فرار سے قبل کیسے دونوں نے ڈٹ جانے، لڑ جانے ، حکومت کوکوئی خطرہ نہ ہونے کے دعوے کئے؟
سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور سابق شامی صدر سے ملکی اقتدار چھن جانے کے بعد دونوں عالمی رہنماؤں کے ملک سے فرار کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور ان میں کئی پہلوؤں سے یکسانیت بھی پائی جاتی ہے یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے معاملے میں کچھ مشترکات بھی دیکھےجاسکتے ہیں ۔
بشار الاسدنے تقریبا 24 سال جبکہ شیخ حسینہ واجد 19 سال تک اقتدار کے مزے لئے۔
دونوں ممالک کے سابق سربراہ اپنے اقتدارکے خاتمے سے کچھ دیر قبل تک یہ دعوے کرتے پائے گئے کہ انکی حکومتوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے وہ مظاہرین یا باغیوں کےدباؤمیں کسی صورت نہیں آئیں گے اورحالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرینگے ۔
دونوں ممالک کے ان رہنما ؤں میں ایک یکسانیت یہ تھی کہ دونوں چوتھی، چوتھی بار اقتدار میں آئے تھے
دونوں کوشدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
دونوں رہنما اپنے خلاف چلنے والی تحریکوں کی کامیابی کے بعد فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوگئے۔
اسد خاندان شام میں تقریبا50 سال اقتدار میں رہا جبکہ شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی سیاست میں 40 سال سے زیادہ عرصے تک اہم کردار اداکیا
شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ نے 29 دسمبر 2008 کے انتخابات میں دو تہائی نشستیں جیت کر حکومت بنائی۔ تب سے پارٹی اقتدار سے باہر نہیں آنا چاہتی تھی۔2008 کے بعد بنگلہ دیش میں حقیقی معنوں میں کوئی منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے۔ اس عرصے میں ہونے والے تین قومی انتخابات میں سے دو بڑے پیمانے پر یک طرفہ انتخابات تھے۔
عالمی مبصرین کی رائے میں یک طرفہ یا مبینہ دھاندلی پر مبنی انتخابات، اپوزیشن اور اختلاف رائے کو دبانا، بے ضابطگیاں اور بدعنوانی، بیوروکریسی اور انتظامیہ پر پارٹی کا انحصار اس زوال کی چند اہم وجوہات ہیں۔
یہ خبربھی پڑھیں: تختہ الٹنے کے بعد سابق شامی صدر بشارالاسد کے فرار کی داستان
عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر تھیں اور مخالف آوازوں کو بزور بندوق دبانے کی وجہ سے طویل عرصے سے عوام کے اندر ایک لاوہ تھا جو پھٹ پڑا ہے ۔۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓبنگلہ دیشی حسینہ
شیخ حسینہ واجد 19 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں، وہ رواں سال 2024میں چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کے خلاف سخت اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے تھے اس ضمن میں ان کی حکومت نے بنگلادیشی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔
بنگلادیش میں 1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیئے جانے کے خلاف جولائی 2024میں کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے تھی۔
بنگلادیش میں کوٹہ سسٹم مخالف طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پرتشدد احتجاج میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 300 تک جا پہنچی تو طلبہ نے دارالحکومت ڈھاکا کی طرف لانگ مارچ کی کال دے دی۔
مظاہرے بے قابو ہوئے تو بنگلادیشی فوج نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ جس کے بعد اس وقت پتہ چلا جب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہوگئیں اوربھارت میں موجود بنگلادیشی ہائی کمیشن نے انکے مستعفی ہونے کی تصدیق کی۔
حسینہ واجد بھارتی شہر اگرتلہ پہنچیں جہاں سے وہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی جانب روانہ ہوئیں۔۔
شامی بشارالاسد کا عروج و زوال
تقریبا 24 سال اقتدارمیں رہنے والے بشار الاسدسترہ جولائی 2000 کواپنے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد شام کے نئے سربراہ بنے۔بشار الاسد نے 98 فی صد ووٹ لے کر ریفرنڈم جیتا تھا جس میں وہی واحد امیدوار تھے۔
شامی پارلیمنٹ نے بشارالاسد کے صدر بننے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان کے والد کی وفات کے دن ہی آئین میں ترمیم کر کے صدر کے لیے عمر کی کم از کم حد میں کمی کی تھی۔
شام کی حکمران جماعت بعث پارٹی نے ان کے والد کی وفات کے فوراً بعد ہی بشار کو افواج کا کمانڈر انچیف بھی نامزد کر دیا تھا
مارچ 2011 میں عرب بہار کے دوران، جب لوگ عرب ممالک میں آمرانہ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو شام میں بھی شہری آزادیوں اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبے کے ساتھ مظاہرے ہونے لگے۔
شامی حکومت نے ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے سخت کریک ڈاؤن کیا اور مظاہرین کو دہشت گرد قرار دیا۔ بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور پھر مسلح بغاوت کا آغاز ہوا جو بعد ازاں مکمل خانہ جنگی میں بدل گئی۔ اس میں پھر متعدد علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں اور جہادی تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں۔
سال 2012 میں حکومت نے مبینہ باغیوں کے خلاف فضائی حملوں اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا۔ شامی حکومت پر کئی مواقع پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام بھی لگتا رہا ہے جسے وہ مسترد کرتی رہی ہے۔
بشار الاسد کو روس، ایران اور اس کی حمایت یافتہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کی حمایت اور مدد حاصل تھی جس کے باعث انہوں نے باغیوں کے قبضے میں جانے والے اپنے کئی علاقے دوبارہ حاصل کر لیے۔
مارچ 2020 میں روس اور ترکیہ کے درمیان ایک معاہدے کے بعد شام میں جنگ بندی کا اعلان ہوا لیکن ملک میں حملے اور بمباری کے واقعات ہوتے رہے۔اس جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے، ملک کی جنگ سے پہلے کی نصف زیادہ آبادی بے گھر ہو گئی اور اسد کو عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
چھبیس مئی 2021 کو بشارالاسدچوتھی دفعہ 95 فی صد ووٹ حاصل کر کے صدرمنتخب ہوئے۔
نومبر 2023 میں فرانس نے بشار الاسد کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ فرانس کے یہ وارنٹ شام میں 2013 میں کیمیکل حملوں جیسے انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے شبہے میں جاری کیے تھے جن کا الزام شام کی حکومت پر لگتا رہا ہے۔
ستائیس نومبر کو باغیوں کی قیادت کرنے والے گروہ ہیئت تحریر الشام نے حملہ کیا اور اسد کی فوج سے دوسرے شہر حلب کا کنٹرول چھین لیا۔
اس کے بعد باغی تیزی سے آگے بڑھتے گئے اور حما اور حمص جیسے کئی شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اوردارالحکومت دمشق کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