کراچی(ای پی آئی ) صوبہ سندھ میں زمینوں پر قبضوں سرکاری اداروں میں کرپشن اور کراچی میں پانی مافیا کے حوالے سے ایک سسٹم سے متعلق نئے انکشافات سامنے آگئے۔نجی ٹی وی کے مطابق کرپشن و مافیاکے سسٹم نے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کے نظام حکومت میں اپنے گہرے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سسٹم شکست کھاتا ہے ، وزیراعلی اور کابینہ سنجیدہ ہیں لیکن ان کے اوپر جو سسٹم یا سسٹم کو جو ہیک کرنے والے لوگ ہیں ان کے سامنے سی ایم اور ان کی کابینہ بالکل بے بس ہونے کا انکشاف ہوا ہے صرف کراچی میں ہزاروں ایکڑ سرکاری و نجی زمینوں پر قبضے کرلئے گئے۔
یہ انکشافات نجی ٹی وی کے پروگرام میں سامنے آئے ہیں ،پروگرام کے اینکر شہزاد اقبال نے اپنے پروگرام میں حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ سندھ میں پچھلے کئی سالوں سے ایک مبینہ سسٹم کے موجود ہونے کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں جو مبینہ طور پہ سندھ میں ایک متوازی حکومت کی طرح کام کرتا ہے اس مبینہ سسٹم کو زمینوں پر قبضے ناجائز تعمیرات رشوت کے معاملات اور پانی مافیا جیسے دیگر الزامات لگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک اور بالخصوص کراچی کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور اسی وجہ سے کراچی کے تاجروں کی اس مبینہ سسٹم کو لے کر شکایتیں سامنے آتی رہی ہیں جس کا اظہار انہوں نے پچھلے ماہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ہونے والی ملاقات میں بھی کیا اور آرمی چیف نے اس پر کاروائی کا یقین دلایا جس کے بعد دو روز پہلے سندھ کے محکمہ ریونیو اور پولیس میں اکھاڑ پچھاڑ کی خبریں سامنے آ ئیں اور ان دونوں محکموں میں اہم افسران کی تقرری اور تبادوں کو مبینہ سسٹم کے خلاف ایکشن سے جوڑا گیا
یہ خبر بھی پڑھیں: سندھ میں زمینوں پرقبضے،اداروں کی کرپشن کا منظم نظام بے نقاب،آرمی چیف کوشکایت پرایکشن
اینکرشہزاد اقبال نے کہاکہ کل (ہفتہ کو) ہمارے پروگرام میں کراچی کے معروف بزنس مین حنیف گوہر جنہوں نے آرمی چیف سے ملاقات میں ان کے پوچھنے پر کراچی کے مسائل سے آگاہ کیا تھا انہوں نے کل ہمارے پروگرام میں سسٹم کے خلاف ایکشن کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ کا اینٹی انکروچمنٹ کا محکمہ دراصل انکروچمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہے جو زمینوں پہ قبضے کرتا ہے مگر اب آرمی چیف کے ڈنڈے کی وجہ سے ایکشن شروع ہو گیا ہے
اس دوران صنعتکار و تاجرحنیف گوہرکا14 دسمبر 2024کے پروگرام کا کلپ چلایا گیا
