اسلام آباد(عابدعلی آرائیں) ریفرنسزکا سامنا کرنے والے پاکستانی سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکاز نوٹس کاجواب کونسل میں جمع کروا دیا
ایڈووکیٹ آن ریکارڈسید رفاقت حسین کے توسط سے دائردو الگ الگ جوابات سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جمع کرائے گئے ہیں
ایک جواب یادرخواست دو صفحات جبکہ دوسرا جواب 8صفحات پرمشتمل ہے
پہلا دو صفحات پر مشتمل جواب رجسٹرارسپریم کورٹ کی جانب سے 30نومبر کو بھجوائے گئے نوٹس سے متعلق ہے ۔ یہ نوٹس اسسٹنٹ رجسٹرارکے ذریعے بھجوایاگیا تھا
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کہتے ہیں اس جواب کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کاشوکاز نوٹس اور اس شوکاز نوٹس کا جواب منسلک کیاگیاہے۔
پہلے جواب میں استدعاکی گئی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جو شوکاز نوٹس جاری کیاگیا ہے وہ واپس لیا جائے اور میں نے جو دو آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہیں وہ مقدمات مقرر کرنے والی کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں تاکہ کمیٹی ان پٹیشنزپر آئین و قانون کے مطابق حکم جاری کرے ، جسٹس مظاہر نقوی نے کہاہے کہ ان کی پٹیشنزکوعبوری ریلیف کی درخواستوں کے ساتھ نمبر لگایاجائےاور تمام درخواستیں اس عدالت کے بینچ کے سامنے سماعت کیلئے مقررکی جائیں
یہ بھی پڑھیں: جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں نوٹس کا جواب جمع کرا دیا
دوسرا جواب
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کادوسراجواب 8صفحات اور18پیراگراف پر مشتمل ہے جس میں دس قانونی اعتراضات اور حقائق سے متعلق چار نکاتی جواب شامل ہے۔
جواب میں ایڈووکیٹ آن ریکارڈ سید رفاقت حسین کہتے ہیں کہ یہ جواب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی ہدایت پر رجسٹرارکی طرف سے 30نومبر2023کوجاری اس نوٹس کے جواب میں جمع کرایا جارہا ہے جس میں بغیر تاریخ لکھے رجسٹرارنے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کوحکم دیا تھا کہ وہ جسٹس مظاہر نقوی سے پوچھ کر بتائیں کہ کیا وہ اپنی پٹیشن کی پیروی کرنا چاہتے ہیں؟
دس قانونی اعتراضات
رجسٹرار کی جانب سے جاری نوٹس اور حکم سپریم کورٹ رولز اور پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ 2023کی خلاف ورزی ہے رجسٹرار کے پاس ایسا کوئی اختیار موجود نہیں کہ وہ کسی درخواست گزار سے یہ استفسار کرے کہ وہ کیس کوآگے بڑھانا چاہتا ہے یا نہیں اس لئے رجسٹرار کایہ نوٹس غیرقانونی ہے اور اسکاکوئی قانونی اثر بھی نہیں ہے۔
دوسرے قانونی اعتراض میں جسٹس مظاہرنقوی کے وکیل کہتے ہیں کہ انہوں نے فاضل جج کی ہدایت پر آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت پہلے آئینی پٹیشن دائر کی گئی جس کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے 28اکتوبر2023 کو جاری کیا گیا شوکاز نوٹس اور 13نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل میں ہونے والی سماعت کانوٹس چیلنج کیا گیا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک عبوری ریلیف کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی 22نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل نے چار ایک کے تناسب سے جسٹس مظاہر نقوی کو دوبارہ شوکازنوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیایہ نوٹس 24نومبر کو جاری کیا گیا جو 25نومبر کو موصول ہوا
تیسرے اعتراض میں کہا گیا ہے کہ 30نومبر کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت دوسری آئینی درخواست دائر کی گئی جس میں دوسری بار بھجوایا گیا شوکاز نوٹس چیلنج کیا گیا اس پٹیشن کے ساتھ بھی عبوری ریلیف کی درخواست دائر کی گئی جبکہ درخواستوں کی جلد سماعت کیلئے کیس مقررکرنے والی کمیٹی کے سامنے ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی ۔ اس درخواست پر کمیٹی نے ابھی تک کوئی حکم جاری نہیں کیا۔
چوتھےقانونی اعتراض میں کہا گیا ہے کہ دونوں آئینی درخواستیں بنیادی انسانی حقوق اور مفاد عامہ کی ہیں جن میں آئین کے آرٹیکلزچار،9،10A،آرٹیکل14،25،209اور210کی تشریح کا معاملہ عدالت کےسامنے ہے ۔
پانچویں قانونی اعتراض میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2کے مطابق عدالت عظمی کے سامنے آنے والی اپیل یا کوئی بھی معاملہ چیف جسٹس اور دو سینئرترین ججز کی کمیٹی کی طرف سے قائم بینچ ہی سن کر نمٹا سکتا ہے
چھٹے قانونی اعتراض میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 3 کے تحت آئین کے آرٹیکل 184تین کے تحت دائر بنیادی حقوق یا مفاد عامہ کی کوئی بھی درخواست پہلے تین کمیٹی کے سامنے رکھی جائے گی اور وہ کمیٹی معاملہ کی کارروائی کیلئے بینچ تشکیل دے گی۔
ساتویں قانونی اعتراض میں کہا گیاہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق4میں کہاگیا ہے کہ جو معاملہ آئینی تشریح سے متعلق ہوگا اس کی سماعت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ سے چھوٹا بینچ نہیں کرسکتا ۔
