شام کے سابق صدربشارالاسد کا اقتدار ختم ہونے کی بعد ایران کی مشرق وسطیٰ میں پوزیشن مزید کمزور ہو گئی ہے اور اسرائیل اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اس حوالے سے تفصیلات اور اہم حقائق سامنے آگئے ہیں لیکن پہلے آپ کو بتاتے ہیں بشارالاسد کے شام سے فرار ہونے کی داستان کہ کیسے شام میں تختہ الٹنے کے بعد بشارالاسد آخر تک اپنے قریبی لوگوں اور معاونین یہاں تک کہ اپنے بھائی اور کزنز کو بھی دھوکہ دیتے رہے اور انھیں یہ بتاتے رہے کہ روس سے مدد آرہی ہے اور پھر خود روسی جہاز میں ملک سے فرار ہو گئے۔

اس حوالے سے غیر ملکی نشریاتی ادارے کی ایک حیران کن رپورٹ سامنے آئی ہے جس کےمطابق بشارالاسد نے ملک چھوڑنے کے اپنے منصوبے کےبارے میں کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا اس حوالے سے معلومات رکھنے والے درجنون افراد نےنشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ آخر تک بشارالاسد نے اپنے معاونین حکام حتیٰ کہ قریبی رشتہ داروں کو یا پھر دھوکے میں رکھا یا پھر کوئی معلومات فراہم نہیں کیں ،

ایک کمانڈر نے بتایا کہ ہفتے کو شام چھوڑنے سے چند گھنٹے پہلے بشارالاسد نے وزارت دفاع میں تقریباً 30 فوجی افسران کے ساتھ ایک اجلاس میں یہ یقین دہانی کرا ئی کہ روس سے فوجی مدد آرہی ہے اور انھوں نے اپنی زمینی افواج پر بھی زور دیا کہ وہ مضبوطی سے کھڑی رہیں اس اجلاس میں سول ملازمین بھی بے خبر تھے کہ بشارالاسد کے اصل ارادے کیا ہیں؟

بشارالاسد کے ایک معاون کے مطابق بشارالاسد نے ہفتے کے دن جب اپنے دفتر کا کام ختم کیا تو انھوں نے دفتر کے منیجر کو بتایا کہ وہ اپنے گھر جا رہے لیکن اس کی بجائے وہ ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہو گئے بشارالاسد نے قوم سے خطاب کرنے کے لئے اپنے میڈیا ایڈوائز کو تقریر لکھوانے کے لئے اپنے گھر بلایا لیکن جب میڈیا ایڈوائزر ان کے گھر پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا

تین معاونین کے مطابق بشارالاسد نے اپنے چھوٹے بھائی ماہر الاسد جو فوج کی ایلیٹ ،آرمڈ ڈویژن کے کمانڈر ہیں ان کو بھی اپنے ملک چھوڑنے کے منصوبے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا

ایک ذریعے کے مطابق بشارالاسد کے فرار ہونے کے بعد ان کے بھائی ماہر الاسد خود ایک ہیلی کاپٹر میں پہلے عراق گئے اور پھر وہاں سے روس روانہ ہو گئے اسی طرح ایک شامی اور ایک لبنانی فوجی افسر کے مطابق بشارالاسد نے اپنے 2 کزنز کو بھی اسی طرح پیچھے چھوڑ دیا جو بعد میں لبنان کی طرف فرار ہوتے ہوئے باغیوں کے ہاتھ لگ گئے اور باغیوں نے ایک کو مارڈالا جبکہ دوسرا زخمی ہو گیا

رپورٹ کے مطابق 2 سفارتکاروں نے خبر رساں ادارے کوبتایا کہ بشارالاسد خود اتوار کو دمشق سے ہوائی جہاز کے ذریعے فرار ہوئے اور اس دوران ریڈرا میں آنے سے بچنے کے لئے ان کے جہاز کا ٹرانسپونڈر بھی بند کر دیا گیا تھا ،پھر وہ ساحلی شہر لطاقیہ کے قریب روسی ایئربیس پہنچے جہاں سے وہ ماسکو چلے گئے جبکہ بشارالاسد کے تینوں قریبی معاونین کے مطابق بشارالاسد کی بیوی اسماء اور ان کے تین بچے پہلے سے ہی ان کا ماسکو میں انتظار کر رہے تھے ۔