جس میں حنیف گوہر کہہ رہے ہیں کہ جب آرمی چیف کو ہم نے ایک مرتبہ کہا اور اب جب دوبارہ دو مہینے کے بعد کہا تو یہ اس کا شاخسانہ ہے کہ آرمی چیف نے تب اپنا ڈنڈا اٹھایا اور کلیئر ہدایات دی ہیں کہ مجھے یہ سسٹم نہیں چاہیے اس شہر میں اب اس سسٹم کو کرش کریں ، ختم کریں۔تو اللہ کا شکر ہے کہ دیر آئے درست آئے کہ انہوں نے اینٹی انکروچمنٹ فورس بنائی ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اینٹی انکروچمنٹ فورس آپ یا میرے لیے نہیں بنی ہوئی وہ بنیادی طور پران کے لیے قبضہ کرانے کے لیے بنی ہوئی ہے اس کا نام میں سمجھتا ہوں غلط رکھا ہوا ہے وہ اینٹی انکروچمنٹ فورس نہیں ہے وہ انکروچمنٹ فورس ہے جو ان کی کارندوں کے ساتھ جا کے زمینوں کو انکروچ کراتی ہے اور دوسرے کے مالکوں کے چوکیداروں کو نکال کر ان کے لوگوں کو زمینوں پر بٹھاتی ہے
سسٹم کے خلاف کریک ڈاؤن کا کریڈٹ آرمی چیف کے نام
اینکر شہزاد اقبال کے مطابق
حنیف گوہر مبینہ سسٹم کے خلاف کریک ڈاؤن کا کریڈٹ آرمی چیف کو دے رہے تھے جبکہ اس پوری صورتحال میں اہم بات یہ ہے کہ اگر سندھ میں بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے کیے جا رہے ہیں دہشت کا بازار گرم ہے اور سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کی پشت پناہی میں ایک سسٹم کئی ناجائز اور غیر قانونی کام کر رہا ہے تو اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہونی چاہیے ۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ جس کی یہ ذمہ داری ہے کاروباری طبقہ اسی کے خلاف چارٹ شیٹ کر رہا ہے سندھ میں مبینہ سسٹم کے خلاف کاروائی کی کیا حقیقت ہے اور سندھ میں دو تین روز پہلے جو تقرری اور تبادلے ہوئے کیا اس کا تعلق بھی سسٹم کے خلاف ایکشن سے ہے اور اس کاروائی کا دائرہ کیا مزید پھیلایا جا سکتا ہے ہم ان معاملات میں بات کریں گے اس کے لیے ہم نے سندھ حکومت سے رابطہ کیا کئی وزراء اور جو عہدے دار ہیں ان سے رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا اس پر ہم اب بات کریں گے ۔
شہزاد اقبال کے مطابق جیو نیوز کے نمائندہ امداد سومرو نے 2 دن پہلے یہ خبر دی کہ بڑے پیمانے میں سندھ میں ٹرانسفر ز،پوسٹنگ ہوئی ہے پولیس کے محکمے بھی بیوروکریسی میں بھی اور ہفتہ کوجیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں معروف بزنس مین حنیف گوہر موجود تھے تو انہوں نے کہا اس کا بیک گراؤنڈ یہی ہے کہ آارمی چیف سے جو بزنس کمیونٹی کی ملاقات ہوئی تھی وہاں کئی شکوے شکایت ہوئے تھے کراچی کے معاملات کے حوالے سے جس پہ لینڈ مافیا ہے پانی کا مسئلہ ہے سڑکوں کا ایشو ہے اور اس کے بعد یہ سارا ایکشن لیا گیا ہے۔آپ کی کیا اطلاعات ہیں یہ جو ٹرانسفر پوسٹنگ ہے اس کا تعلق اسی سے ہے کہ جو ایک سسٹم کراچی میں کام کر رہے ہیں اس کو توڑنا ہے
