات نہیں لگا رہی عمران خان میری نظر ثانی درخواست میں فریق نمبر تین تھے اس درخواست کے کچھ حصے میں پڑھتی ہوں ،سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عمران خان نے ٹیکس چوری کیا ہے اور اس نے اپنے تین بچوں کےاثاثے اس وقت بھی طاہر نہیں کئے جب وہ نابالغ تھے ،

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سرینا عیسیٰ کا انٹرویو انتہائی طویل ہے لیکن اس انٹرویو کے اہم حصے عدالت کے سامنے لائے گئے ہیں جن میں انھوں نے عمران خان کے کردار پر حملے کئے ہیں ،عمران خان کے خلاف ذاتی بغض و عناد ناصرف ظاہر ہے بلکہ اس کا اعتراف بھی کیا گیا ہے

ای

درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ جو متضاد رائے کی مثالیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی طرف سے کہا گیا ہے اس سے عمران خان اور اس کی سیاسی جماعت سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانبداری عیاں ہو چکی ہے ،یہ مثالیں قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کے لئے کافی ہیں،دنیا میں یہ طے شدہ قانون ہے کہ کسی جج یا اس کے قریبی شخص کے عدالتی فیصلوں سے ماورا بیانات جانبداری کا اعتراض اٹھانے کے لئے کافی ہوتے ہیں ،اس حوالے سے برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے میں بھی ایک کیس کی سماعت کرنے والے جج کی اہلیہ کے ریمارکس سائلین کے خلاف تھے جس بنا پر جج کو بینچ سے علیحدگی کا فیصلہ سنایا گیا ۔

ایف

درخواست میں کہا گیا ہے کہ کیونکہ 11 فروری 2021 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے کوئی مقدمہ نہ سنے اس فیصلے کے تناظر میں عدالتی عمل پر نظر رکھنے والے آزاد ذہنوں میں اس سوال کے ابھرنے کا جواز پیدا ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبداری کے اصول پر قائم نہیں رہ سکیں گے ،

درخواست میں سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف یہ فیصلہ اس وقت دیا جب انھوں نے مکمل طور پر ایک غیر متعلقہ معاملے میں وفاقی حکومت کے اقدامات کا ازخود نوٹس لیکر عبوری حکم جاری کیا عدالت کا یہ حکم ابھی تک فیلڈ میں موجود ہے ۔

جی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی عدالتی نظام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انصاف بلا خوف وخطر اور کسی کی حمایت یا مذموم ارادے کے بغیر فراہم کیا جانا چاہیے یہ اصول آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 اور 10 میں واضح کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انصاف تک رسائی اور فیئر ٹرائل ہر شہری کا بنیادی حق ہے فاضل ججز اور چیف جسٹسز ہائیکورٹس و سپریم کورٹ آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہیں جس کی وضاحت آئین کے تیسرے شیڈول میں دی گئی ہے ،یہ بالکل واضح ہے کہ جج کو ہر صورت میں غیر جانبدار ہونا چاہیے مقدمے کی سماعت سےمعذرت صرف جانبداری کے عنصر تک محمود نہیں ہے جب کسی آبزرور کے ذہن میں جانبداری کا تاثر آجائے تو بھی سماعت سے معذرت کی جانی چاہیے، اس کیس میں جج اور ان کی اہلیہ کے درمیان واقعی عناد موجود ہے تو عام آبزرور کی نظر میں یہ عنصر جانبداری کا تاثر دینے کے لئے کافی ہے ،اس کیس میں جانبداری کے تاثر کے حوالے سے بہت کچھ شائع ہو چکا ہے ،

قاضی فائز عیسیٰ ،سرینا عیسیٰ اور عمران خان کے بیانات تاریخ کا حصہ ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی بھی اپنی اہلیہ کے بیانات کی تردید نہیں کی عدالت کے سامنے موجود اس معاملے میںعمران خان اور اس کی پارٹی کے امیدواروں بہت بڑے سٹیک موجود ہیں جن میں خصوصاً انتخابی نتائج جنھوں نے پی ٹی آئی کو متاثر کیا ہے اس معاملے میں کیس کی سماعت کرنے والے بینچ نے چیف جسٹس کی موجودگی سے جانبداری کا تاثر ابھرتا ہے اور انصاف کے مفاد میں ہو گا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی اس بینچ میں موجودگی پرجانبداری کا اعتراض اٹھایا جائے ۔

ایچ

درخواست میں کہا گیا ہے کہ نہایت ادب کے ساتھ گزارش کی جاتی ہے کہ عمران خان یا پی ٹی آئی یا اس کے ممبران کے مقدمات میں دلچسپی اور سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کنڈکٹ اور برتاؤ سے ملک کے عوام کے ذہنوں میں جانبداری کا تاثر ابھرتا ہے ۔
اس لئے یہ ظاہری شبہ اور واضح تاثر ہے کہ ایسے مقدمات جن میں عمران خان پی ٹی آئی یا پی ٹی آئی کے ممبران فریق ہوتے ہیں ان کواس بینچ میں مناسب انداز اور قانونی طریقے سے ڈیل نہیں کیا جاتا جس بینچ کی سبراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے ہوتے ہیں ،بد قسمتی سے جانبداری کا ایک تاثر پایا جاتا ہے جس کو زائل نہیں کیا جا سکتا ،موجودہ حساس خاص طور پر سیاسی معاملے میںتعصب کی کوئی علامت موجود ہونے سے نظام انصاف پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔

آئی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی یا عمران خان سے غیر متعلقہ معاملات میں بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس اور آبزرویشنز سے بھی یہ انکشاف ہوتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عمران خان اور اس کی پارٹی کے خلاف مذموم سوچ (ـiLL will) رکھتے ہیں جس سے بھی جانبداری کا تاثر ابھرتا ہے ،

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 2024 کو شائع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ وائلڈ لائف کے چیئرپرسن کو عہدے سے ہٹانے اورنیشنل پارک کووزارت داخلہ کے ماتحت دینے کے حوالے سے مقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمران خان کے دور میں 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کے ٹرانسفر کے حوالے سےمتعصبانہ اور سنگین آبزرویشن دیں ،یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمران خان احتساب عدالت کے سامنے اس کیس کے ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیںاس لئے قاضی فائز عیسیٰ کے یہ ریمارکس مذموم سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا 11 فروری 2021 کا حکمنامہ ابھی تک فیلڈ میں موجود ہے اور ان حالات میں اس طرح ریمارکس عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف جانبداری کا تاثر ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ،

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ موجودہ حالات اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ موجود اپیل اور دیگر مقدمات کی سماعت سے الگ ہو جائیں ۔