روسی امداد
رپورٹ کے مطابق بشارالاسد کے لئے ان کے ملک چھوڑنے کی بات ان پر پہلے سے ہی واضح ہو چکی تھی ان کے قریبی ایک شخص اور 3 سفارتکاروں کے مطابق فرار ہونے سے پہلےکئی دنوںسے اپنے اقتدار کو بچانے اور اپنی حفاظت یقینی بنانے کے لئے مختلف جگہوں سے مدد طلب کر رہے تھے اور حلب پر باغیوں کے حملے کے اگلے دن یعنی 28 نومبر کو کے بعد ماسکو گئے تھے لیکن روس نے ان کی فوجی مداخلت کی درخواست نظر انداز کر دی کیونکہ روس مداخلت نہیں کرنا چاہتا تھا۔

شامی اپوزیشن کے رہنما ہادی البحرہ کے مطابق بشا الاسد نے اپنے معاونین کو اصل حقیقت سے آگاہ نہیں کیا اور اپنے فوجی کمانڈرز اور ایسویسی ایٹس کو ماسکو کے دورے کے بعد کہا کہ روس سے فوجی مدد آرہی ہے حالانکہ وہ ان سے جھوٹ بول رہا تھا ماسکو کے دورے کے بعد یعنی 2 دسمبر کو ایرانی وزیر خارجہ نے دمشق میں بشار الاسد سے ملاقات کی اس وقت تک باغیوں نے حلب پر قبضہ کر لیا تھا اور حکومتی فورسز کو پیچھے دھکیلتے ہوئے دمشق کی طرف آرہے تھے ۔

بشارالاسدکافوجی کمزوری کا اعتراف
ایک سینئر ایرانی سفارتکار نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں بشار الاسد دباؤ میں نظر آئے اور انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کی فوج کمزور ہو چکی ہے بشا ر الاسد کے قریبی تین افراد کے مطابق وہ ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں پناہ لینا چاہتے تھے لیکن متحدہ عرب امارات نے ممکنہ مغربی دباؤ کے پیش نظر انھیں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔

ایک روسی سفارتی ذرائع کے مطابق روس شام میں فوجی مداخلت نہیں چاہتا تھا مگر وہ بشار الاسد کو بھی اکیلا چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا ،دو علاقائی حکام کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے ہفتے اور اتوار کو قطر میں ہونے والے دوحا فورم میں شرکت کی اور اس دوران انھوں نے کو بشار الاسد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے سفارتی کوشش بھی کی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ 2 علاقائی حکام کے مطابق روسی وزیر خارجہ سنے قطر اور ترکیئے کو کہا کہ وہ باغی گروپ ہیت تحریر الشام میں اپنے رابطوں کو استعمال کر کے بشار الاسد کی روس تک محفوظ روانگی کو یقینی بنائیں ،

ایک مغربی سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ روسی وزیر خارجہ ہر حال میں بشار الاسد کی محفوظ روانگی چاہتے تھے ٹیم ذرائع کے مطابق قطر اور ترکئے نے ہیت تحریر الشام کے ساتھ بشار الاسد کی روانگی کو آسان بنانے کے لئے انتظامات کئے حالانکہ دونوں ممالک رسمی طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے باغی گروپ کے ساتھ کوئی رابطے نہیں ہیں اس کے علاوہ ماسکو نے شام کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطہ کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جب روسی جہاز بشار الاسد کو لیکر شام کی فضائی حدود چھوڑے گا تو اسے روکا یا ہدف نہیں بنایا جائے گا