سسٹم کے سندھ کے نظام حکومت گہرے پنجے
رپورٹرامداد سومرو نے بتایا کہ کرپشن ومافیاکے مبینہ سسٹم نے نہ صرف کراچی کے سارے نظام حکومت پر بلکہ پورے سندھ کے نظام حکومت میں اپنے گہرے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سسٹم شکست کھاتا ہے یا بزنس کمیونٹی کےموقف کو درست سمجھا جاتا ہے جیسے بزنس کمیونٹی کے لیڈر نے کہا کہ آرمی چیف سے بزنس کمیونٹی کے لوگوں نے ملاقات کی شکایت کی اور یہ ایک آغاز ہو چکا ہے لیکن آپ اس آغاز کو علامتی( SYMBOLIC)کہہ سکتے ہیں کیونکہ سسٹم کے بڑے گہرے پنجے ہیں اور ابھی بڑے بڑے اہم عہدے دار اور بڑے بڑے کارندے اپنی اپنی جگہ پہ موجود ہیں یہ چھوٹے چھوٹے مہرے ہیں چار پانچ ڈی سی، کچھ ایس ایچ اوز کو ہٹایا گیا یہ کافی نہیں ہے اور اس سلسلے میں سسٹم کو ایک بڑے اہم مہرے جو ایک ورکس اینڈ سروسز کے بڑے اعلی افسر تھے جن کے لیے مشہور تھا کہ ان کی پوزیشن سیکرٹری سے اور منسٹر سے بھی زیادہ پاور فل ہے کئی سالوں سے وہ چار پانچ عہدے اور ایک جو ورکس اینڈ سروسز کے پروجیکٹ ڈائریکٹر مقرر ہیں تو یہ سسٹم بہت گہرا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کاروائی کا یہ آغاز اپنے انجام تک پہنچتا ہے یا سسٹم اب اس کو مینج کر جاتا ہے
اینکرشہزاد اقبال نے رپورٹر سے کہاکہ آپ یہ بڑی اہم بات کر رہے ہیں کیونکہ جو لوگ بھی کام کر رہے ہوتے ہیں ان کو ایسیاسی و غیرسیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک معمولی سی کارروائی ہے لیکن اس سے کیا بیورو کریسی میں کوئی میسیج گیا ہے کیونکہ کئی لوگ ایسے تھے اس میں جو افسران کافی ٹائم سے اپنی پوزیشن پر موجود تھے اور ان کو بھی تبدیل کیا گیا تو اس سے ایک میسیج جائے گا بیوروکریسی میں یا نہیں ؟
آرمی چیف کے ڈنڈے پر ایکشن کا پیغام
رپورٹر امداد سومرونے جواب دیا کہ ملا جلا رجحان ہے زیادہ تر تو بیوروکریسی میں میسج گیا ہے سیاسی حلقوں میں بھی پیغام گیا ہے کہ کارروائی شروع ہو گئی ہے اور طاقتور سرکلز کی طرف سے کاروائی شروع ہوئی ہے تو کچھ خوف کا عنصربھی ہے کہ اب ہمارے خلاف بڑی زبردست کاروائی بھی ہوگی لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ کاروائی شروع بھی ہوتی ہے پھر وہ کاروائی مینیج ہو جاتی ہے اس کی کئی سیاسی وجوہات ہیں کوئی انتظامی وجوہات ہیں اس پہ ہم کہہ نہیں سکتے لیکن اس دفعہ امید تو یہ ہے کراچی کے عام شہری کو سندھ کے عام شہری کو اور پورے سندھ کے شہریوں کو اور بزنس کمیونٹی کو خاص طور پرریلیف ملے گا یہ پنجے گاڑے ہوئے بدبودار سسٹم اور اس کے قانون قاعدے سے ماورا کارندوں سے جان چھوٹے گی.