آٹھویں قانونی اعتراض میں کہا گیا ہے کہ نہ تو میری درخواست کو نمبر لگایا گیا ہے اور نہ ہی آج تک سماعت کےلئے مقرر کی گئی ہے اس لئے یہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی مختلف شقوں کی خلاف ورزی ہے ۔
پہلے توپریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت مقدمات مقررکرنے والی کمیٹی اپنے اختیارات رجسٹرار کو تفویض نہیں کرسکتی۔
دوسرا یہ کہ رجسٹرار کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل184تین کے تحت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کریں اس کے علاوہ بھی رجسٹرارکے پاس درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کا اختیار موجود نہیں ہے یہ اختیار صرف عدالتی بینچ کا ہے۔
تیسرا یہ کہ رجسٹرار کے اس یہ اختیار بھی نہیں ہے کہ وہ طے کرے کہ کوئی معاملہ آئینی تشریح کا ہے یا نہیں۔
چوتھا یہ کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق7 کے تحت عبوری ریلیف کی درخواست دائر ہونے کے بعد چودہ روز میں سماعت کیلئے مقرر کرنا ضروری ہے اس معاملے میں پہلی پٹیشن کے ساتھ عبوری ریلیف کی درخواست بھی دائر کی گئی تھی جوآج تک سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئی۔
نویں قانونی اعتراض میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کوبھجوائے گئے نوٹس میں26اکتوبر2023کو ہونے والی کمیٹی میٹنگ کے منٹس شامل کئے گئے ہیں انکی روشنی میں آئینی تشریح کیلئے دائر پٹیشن کمیٹی کے سامنے رکھی جانی چاہیئے تھی۔
دسویں قانونی اعتراض میں کہا گیا ہے کہ یہ نوٹس ظاہر کرتاہے کہ رجسٹرار نہ صرف پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شقوں پر عملدرآمد میں ناکام ہوئےبلکہ وہ کمیٹی کی جانب سے دی گئی ان ہدایات پر بھی عملدرآمد میں ناکام ہوئے ہیں جن میں کہا گیا تھاکہ یہ درخواستیں کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں۔
حقائق پر چار نکاتی جواب میں کہا گیا ہے کہ
(i) یہ درست ہے کہ درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل نے ان کی موجودگی میں کہا تھا کہ جب مخصوص الزامات لگائے جائیں گے تو درخواست گزار اس کا جواب دے گا۔تاہم، سینئر وکیل نے یہ نہیں کہا تھا کہ جو مخصوص الزامات لگائے گئے ہیں وہ ان سے متعلق کسی بھی دوسرے قانونی، آئینی اور دائرہ اختیار کے اعتراضات نہیں اٹھائیں گے جیسا کہ پہلی درخواست میں اٹھائے گئے تھے ۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کہتے ہیں کہ 20 نومبرکو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں سال 2020میں 4مارچ کو میری سپریم کورٹ تعیناتی کی مخالفت والے اعتراض پر چیف جسٹس نے وضاحت کی تھی، اس وضاحت کے بعد صرف اس اعتراض سے دستبرداری اختیار کی تھی۔میں نے اعتراض یہ سمجھ کر واپس لیا تھا کہ جوڈیشل کونسل غلطی تسلیم کرتے ہوئے شوکاز واپس لے گی،
جسٹس مظاہر نقو ی نے جواب میں لکھا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کو میں نے 30نومبر کو ایک خط دیا تھا جس میں اصل صورتحال سے آگاہ کیا گیا تھا، جسٹس مظاہر نقوی نے وہ خط بھی اپنے جواب میں شامل کیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی کہتے ہیں کہ انہوں نے جسٹس سردار طارق مسعود کی سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شمولیت پر بھی میں نے اعتراضات اٹھائے تھے ۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ انہیں دائرہ اختیارکے بغیر جاری پہلا نوٹس واپس لیے بغیر دوسرا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے حالانکہ میں نے اپنی پہلی درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ پہلا شوکاز نوٹس بغیر قانونی دائرہ اختیارکے جاری کیا گیا ہے ۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہاہے کہ سپریم کورٹ کو ان کی پہلی پٹیشن میں اٹھائے گےقانونی نکا ت کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ حقائق سے ظاہر ہےکہ وہ ایک Alive Issueہے۔ اور درخواست گزار نہ صرف اپنی پہلی درخواست کی پیروی بھی کرنا چاہتا ہے بلکہ یہ درخواست گزار کا بنیادی آئینی حق ہے۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے30نومبرکودائر اپنی دوسری درخواست میں واضح طور پر کہا ہے کہ یہ درخواست پہلی درخواست کے متبادل کے طور پر دائر نہیں کی جارہی اس لئے میں20نومبر کودائر کی گئی پہلی آئینی درخواست کی بھرپور پیروی کروں گا،
جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست کی ہے کہ انہیں جاری کیا گیا نوٹس واپس لیا جائے اور دونوں درخواستیں مناسب احکامات کےلئے متعلقہ کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں اس کے علاوہ عبوری ریلیف کی درخواستیں بھی نمبر لگا کر سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کی جائیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست کی ہے کہ ان کایہ جواب بھی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے،
جسٹس مظاہر نقوی نے جواب کی نقول چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، سینئرترین جج جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو بھی بھجوائی ہیں۔