اسلام آباد(ای پی آئی ) سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے چائلڈ سروسز آفیشلز (امریکہ)کی جانب سے ساڑھے 6سالہ پاکستانی نژاد بچے کی تحویل کے معاملہ پر دائر درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔
آئینی بینچ نے امریکی عدالتوں کے فیصلوں میں کسی قسم کی مداخلت کرنے یاامریکی حکام کے خلاف کسی بھی قسم کے احکامات جاری کرنے سے انکار کردیا۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ درخواست گزار وفاق پاکستان کے خلاف حکم مانگ رہی ہیں، کیا امریکی عدالت پاکستان کی سپریم کورٹ کے خلاف حکم جاری کرسکتی ہے؟ اورکیاہم اس حکم پر عمل کے پابند ہوں گے ؟، کیا ہم امریکی عدالت کے حکم جاری کرسکتے ہیں اور امریکی عدالت پاکستانی عدالت کے حکم پر عمل کی پابند ہوگی۔ پاکستان کامعاملہ ہوتا توہم کسی کوبھی ہدایات جاری کرسکتے تھے، اگر امریکی عدالت نے فیصلہ کیا ہے توہم کیسے مداخلت کرسکتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ہم امریکی حکام کو ہدایات جاری کریں۔ بچہ امریکی شہری ہے امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے بشریٰ احمد اوردیگر کی جانب سے وفاق پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیئے۔
خاتون درخواست گزار کاکہنا تھا کہ اس کے بچے کوجنوری2023میں نیویارک سے اغواکیا گیا اس وقت اس کی عمر 4سال تھی۔ درخواست گزارخاتون کاکہنا تھا کہ میں پاکستانی شہری ہوں اور بچے کی ماں ہوں، اس وقت میرا بچہ براس نیویارک کے چرچ میں حبس بے جا میں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے خاتون سے سوال کیا جب بچہ چھینا گیا اس وقت آپ کہاں تھیں۔ اس پر خاتون کاکہنا تھا کہ میں گھر میں تھی۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ امریکہ کی فیملی کورٹ میں کیس چل رہا تھا، اگرآپ کے خلاف کوئی فیصلہ آیا ہے توآپ اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائرکرتیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ بچے کاوالد کہاںہے۔ اس پر خاتون کاکہنا تھا کہ اس کاپتا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ انہیں صورتحال کاعلم ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ 18جنوری 2023کاآرڈر لگا ہوا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ عدالتی حکم میں نظرانداز بچہ لکھا ہوا ہے، بچے کی فلاح وبہبود کے لئے لے کر گئے ہوں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بچے کاکیا اسٹیٹس ہے۔ اس پرخاتون کاکہنا تھا کہ بچے کااوورسیز پاکستانی کااسٹیٹس ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ بچے کی 2018کی پیدائش ہے اس وقت اُس کی عمر ساڑھے 6سال ہے۔
جسٹس سید حسن اظہررضوی کاخاتون بشریٰ احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے امریکی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا، امریکی سپریم کورٹ کاآرڈر بھی درخواست کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ خاتون درخواست گزارکاکہنا تھا کہ کرپشن ہرجگہ موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ درخواست گزار وفاق پاکستان کے خلاف حکم مانگ رہی ہیں، کیا امریکی عدالت پاکستان کی سپریم کورٹ کے خلاف حکم جاری کرسکتی ہے اورکیاہم اس حکم پر عمل کے پابند ہوں گے ، کیا ہم امریکی عدالت کے حکم جاری کرسکتے ہیں اور امریکی عدالت پاکستانی عدالت کے حکم پر عمل کی پابند ہوگی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہم امریکی حکام کو ہدایات جاری کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پاکستان کامعاملہ ہوتا توہم کسی کوبھی ہدایات جاری کرسکتے تھے، اگر امریکی عدالت نے فیصلہ کیا ہے توہم کیسے مداخلت کرسکتے ہیں۔
خاتون کاکہنا تھا کہ اسٹیٹ مافیا اور چرچ مافیااتنا طاقتور ہے کہ وہ قانون کاقتل عام کررہے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاخاتون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں مشورہ دے سکتا ہوں کہ آپ وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ بیٹھ کربات کریں وہ بہتر مشورہ دے سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بچہ امریکی شہری ہے امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