مشرق وسطیٰ کا منظر نامہ تبدیل
بشار الاسد خود تو ملک چھوڑ گئے ہیں مگر ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کا منظر نامہ بدل دیا ہے ایک طرف شام میں اسرائیلی فضائیہ آزادانہ کارروائیاں کر رہی ہے اور اس نے شام کی دفاعی تنصیبات کو تقریباً تباہ کر کے رکھ دیا ہے تو دوسری طرف اس کی زمینی فورسز بھی شامی سرحد پر قائم بفر زون کو پار کر چکی ہیں اور اسرائیلی فورسز نے شام کی حدود میں واقع اہم اسٹریجک پہاڑی ماؤنٹ حرمن کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے جہاں سے شامی دارلحکومت دمشق آسانی کے ساتھ نظر آتا ہے اور اسرائیلی وزیر دفاع نے اسرائیلی فوج کو حکم دیدیا ہے کہ وہ موسم سرما کے دوران اس پہاڑی پر تعینات رہنے کے لئے تیار رہیں یعنی اسرائیلی کا یہاں طویل قیام کا ارادہ ہے جبکہ آج اسرائیلی وزر اعظم نیتن یاہو نے مقبوضہ بولان ہائیٹ کا دورہ کیا ہے اس کے علاوہ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے وسطیٰ کے موجودہ حالات اور شام میں ایران کے اہم ترین اتحادی بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے بعد اسرائیل اب ایران کی جوہرہ تنصیبات کو ٹارگٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اسرائیل کے پاس ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کا موقع
ایک اسرائیلی اخبار کی خبر کے مطابق اسرائیلی فوجی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل کی دفاعی افواج کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی پراکسیز کے کمزور ہونے اور بشار الاسد حکومت کے ڈرامائی زوال کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا موقع موجود ہے اور اس کی وجہ سے اسرائیلی فضائیہ ایران پر اس طرح کے ممکنہ حملوں کے لئے اپنی تیاریوں میں اضافہ کر رہی ہیں اسرائیلی فورسز کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایران لبنان میں اپنی اہم ٌراکیسز حزب اللہ کے کمزور ہونے اور شام میں اسد رجیم کے کاتمے کے بعد اپنی جوہری تنصیبات کو بڑھا سکتا ہے اور اپنے دفاع کے لئے ایک بم تیار کر سکتا ہے۔

اسرائیل کی فضائی برتری
جمعرات کو اسرائیلی فضائیہ نے کہا تھا کہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک شام کی فضائی حدود میں ایران کی طرف سے حزب اللہ کو ہتھیاروں کی سپلائی کے خلاف جاری مہم کے دوران اسرائیلی فضائیہ شام کے فضائی دفاع سے بڑھتے ہوئے کارروائی کرتی تھی لیکن اب اسرائیل نے شام میں مکمل فضائی برتری حاصل کر لی ہے اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق شام میں فضائی برتری سے اسرائیلی فضائیہ کو ایران پر حملہ کرنے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کرنے میں مدد ملے گی جبکہ فضائی کارروائی کی یہ نئی آزادی ایران میں ممکنہ حملوں کے علاوہ شام میں بھی اسرائیلی فضائیہ کو نئے مواقع فراہم کر سکتی ہے۔

شام کی حالیہ صورتحال سے ایک چیز واضح ہو گئی ہے کہ گذشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حماس کے ہونے والے غیر معمولی حملے نے پورے خطے کا منظر نامہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے اور شام میں کامیاب بغاوت سے بھی سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہی ملا ہے جو خطے میں موجود اپنے دشمنوں کو ایک ایک کر کے ختم کر رہا ہے اور اب اسرائیل جس کی نظر ہمیشہ سے ایران کے جوہری نظام پر رہی ہے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے جوہری پروگرام کو بھی نشانہ بنانے کا سوچ رہا ہے اور اس نئے منظر نامے میں ایران جو کچھ عرصہ پہلے تک خطے میں ایک انتہائی مضبوط پوزیشن میں نظر آتا تھا وہ اب انتہائی کمزور پوزیشن میں نظر آرہا ہے۔

اسرائیل اور حماس کا ڈھانچہ
ایران خطے میں مزاحمت کے نام سے کچھ تنظیموں کی حمایت کرتا ہے جو خطے میں ایرانی مفادات کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو نشانہ بناتی رہی ہیں ان تنظیموں میں اسرائیل کے جنوب میں حماس شمال میںحزب اللہ جبکہ شمال مشرق میں شامی حکومت میں رجیم خطے میں ایران کے سب سے بڑے اتحادی تھے اس کے علاوہ یمن میں حوثی باغی موجود ہیں جو اکثر ریڈ سیز سے گزرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں اور ان حملوں سے متعلق حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ یہ حملے غزہ میں اسرائیلی بمباری کے رد عمل میں ہوتے ہیں جبکہ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا موجود ہیں موجود 7 اکتوبر کے بعد اسرائیلی نے حماس کی اہم لیڈر شپ سمیت اس کے پورے ڈھانچے کو ہی تقریباً تباہ کر دیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کاحال بھی کچھ ایسا ہی ہے