امداد سومرو نے کہاکہ صوبے میں ایکinvisible گورنمنٹ ہے جس کا سی ایم بھی الگ ہے اور جس کے پولیس افسر بھی الگ ہیں اور پولیس افتر ان کے ماتحت کام کرتے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ یہ سسٹم ختم ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اس میں کراچی کے شہریوں کو تو بڑی اچھی امید ہے بیوروکریسی میں میسج بھی چلا گیا ہے کہ اب یہ کاروائی شروع ہو گئی ہے لیکن اس سسٹم کی پشت پناہی کرنے والے لوگ اور اس سسٹم کے اہم عہدوں، سیکرٹری لیول، ڈی آئی جی، ایس ایس پی لیول پہ ابھی تک وہ لوگ اپنی جگہ پر موجود ہیں
سندھ میں invisible حکومت
اینکر شہزاد اقبال نے رپورٹرسے سوال کیاکہ آپ نے بات کی ایکinvisible حکومت ہے invisible سی ایم ہے لیکن ایک visible سی ایم بھی ہیں چیف منسٹر مراد علی شاہ صاحب جنہوں نے اب یہ کہا ہے کہ جو لینڈ کا معاملہ ہے اس کو بھی کمپیوٹرائز کریں یہ انہوں نے احکامات دیئے ہیں اور اس سے پہلے ہم نے دیکھا تھا کہ آرمی چیف کے ساتھ کاروباری برادری کی جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں انہوں نے بتایا تھا کہ جو کیئر ٹیکر سیٹ اپ میں کام ہوا تھا اس کو بھی ریورس کیا گیا ہے تو چیف منسٹر سندھ اور ان کی کابینہ اس کریک ڈاؤن کے حوالے سے کتنا سیریس نظر آرہے ہیں ؟
وزیراعلی سندھ ،کابینہ سنجیدہ
امداد سومرو (نمائندہ جیو نیوز )نے کہاکہ چیف منسٹر تو ہمیں بڑے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں اور ان کی کابینہ بھی سنجیدہ نظر آتی ہے لیکن سیاسی مجبوریاں یہ ہیں کہ ان کے اوپر جو سسٹم یا سسٹم کو جو ہیک کرنے والے لوگ ہیں ان کے سامنے سی ایم اور ان کی کابینہ بالکل بے کس ہےآپ نے کیئر ٹیکر گورنمنٹ کی بات کی تو کیئر ٹیکر گورنمنٹ میں جسٹس مقبول باقر جو اس وقت کیئرٹیکر چیف منسٹر تھے انہوں نے اپنی ٹیم کے ذریعے کراچی کے پانچ اضلاع ملیر، شرقی ،غربی ،کیماڑی اور کورنگی میں ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین پر قبضہ کررکھا ہے اس میں 80 فیصد سرکاری زمین ہےجبکہ 20 فیصد پرائیویٹ لوگوں کی زمین ہے.اسی سسٹم کے کارندوں نے بڑے پیمانے پرزمینوں پر قبضہ کررکھاہے صرف ضلع غربی کی ایک چھوٹی سی تحصیل منگھو پیرمیں ساڑھے پانچ ہزار ایکڑ زمین قبضہ کی گئی ہے سرکاری زمین اس میں کچھ زمین پرائیویٹ لوگوں کی بھی ہے جو سسٹم کے لوگوں نے قبضہ کی اس کے بعد ضلع غربی کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی، سی ایم آئی ٹی کی رکاری رپورٹ میں بڑے پیمانوں پہ ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندوں کے ڈومیسائل بھی بنائے گئے وہ رپورٹ اپریل کے مہینے میں اس وقت سی ایم آئی ٹی کے سربراہ شکیل نے سندھ کے وزیراعلی کے حوالے کی تھی لیکن آج 7 ،8 ،9 مہینے گزر چکے ہیں کوئی ایکشن نہیں ہوا حالانکہ رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ یہ یہ افسران ان میں ملوث ہیں ان کو سزا دی جائے اور یہ زمین واپس دی جائے اورسرکار کے ریکارڈ میں اس کو درست کیا جائے لیکن اس پر ابھی تک سات 8 مہینے کے باوجود سی ایم ہاؤس کی طرف سے یا سی ایم کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے۔زمینوں پر قبضے سے متعلق بزنس کمیونٹی جو دعوی کرتی ہے وہ بالکل درست ہے ۔
