اسلام آباد (ای پیآئی ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ شادی سے عورت کی قانونی حیثیت اور خود مختاری ختم نہیں ہوتی۔
باپ کی جگہ بیٹے کی طرح اُس کی شادی شدہ بیٹی کو بھی سرکاری ملازمت پر رکھا جا سکتا ہے اور ایسا نہ کرنا امتیازی سلوک و آئین کے خلاف ہے.
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے تازہ ترین فیصلہ میں کہا ہے کہ ’عورت کے قانونی حقوق، اس کی شخصیت اور اس کی خودمختاری کو شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی اُن حقوق کا انحصار شادی شدہ نہ ہونے پر ہے۔
فیصلہ کے مطابق درخواست گزار زاہدہ پروین کو گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول، ضلع کرک، میں پرائمری سکول ٹیچر (بنیادی تنخواہ سکیل-12) میں ملازمت خیبرپختونخوا سول سرونٹ (تقرری، پروموشن اور ٹرانسفر) رولز، 1989 (قواعد) کے 10(4) کے تحت بذریعہ آرڈر مورخہ 17.03.2023 کو دی گئی۔
اس کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (زنانہ)، ڈسٹرکٹ کرک نے 15.05.2023 کے حکم کے ذریعے شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر درخواست گزار کی تقرری کا حکم واپس لے لیا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ درخواست گزار خاتون ٹیچر کی خدمات ایک امریکی فقیہہ، قانونی نظریہ دان اور سیاسی فلسفی مارتھا فائن مین کے الفاظ کی بنیاد پر ختم کر دی گئی تھیں۔ مقدمہ C.P.L.A. نمبر 566-P/2024 2 ایک وضاحتی خط مورخہ 21.02.20202 پر (مضبوط وضاحت)، جس میں کہا گیا ہے کہ سروس کے دوران وفات پانے والے سرکاری ملازم کے بیٹے/بیٹی کے کوٹے کے تحت تقرری کا فائدہ کسی ایسی خاتون کے لیے دستیاب نہیں جس نے شادی کر لی ہو۔
صوبائی حکومت کی جانب سے 28.04.2023 کو مزید رہنمائی/وضاحت جاری کی گئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ شادی شدہ بیٹی کو صرف اسی صورت میں تقرری کا اہل سمجھا جا سکتا ہے جب وہ اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر چکی ہو اور اپنے والدین پر انحصار کرتی ہو۔
اب سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو بنیادی حقوق اور آئین میں دیے گئے برابری کے اُصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا ہے۔