اب شام میں بشارالاسد کا 24 سالہ طویل اقتدار بھی ختم ہو گیا ہے اور اسرائیل اس کے تمام فوجی تنصیبات کو بنا کسی روک ٹوک کے ختم کر رہا ،بمباری کر رہا اور اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب اردن اور ترکئے سمیت خطے کے اہم مسلم ممالک بھی ایران کی ان پراکسیز کے خلاف رہے ہیں ،

حزب اللہ کی بقا کی جنگ؟
گذشتہ سال 7 اکتوبر کو جب حماس نے اسرائیلی پر حملہ کیا تو اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بد ترین جا رحیت شروع کر دی اور اس کے بعد 7 اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر حملے اسرائیل کے لئے اپنے اہداف کے حصول کا جواز بن گئے اس کے بعد اسرائیل ،لبنان اور شام میں ایران کے اہم اہداف کو نشانہ بنا چکا ہے پاسداران انقلاب کے القدس فورس کے اہم کمانڈرز کو قتل کر چکا ہے یہاں تک کہ نومنتخب ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری کے بعد اسرائیل نے ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو مار ڈالا جبکہ خطے میں ایران کی سب سے طاقتور ملیشیا اور شام میں بشار الاسد کی مدد گار حزب اللہ کی لیڈر شپ کوبھی اسرائیل تقریباً ختم کر چکا ہے اور اب حزب اللہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔

رواں سال ستمبر میں اسرائیل نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کو حملے میں مار ڈالا اس کے بعد نئے سیکرٹری جنرل کے لئے ہاشم صفی الدین کا نام لیا جا رہا تھا مگر کچھ ہی دن بھی اسرائیل نے انھیں بھی نشانہ بنا ڈالا ٍ جبکہ خود ایران 2 بار اسرائیل پر مزائیل حملے کر چکا ہے لیکن اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حملوں سے اسرائیل کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا جبکہ اسرائیل حوثی باغیوں کو بھی بار ہا فضائی حملوں کا نشانہ بناتا رہا ہے اس کے علاوہ عرب اسپرنگ کے دوران شام میں بشارلاسد کی حکومت کو بچانے اور ایران کے مزاحمتی تنظیموں کو فعال کرنے والے اہم ترین کردار القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو 2020 میں امریکہ نے عراق میں ڈوران حملہ کر کے قتل کر دیا تھا قاسم سلیمانی کو عراق، شام ،لبنان یمن،اور فلسطین میں ایران کی طاقت اور اثر رسوخ کا چہرہ سمجھا جاتا تھا جنھوں نے پورے خطے میں ایرانی حمایت یافتہ پراکسیز کو مضبوط کیا تھا

ایران کانقصان
اب شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے نے ایران کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے کیونکہ شام مشرق وسطیٰ میں ایران کے کنٹرول کی اہم ترین کڑی تھا بشارالاسد کی قیادت میں شام ایرانیوں اور حزب اللہ کے درمیان رابطوں کا حصہ تھا حزب اللہ کو ہتھیار اور گولہ بارود کی ترسیل میں اس کا اہم کردار تھا

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای
بشار الاسد کے کردار کے خاتمے کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا بیان بھی سامنے آیا جس میں انھوں نے اس پور بغاوت کو امریکہ اور اسرائیلی کی سازش قرار دیا تھا اور انھوں اس سازش میں شام کے ایک ہمسا یہ ملک کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام کے پڑوسی کا بھی اس سازش میں واضح کردار تھا جو اب بھی ہے خامنہ ای نے اس پڑوسی ملک کا نام تو نہیں لیا تھا لیکن بظاہر ان کا اشارہ ترکئے کی طرف تھا کیونکہ مختلف میڈیا رپورٹس میں اس باغی تحریک میں ترکئے کے کردار کا ذکر سامنے آیا تھا۔