مسائل سیاسی حکومتوں سے بالاتر
شہزاد اقبال نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ امداد صاحب زیادہ تر معاملات اب اس صوبائی حکومت نے حل کرنے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن بزنس کمیونٹی کا شکوہ بھی بیوروکریسی سے ہے لیکن کچھ ایسے مسائل ہیں جو سیاسی حکومتوں سے بھی بالاتر ہیں کیونکہ کراچی میں آپ نے بھی دیکھا ہے ایم کیو ایم کے خلاف یا الطاف حسین کے لوگوں کے خلاف آپریشن ہوا وہ کامیاب ہوا، لیاری گینگ کے خلاف آپریشن وہ کامیاب ہوا منگو پیر جیسے علاقے جو نوگو ایر یا تھے وہاں پہ آپریشن کامیاب ہوئے لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جس کا حل کوئی نہیں نکال سکا وہ ہے پانی ٹینکر کے ذریعے گھروں پہ پہنچ جاتا ہے لیکن نلوں میں نہیں آتا ،. مرتضیٰ وہاب کہہ رہے ہیں میں تو خود اس کے خلاف ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو غیر سیاسی لوگ ہیں ان کی سرپرستی حاصل ہیں کیاایسے مسائل بھی ہیں کراچی میں؟
کراچی،سندھ کے باسیوں کا شکوہ
رپورٹر امداد سومرو نے جواب دیا کہ کراچی کے شہریوں اورسندھ کے باشندوں کا سب سے اہم شکوہ یہ ہے کہ جب پانی میں ٹینکر سے پہنچتا ہے تو وہ پانی لائن میں کیوں نہیں آتا وہ لائنیں بند کیوں ہیں واٹر بورڈ اس ضمن میں اپنی ذمہ داری مکمل کرنے میں کیوں ناکام ہے ؟کون سی قوتیں ہیں اگر کوئی غیر سیاسی قوتیں ہیں تو ان کو ظاہر کرنا بھی سیاسی حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت یہ بتائے کہ ہمیں یہاں یہاں رکاوٹیں آتی ہیں صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ہماری کے ایم سی کی عملداری جو 40 یا 45 فیصد کراچی میں ہے تویہ بے بنیاد جوازہے ۔
شہزاد اقبال نے پھر کہاکہ لیکن امداد صاحب اس میں ایک جو آپ نے بات کی کہ یہ کہا جاتا ہے صوبائی حکومتوں کی جانب سے کہ 40 یا پینتالیس فیصد کنٹرول ہے کراچی میں یہ بات حقیقت بھی ہے کیونکہ مجھے یاد ہے مصطفیٰ کمال صاحب جب میئر تھے وہ بھی یہی کہتے تھے کہ بہت سارا حصہ کنٹونمنٹس کے پاس ہے ڈی ایچ ایز کے پاس ہے ملیر کنٹونمنٹ اور کئی کنٹونمنٹس وہاں پر ہیں جس کی وجہ سے مکمل کنٹرول تو نہیں ہوتا چاہے وہ لوکل باڈیز کی گورنمنٹ ہو یا صوبائی حکومتیں ہوں
اس پر رپورٹرامداد سومرونے جواب دیا کہ پہلے مصطفی کمال یااب مرتضیٰ وہاب صاحب نے یہ کہا ہے کہ میں کراچی کا 40 فیصد کا یا 45 فیصد کا ناظم ہوں لیکن وہ تو کلیم کرتے ہیں کہ وہ پورے کراچی کے ناظم ہیں تو تمام کنٹونمنٹ بورڈزمیں پانی پہنچانے کی مکمل ذمہ داری واٹربورڈ اورکراچی کے میئر کی ہے
شہزاد اقبال نے پروگرام کا اختتام کرتے ہوئے کہاکہ کراچی میں پانی کا معاملہ ایسا معاملہ ہے جس پہ حنیف گوہر نے بتایا کہ آرمی چیف کے ساتھ بزنس کمیونٹی کی میٹنگ ہوئی تھی وہاں یہ مسئلہ بھی اٹھایا گیا کہ جو پانی کا مسئلہ ہے وہ ڈی جی رینجرز کے ساتھ بھی اٹھایا گیا لیکن اس کا کوئی حل سامنے نہیں آ سکا اس لیے آرمی چیف سے یہ ریکویسٹ کی گئی کہ آپ نے اس معاملے کو بھی دیکھیں جس پر یقین دلایا گیا کہ تمام جو کراچی بزنس مینز کے مسائل ہیں ان کو دور کیا جائے گا ۔


