ملک میں سیاسی استحکام کے لئے گزشتہ کئی ماہ سے پارلیمانی جمہوری حلقوں میں پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت پر زوردیاجارہا تھا کیونکہ عام انتخابات کے بعد سے سیاسی کشیدگی آئے روز بڑھتی جارہی ہے 9مئی26نومبر کے سانحات پرتشددواقعات ہوئے مگر ماضی کے برعکس اس بار مشترکہ اجلاس کی بیٹھک نہ لگی۔سیاسی استحکام نہیں بلکہ حکومت نے اپنی ضرورت کے تحت جمعہ کو مشترکہ طلب کیا ۔
پیکا بل کے خلاف قومی اسمبلی ، مشترکہ اجلاس کے بعد سینیٹ کوریج کا بھی بائیکاٹ کیا گیا۔اور حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فرازکی قیادت میں پی ٹی آئی ارکان سینیٹ پریس گیلری پہنچ گئے۔صدر پی آر اے عثمان خان،نوید،ایم بی سومرو،علی شیر دیگر نے خیرمقدم کیا۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کے موقع پر بھی پارلیمان میں پیکا بل کے خلاف صحافی سراپا احتجاج بن گئے ۔پارلیمانی رپورٹرز نے کالی پٹیاں باندھ رکھی تھیں ۔اجلاس اس لئے طلب کیا گیا تھا کہ 8 بلز صدر مملکت کی جانب سے اعتراضات لگا کر واپس بھجوائے گئے تھے۔
تحریک انصاف نے مشترکہ اجلاس میں بھی روایتی احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اووو اووو کی آوازیں نکالی گئیں ۔اپوزیشن کے شور شرابے میں مشترکہ اجلاس میں قانون سازی شروع ہوئی۔ ٹریڈ آرگنائزیشن ،قومی کمیشن برائے انسانی ترقی،این ایف سی ادارہ برائے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی ملتان، نیشنل اسکلز یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی، قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی کے قیام کے بلز کی منظوری دے دی گئی۔
ہنگاموں میں مجلس شوری نے درامدات اور برامدات انضباط ایکٹ نیشنل ایکسیلنس انسٹیٹیوٹ بلزمجلس شوریٰ نے منظور کر لیے چار موخر کر دیے گئے۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 12 فروری صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
پی ٹی آئی ارکان نے پلے کارڈز اٹھا کر باہر تک مارچ کیا اور کسی انجانے خوف کے پیش نظر شاہراہ دستور جانے کی بجائے پارلیمینٹ کے احاطے میں کپتان کی رہائی کے لئے ریلی نکالی گی ارکان پارلیمان نے نعرے لگائے ۔سینیٹ اجلاس شروع ہوا تو وہاں بھی اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی میں ڈیجیٹل نیشن اور پیکا سمیت چار بلز پیش کئے گئے وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑپیش پیش ہیں ۔
میڈیا نے نعرے لگاتے ہوئے بائیکاٹ کردیا اور پریس لاونج میں احتجاجی اجمتاع ہوا توقع تھی کہ حکومتی عہدیدار آرہے ہونگے ۔اچانک آمد ہوئی اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کی قیادت میں پی ٹی آئی ارکان کی ۔ ان میں سینیٹر عون عباس بپی،سینیٹرفوزیہ ارشد،سینیٹرگردیپ سنگھ،سینیٹرفلک ناز،سینیٹر ہمایوں مہمند،سینیٹرسیف اللہ نیازی،سینیٹر زیشان خانزادہ شامل تھے.
پی ٹی آئی نے دعوی کیا ہے کہ ان کی سوشل میڈیا میں غیرمعمولی مقبولیت کے توڑ کے لئے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی جانب سے پیکا سمیت دیگر قانون سازی کی جارہی ہے تاہم شبلی فراز نے حکومتی جماعت کا انتباہ کیا ہے کہ چراغ سب کے جلیں گے ہوا کسی کی بھی یہ انھوں نے احمدفراز کے اشعار سنانئے ہیں ۔
دوسری طرف ایک وفاقی وزیرنے پیپلزپارٹی سے ساتھ نہ دینے کا جو شکوہ کیا ہے غلام گردشوں میں اس رکن پارلیمان سے اس نامہ نگار کی ملاقات ہوگئی ۔ تفصیلات پوچھی تو پیپلزپارٹی کے رکن پارلیمان نے کہا کہ منصوبوں کے حوالے سے ہمارے دور کے طعنے دیئے جاتے ہیں اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی ساتھ دے ،یعنی ۔۔۔۔ ساتھ بھی دیں حساب بھی دیں کیوں۔۔۔اس رکن سے یقیناًسب آگاہ ہوگئے ہونگے حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجودسخت ناقد ہیں ۔
پی ٹی آئی روایتی احتجاج تک محدود ہوکر رہ گئی ہے نئے احتجاجی رنگ کی پارلیمانی گیلریوں میں تزکرے سننے کہ کپتان سے براہ راست نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کسی موثر احتجاج کی حکمت عملی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے جب کہ اب تو پیپلزپارٹی بھی کسی اور موڈ میں نظر آرہی ہے ۔
ناقدین نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی آمد نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے مزاج کو تبدیل کردیا ہے ۔ اتحادیوں کے تازہ ہوے کے جھونکے اب اپوزیشن کو محسوس ہورہے ہیں اوراس سیاسی فرط بخش ہوا پر پی ٹی آئی مشکور بھی نظر آتی ہے ،مذاکراتی نازک ڈور کو جارحانہ انداز میں توڑ دیا گیا ہے اور توقع کہیں اور لگالی گئیں ہیں یہ تبصرے بعض تجزیہ نگاروں کے جن کی پارلیمانی گیلریوں میں بازگشت سنائی دی کہ اب پی ٹی آئی کا بیانیہ کا دوردورہ ہے کیونکہ سفارتی محاز کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔
اس ساری صورتحال میں پیپلزپارٹی کی صاف چھپتے بھی سامنے آتے بھی نہیں والی ہے اور اپنے اصل فریق کا مکمل ساتھ دینے کی بجائے دوطرفہ حمایتی بات کی جارہی ہے یعنی سب راضی ۔