باغیوں کی حکومت اور شامی تاریخ
غیر ملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ باغیوں نے بغاوت سے 6 ماہ پہلے ہی ترکئے کو اپنے منصوبوں سے آگاہ کر دیا تھا جبکہ اب شام میں باغیوں نے عبوری حکومت قائم کر دی ہے باغیوں کی قیادت ابو محمد الجولانی کر رہے ہیں جو ماضی میں القاعدہ کا حصہ بھی رہ چکے ہیں حالانکہ اسد رجیم کے خاتمے کے بعد انھوں نے ملک میں اتحاد کی بات کی تھی لیکن بغاوت میں کامیابی کے بعد ابو محمد الجولانی نے دمشق کی مسجد امیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے بھائیوں یہ فتح خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گی ۔
ایسی تاریخ جو ایسے خطرات سے بھری ہوئی ہے جن کے نتیجے میں شام ایرانی عزائم کا میدان بن گیا تھا جس نے شام میں فرقہ واریت اور کرپشن کو فروغ دیا یعنی ابو محمد الجولانی شام سے متعلق ایرانی پالیسیز کے خلاف ہیں اور اب ابو محمد الجولانی شام کے سب سے اہم رہنما ہیں اور ممکنہ طور پر وہی شام کے مستقبل سے متعلق فیصلے کرتے نظر آئیں گے

بشارالاسد کے فرار کے بعد صدارتی محل کی صورتحال
بشا ر الاسد کے فرار ہونے کے بعد جب باغیوں نے شام کے صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کیا اور پھر انھوں نے بین الاقوامی میڈیا کو محل تک رسائی دی تو سی این این نے اپنی رپورٹ میں دکھایا کہ باغیوں نے صدارتی محل کے داخلی راستے پر اظہار نفرت کے طور پر ایرانی جھنڈے کو رکھا ہوا تھا تاکہ لوگ اس پر چڑھ کر داخل ہوں اس ساری صورتحال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شام میں اس صورتحال میں ماضی کی طرح ایران کا اثر و رسوخ نہیں ہوگا حالانکہ شروع میں یہ خبر ضرور سامنے آئی کہ ایران شام میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے باغیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی اب یہ وقت بتائے گا کہ شام کی نئی قیادت کے ایران کے ساتھ تعلقات کیسے ہونگے لیکن 53 سال طویل اسد رجیم کے خاتمے کے بعد شام میں لوگ کافی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور 13 سالہ طویل خانہ جنگی سے متاثر شامی مہاجرین بھی اپنے علاقوں میں دوبارہ لوٹ رہے ہیں جبکہ شام سمیت دنیا بھر میں موجود شامی شہری اسد رجیم دور کے سرخ سیاہ اور سفید رنگ کے شامی جھنڈے کی بجائے باغیوں کے سبز ،سیاہ اور سفید جھنڈے کو لہراتے نظر آرہے ہیں۔

دمشق کی تاریخی مسجد امیہ میں نماز جمعہ
دمشق کی تاریخی مسجد امیہ میں بشارالاسد کے زوال کے بعد پہلی بار جمعے کی نماز ادا ہوئی جس میں شام کے عبوری وزیر اعظم محمد البشیر سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی نماز جمعہ کے بعد مسجد کے باہر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اسد رجیم کے خاتمے کا جشن منایا اسی طرح باغیوں کے گڑھ حلب میں بھی کچھ اسی طرح کے مناظر دکھائی دیئے جبکہ اسد رجیم کے مضبوط علاقوں میں سے ایک سمجھے جانے والے لطاقسہ ریجن میں بھی لوگ باغیوں کی حمایت میں جشن مناتے ہوئے نظر آئے اس کے علاوہ کئی دیگر چھوٹے بڑے شامی شہروں سے بھی اسی طرح کی خبریں سامنے آئی ہیں جبکہ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے بڑی تعداد میں جو شہری اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے وہ اب واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

بے گھر شامی افراد کی واپسی 
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 2 ہفتوں کے دوران جب سے باغیوں نے شام کے مختلف شہروں اور قصبوں میں حملے کئے اور دارلحکومت دمشق کی طرف پیش قدمی کی ہے تو اکثر بے گھر افراد ان کے پیچھے تھے وہ سڑکیں شاہرائیں جہا ں کچھ دن پہلے تک ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی نقل و حرکت ہوتی تھی وہاں پیر کے دن گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں کیونکہ ہزاروں شامی جو سالوں سے اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے تھےوہ اب اپنے گھروں کی طرف واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے وہ گاڑیوں اور ٹرکوں میں سوار تھے جن پر ان کا سامان لدا ہوا تھا بہت سے شامی اب بھی اپنے مخصؤص شہروں قصبوں اور محلوں سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔

،پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں باغی گروپ ہیت تحریر الاشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے کہا تھا کہ لاکھوں بے گھر شامیوں کا مستقبل اس کارروائی کے آغاز کی ایک بڑی وجہ تھی جبکہ شام کی حالیہ عبوری حکومت کے نگران وزیر اعظم محمد البشیر نے بھی شامی مہاجرین سے اپنے ملک واپس آنے کی اپیل کی ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ ان کا سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ بیرون ملک موجود لاکھوں شامی مہاجرین کو واپس لائیں ۔واضح رہے کہ 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے لاکھوں کی تعداد میں شامی اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سقوط دمشق 13 سالہ طویل خانہ جنگی کے بعد ہوا ہے جس کے دوران لاکھوں شامی شہری یا ملک کے اندر بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے یا پھر وہ اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے سرحدوں کے پار پناہ لینے پر مجبور ہوئے 2011 میں جب بشار الاسد کے خلاف عوامی بغاوتیں شروع ہوئیں تو شام کی آبادی تقریباً 21 ملین یعنی 2 کروڑ 10 لاکھ تھی لیکن خانہ جنگی کے بعد کے برسوں میں تقریباً 5 لاکھ افراد ہلاک ہو گئے 10 لاکھ سے زائد زخمی ہو گئے اور تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ افراد اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔

سال 2024 تک اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 74 لاکھ شامی تاحال اپنے ملک کے اندر ہی بے گھر ہیں اور تقریباً 49 لاکھ افراد ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں جبکہ 13 لاکھ افراد دیگر ممالک میں آباد ہیں جن میں زیادہ تر یورپ میں ہیں شام سے تعلق رکھنے والے سب سے زیادہ پناہ گزین ہمسایہ ممالک ترکئے ،لبنان ،اردن اور عراق میں ہیں شام میں دہائیوں بعد اسد رجیم ختم ہو چکا ہے اور ہیت تحریر الشام کی قیادت میں باغیوں نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے لیکن جہاں باغیوں کو ملک کے تمام اہم اور بڑے شہروں کا کنڑول حاصل ہے وہیں ملک میں اب بھی کئی دیگر قوتیں موجود ہیں جن کی وجہ سے شام کے حالات کسی بھی خراب ہو سکتے ہیں۔

ترک گروپس میں اختلافات کا خدشہ باقی 
شام کے مشرقی علاقے امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز کے زیر قبضہ ہیں جبکہ شمال مشرق میں ترکئے کی سرحد کے قریب کا علاقہ ترکئے کی حمایت یافتہ باغیوں کے زیر قبضہ ہے جو شام کی اس نئی باغی تحریک کا بھی حصہ ہیں جبکہ جنوب مغرب میں بولان کی پہاڑی اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور اسرائیل وہاں سے باآسانی دارلحکومت دمشق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اسی طرح جنوب مشرق میں عراق کی سرحد کے ساتھ شام میں ایک امریکی فوجی اڈہ بھی موجود ہے جبکہ شام میں روس کے بھی 2 فوجی اڈے بھی موجود ہیں جن میں ایک بحری اڈہ ہے جو سویت دور میں قائم ہوا تھا جبکہ اس کے قریب ہی ایک روسی فضائی اڈہ بھی موجود ہے جہاں سے مبینہ طور پر روس نے بشار الاسد کو فرار کروایا تھا اسی طرح باغی خود بھی کئی ذیلی گروپس میں بٹے ہوئے ہیں ان کے درمیان آپس میں بھی اختلافات کا خدشہ ہے کیونکہ ماضی میں خانہ جنگی کے دوران ان گروپس کی آپسی لڑائیاں بھی چلتی رہی ہیں ۔

نوٹ: یہ موادجیوز نیوزشاہزیب خانزادہ کے پروگرام سے بھی لیا گیا ہے